• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(چودھواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(چودھواں دن)۔۔گوتم حیات

زوہیب پر لکھی گئی “کرونا ڈائریز” کی “تیرہویں قسط” پڑھ کر ہر کوئی افسردہ تھا۔ کچھ لوگ یہ بھی جاننا چاہ رہے تھے کہ زوہیب کون تھا اور وہ کیوں ایسے مر گیا، کاش وہ یوں نہ مرتا۔۔۔
صائمہ اور طارق حسین بھی مجھ سے زوہیب کے متعلق پوچھ رہے تھے۔ طارق نے مجھے میسج بھیجا کہ
“عاطف کیا یہ حقیقت ہے؟ زوہیب تمہارا دوست تھا، اور وہ قتل ہو گیا۔۔۔۔ یا یہ صرف فکشن ہے؟؟؟”
طارق کا میسج پڑھ کر مجھے بے ساختہ “ارون دھتی رائے” کا ایک جملہ  یاد آگیا۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ
“Fiction is the greatest truth!”

اور حارث نے تو بےچین ہو کر مجھے وٹس ایپ پر وائس کِلپ کر دیا۔۔۔ حارث کی آواز سن کر میں خود افسردگی کی موجوں میں غوطہ زن ہوتا ہوا زوہیب کی تلاش میں نکل پڑا کہ شاید زوہیب کا کہیں کوئی سراغ مل جائے۔۔۔
مجھے حارث اور صائمہ کا یہ سوال بہت اچھا لگا کہ تم نے ہمیں پہلے کیوں نہیں بتایا زوہیب کے بارے میں اور یہ کب کا واقعہ ہے۔۔۔ اس کے قاتلوں کا کیا بنا، کیا وہ پکڑے گئے؟؟؟ میرے پاس حارث اور صائمہ کے ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔۔۔
زوہیب کے متعلق میں بس اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ
“زوہیب جو بھی کوئی تھا مجھے اُس سے محبت تھی اور اس کی سبز آنکھیں تو کسی کو بھی اپنا گرویدہ بنا سکتیں تھیں۔”

ایک مشہور ایرانی انڈیپنڈنٹ فلم میکر “بہمن نصیری” اپنے آبائی وطن سے بہت دور، امریکہ میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی فلم “دی گولڈن وِیل” کا ایک ڈائیلاگ ہر وقت میرے دل و دماغ میں چھایا رہتا ہے۔۔۔
وہ ڈائیلاگ ہے۔۔
“In Love Death is Only a Pause”
میں جب اپنی ڈائری کی “تیرہویں قسط” میں زوہیب کی “ناگہانی موت” کو یاد کرتا ہوں تو “بہمن نصیری” کا مندرجہ بالا “ڈائیلاگ” مجھے یاد آجاتا ہے۔ تو دوستو آپ بھی اس “ڈائیلاگ” پر غوروفکر کریں۔ اس ایک ڈائیلاگ میں کتنی گہرائی ہے۔
ہمسایہ ملک ہندوستان سے “محترم دیپک بدکی” کا یہ پیغام ہم سب پڑھنے والوں کے لیے معنی خیز ہے۔ “دیپک جی” نے میری ڈائری کی تیرہویں قسط پڑھنے کے بعد مجھے یہ پیغام بھیجا۔۔
“A community where human life has no value, such incidents are a rule and not an exception!”

اس کے علاوہ دو نہایت ہی اہم پیغامات جو مجھے موصول ہوئے، وہ میں مندرجہ ذیل میں نقل کر رہا ہوں۔
کوئٹہ سے میرے دوست “ارباب تیمور خان کاسی” نے مجھے لکھا کہ؛
“I am sorry for Zohaib, its really so tragic write up. I am still shocked on last notes of Zohaib death.”

اور کراچی سے میرے دوست “عبدالرحمٰن شیہک” نے اپنے پیغام میں لکھا کہ۔۔
“زندگی میں کچھ ایسے حالات آتے ہیں جب آدمی چاہ کر بھی کچھ کہہ نہ پائے۔۔۔ یہ تحریر انہی لمحات میں سے ایک ہے۔ میں زوہیب کی مرگِ ناگہانی پر ماتم کروں یا آپ کی تحریر کی خوش اسلوبی پر داد دوں؟؟؟
میں نہیں جانتا!

آج پانچ اپریل ہے۔ گرمی کی شدت میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ آج کا دن صبح سے ہی گرم تھا۔ کسی بھی چیز میں میرا دل نہیں لگا۔ صبح بمشکل ایک کپ چائے کا پی کر میں اپنے کمرے میں جاکر گانے سُننے لگا۔ اس دوران فیس بُک، وٹس ایپ بھی چیک کیا اور پھر موبائیل ایک طرف رکھ کر میں لیٹ گیا۔ عجیب بوجھل سی کیفیت طاری رہی۔ موڈ بدلنے کو سوچا کہ کوئی کتاب ہی پڑھ لوں لیکن کتاب کی طرف بھی ہاتھ بڑھاتے ہوئے عجیب سا احساس ہوا، جب سے لاک ڈاؤن ہوا ہے میری کتب پڑھنے کی عادت میں بھی خلل واقع ہوا ہے۔ عام دنوں میں یہ میرا معمول تھا کہ دن بھر تھکا دینے والے کاموں اور ہر روز شام سے رات گئے تک شہر کی سڑکوں پر آوارہ گردی کرنے کے بعد جب میں رات ایک، دو بجے تک تھکا ہارا گھر پہنچتا تو کوئی نہ کوئی کتاب پڑھ لیا کرتا تھا، کبھی ایک صفحہ اور کبھی آٹھ، دس صفحات لیکن اب تو گھر پر ایسی حسین  فراغت نصیب ہوئی ہے کہ کوئی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا، جب کبھی کوئی کتاب پڑھنے کے لیے دل کو آمادہ کرتا ہوں تو شہر کی پُر رونق سڑکیں میری آنکھوں کے گرد چھا جاتی ہیں اور میں اُن سڑکوں کو سوچتے سوچتے پورا دن گزار دیتا ہوں۔۔۔ میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا شہر کی وہ سڑکیں، وہ راستے بھی مجھے اِسی شدت سے یاد کرتے ہوں گے جس شدت سے میں انہیں یاد کرتا ہوں؟؟؟؟ کیا وہ راستے بھی ہمارے قدموں کے لمس کی کمی کو اپنے وجود میں محسوس کرتے ہوں گے؟؟؟

کچھ دنوں سے میں “موچی” کو بھی “مِس” کرنے لگا ہوں۔ مجھے اس کی یاد آرہی ہے، ہر روز دن بھر کے راستوں کی گردوغبار میرے جُوتوں پر نمایاں ہوتی تو میں اس گردوغبار کو صاف کروانے کے لیے موچی کے پاس جاتا تھا۔ گزشتہ تین، چار مہینوں سے یہ میرا معمول تھا کہ کام ختم کرنے کے بعد میں شام کو موچی کے پاس چلا جاتا۔ وہ خاموشی سے میرے جوتے پالش کرتا، اس دوران میں وہاں بیٹھ کر اُس کے ہاتھوں کی مہارت کو متاثر کُن انداز میں دیکھتا رہتا۔ پالش کرنے کے دوران گردوغبار اور مٹی میں اَٹے ہوئے میرے جوتوں کو دیکھ کر وہ اکثر مجھ سے پوچھتا کہ آپ پیدل بہت چلتے ہو کیا۔۔۔ اور میں اُس کو کہتا کہ ہاں جناب مجھے پیدل چلنے کا جنون ہے اسی لیے ہر روز پیدل چل چل کر میرے جوتوں کا یہ حشر ہو جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے آخری بار اپنے جوتے کب پالش کروائے تھے۔۔۔ میں سوچنے لگتا ہوں اور مجھے یاد آتا ہے کہ آج سے ٹھیک اٹھارہ دن پہلے۔۔۔ وہ19 مارچ کی تاریخ تھی اور شام کا وقت تھا جب میں نے اپنے جوتوں کی پالش کروائی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply