ٹریفک،جرمانے اور اصلاح کا امکان۔۔۔مہر ساجد شاد

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ سڑک پر محفوظ سفر قوانین پر سختی سے عملدرامد کے بغیر ممکن نہیں، دنیا بھر لوگ سڑک پر سفر کرنے سے پہلے اپنی ذمہ داریوں سے خود کو نہ صرف روشناس کرتے ہیں بلکہ سڑک پر سواری کے ذمہ داری سے استعمال کا عملی مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ٹریفک قوانین ہماری سہولت اور حفاظت کے لئے بنائے جاتے ہیں ان قوانین پر عمل نہ کرنے والوں کو سزائیں اور جرمانے بھی انکی عدم توجہ اور غیر ذمہ داری کی درستگی کے لئے کیے جاتے ہیں۔
آج کل بحث ہو رہی ہے کہ کیا بھاری جرمانے عوام پر ظلم ہیں ؟؟ کیا یہ جرمانے ہی مسلۂ کا حل ہیں ؟؟ کیا یہ بھاری جرمانے کسی نئی طرز کی کرپشن کے دروازے تو نہیں کھول دیں گے ؟؟
ریاست کا فرض ہے کہ اپنے عوام کو سفر کیلئے ضروری سفری سہولتیں مہیا کرے تاکہ عوام ٹریفک قوانین پر عمل کرنے میں مشکل محسوس نہ کریں۔ لاہور شہرکی بات زیر بحث ہے تو یہاں سڑکیں پکی اور ہموار ہیں لائین اور لین کے نشانات لگائے گئے ہیں، بہت سی اہم جگہوں پر سگنل فری رستے بنائے گئے ہیں چوک اور چوراہوں میں ٹریفک سگنل نصب ہیں اور ٹریفک وارڈن بھی ضروری مقامات پر اپنی ڈیوٹی دینے کیلئے موجود ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ جدید ڈیجیٹل کیمرے لگا کر سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت شہر کو محفوظ بنایا گیا ہے۔ ان حالات میں قوانین پر عملدرامد کیلئے شہریوں میں آگاہی پھیلانے کے عمومی کام کے علاوہ سزاؤں اور جرمانوں کا نفاذ ایک ضروری کام اور اہم کام ہے۔ہیلمٹ کا استعمال بھی اگر کوئی اپنی ضرورت سمجھ کر نہیں کرتا تو اپنی زندگی کے دشمن کو یقینا سزا ملنا چاہیئے۔ موٹر سائیکل اور گاڑی کی جملہ لائیٹوں کا درست ہونا، شناخت کیلئے اصلی کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹ کا ہونا، لائین اور لین کا خیال رکھتے ہوئے دائیں یا بائیں حرکت کرتے ہوئے انڈیکیٹر (اشارے) کا استعمال کرنا جیسے کام سڑک پر سفر کرنے والوں کی زندگی محفوظ بنانے کیلئے ضروری ہیں۔ سڑک کو پیدل استعمال کرنے کے لئے بھی ٹریفک قوانین اور پیدل چلنے والے شخص کے طور پر اپنے فرائض سے آگاہی ضروری ہے۔
شہر چھوٹا ہو یا بڑا ہو، سڑک مرکزی شاہراہ ہو یا اندرون شہر کی عام سڑک ہر جگہ اس پر سفر کرنے والوں کی زندگی ایک جتنی ہی قیمتی ہوتی ہے۔ جب تک ہم شہری اصولوں پر عمل کرنے والے نہیں بن جاتے ہمارے ہسپتال روزانہ سڑک حادثات کے مریضوں سے اسی طرح بھرے رہیں گے، تو گویا یہ بھاری جرمانے ظلم نہیں بلکہ قانون پر سختی سے عمل پیرا رکھنے کے ضامن ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف جرمانہ ہی اس کا حل ہے تو جواب ہے نہیں ! اسکا حل ٹریفک قوانین کی تعلیم ہے جو بچوں کو اسکول سے دینا شروع کرنا ہو گی اور لائسنس کے حصول کے وقت اس ٹریفک تعلیمی امتحان کو واقعی پاس کرنا ہوگا، لیکن جرمانہ بھی اس پراجیکٹ کا حصہ ہے جو ہمیں قوانین سے اگاہ رہنے پر آمادہ رکھتا ہے۔
یہاں ایک دوسری کہانی بھی ہے جو ہمارے معاشرے کا تاریک پہلو ہے، جب جرمانے معمولی ہوتے ہیں تو لوگ ان جرمانوں کو آسانی سے ادا کرتے ہیں اور قومی خزانے میں رقم جاتی ہے البتہ وقت ضائع ہونے بنک یا دفتر جا کر اپنے ضبط شدہ کاغذات وصول کرنے کی تکلیف اچھا سبق سیکھاتی ہے اور بار بار جرمانہ بحرحال جیب پر بھی بوجھ بنتا ہے یوں اصلاح احوال ہوتی ہے اور سڑک پر ٹریفک کا نظام بہتر ہوتا ہے، دوسری طرف بھاری جرمانے جو ایک عام آدمی کی دن بھر کی آمدن سے زیادہ ہوں سخت تکلیف اور پہلے سے گھریلو مالی مسائل میں الجھے لوگوں کیلئے اذیت کا باعث بنتے ہیں۔ سخت خوف حد درجہ احتیاط کیساتھ ٹریفک قوانین پر عملدرامد پر مجبور تو کرتا ہے لیکن اگر یہ جرمانے عام آدمی کی جیب کو اس قدر متاثر کر دیں کہ اس کے لئے گھر خاندان اس دن کی زندگی سب معاملات رک جائیں تو صورت حال سنگین ذہنی دباو کا باعث بن جاتی ہے اور ایسے حالات میں لوگ کسی انتہائی قدم کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح یہ جرمانے کا ہتھیار بدعنوانی کرپشن کا راستہ کھول دیتا ہے، اگر جرمانہ 2000 روپے ہے تو جرمانہ دینے والا اسکی ادائیگی سے پہلے کے امکانات 500/1000 کی رشوت پر کوشش کرنے لگتا ہے، اسی طرح ٹریفک پولیس کے اہلکار بھی ناکہ لگا کر دن میں صرف تیس چالیس لوگوں کو ہی چالان سے ڈرا کر رشوت کی مجبوری پر لے آئیں تو ہزاروں روپے کی آمدن ایک دن میں حاصل ہو جاتی ہے جو ان اہلکاروں کے تنخواہ سے کئی گنا ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں نہ تو ٹریفک کے مسائل حل سکیں گے نہ ہی قومی خزانے میں آمدن آسکے گی لیکن عوام کی جیب سے رقم بحرحال نکل جائے گی۔
اس مسلے کا حل یہ ہے کہ تمام ممکن وسائل کو اعتدال کیساتھ استعمال کیا جائے، ٹریفک قوانین کی تعلیم کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا جائے، پھر تعلیمی اداروں اور عوامی اجتماعات میں ٹریفک قوانین سے آگاہی مہم کو باقاعدگی سے چلایا جائے، ہر ڈرائیور کو امتحان پاس کرنے پر ہی لائسنس دیا جائے۔ جرمانے بڑھائے جائیں لیکن ہوشربا اضافہ کی بجائے تھوڑا اضافہ کیا جائے، تھوڑا جرمانہ لیکن بار بار جرمانہ قوانین پر عملدرامد کیلئے زیادہ مجبور کر سکتا ہے۔ آخر میں گذارش ہے کہ عوام کو پریشان کر کے بدظن کرنا اور ٹریفک پولیس کو کرپشن میں ملوث ہونے کے موقع مہیا کرنا کسی طور بھی گڈگورننس نہیں ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ٹریفک،جرمانے اور اصلاح کا امکان۔۔۔مہر ساجد شاد

  1. مکالمہ پر میری پہلی تحریر کا شائع ہونا بھائی Maaz Bin Mahmood کی محبتوں کا خوبصورت اظہار ہے۔ اللہ انہیں آسانیاں دے۔
    کچھ عرصہ پہلے جب سوشل میڈیا پر مکالمہ کے پلیٹ فارم سے تحاریر سامنے آئیں تو نہایت خوشی ہوئی کیونکہ ہم گوجرانوالہ میں گذشتہ کئی سالوں سےمناظرہ اور مباحثہ کی جگہ مکالمہ کے فروغ کیلئے #بیٹھک کو رواج دینے کی کوششوں مصروف ہیں اور اللہ کے فضل سے ہم #بیٹھک کو آباد کرنے پر لوگوں کو قائل کرتے جا رہے ہیں۔ خواہش تھی کہ اس پلیٹ فارم سے بھی کچھ لکھا جائے آج اس کی بھی تکمیل ہوئی، امید ہے قارئین سے اس پلیٹ فارم کے زریعے رشتہ قائم رہے گا۔ ان شااللہ

Leave a Reply