ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر۔۔معاویہ حسن

مسجد نبوی ﷺ کے تمام دروازے کھل گئے ہیں لیکن دکھ درد کے ماروں کا دروازہ باب السلام ابھی بھی بند ہے۔ رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ کہیں یہ بندش ہماری ان کوتاہیوں، لغزشوں اور بےادبیوں کا نتیجہ نہ ہو جو ہم روضہ مبارک کے سامنے روا رکھتے ہیں۔
تایا جان سے جب کبھی حرمین شریفین بالخصوص روضہ مبارک کے سامنے لوگوں کی تصویر کشی پر کُڑھتے دل کے ساتھ ذکر کیا تو وہ مولانا سعید احمد خان صاحب ؒ کا قول سناتے کہ مولانا اکثر فرمایا کرتے تھے، “وسائل و اسباب کے وافر مہیا ہوجانے سے جوں جوں زائرین کی آمد بڑھ رہی ہے توں توںﷲ رب العزت کی ناراضگی اور عذاب کے مواقع بھی بڑھ رہے ہیں۔ کیونکہ کثرت آمد کی وجہ سے لوگوں میں حاضری کے اداب اور سرزمین مقدسہ کے حقوق کی ادائیگی کا خیال ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ ”
جب بھی ان سے یہ قول سنتا ہوں تو ایک دفعہ بدن کپکپا جاتا ہے۔ پہلے مسجد نبوی ﷺ اور اب باب السلام کو بند دیکھتا ہوں تو لامحالہ ذہن ان گستاخیوں اور کوتاہیوں کی طرف چلاجاتا ہے جو اپنی آنکھوں سے روضہ اقدس کے سامنے ہوتے دیکھ رکھی ہیں ۔
کثرت آمد نے مقصد آمد کمزور کردیا تو لوگوں میں حاضری کی روح ختم ہوتی چلی گئی ہے۔ عشق و مستی کا جو حال ایک عاشق کا خاصہ تھا وہ ختم نہیں تو کمزور ضرور ہوا ہے۔ بیت اللہ کے سامنے دوران طواف اوراد و وظائف اور مناجات و التجاؤں کے بجائے سیلفیوں اور گروپ تصویروں نے لے لی تو بجائے یہ کہ ﷲ جلہ شانہ کا رحم و کرم متوجہ ہوتا الٹا اس کی ناراضگی کے اسباب پیدا کردیے۔ جہاں آکر اپنے اپنے آپ کو مٹانا تھا اس مقام عالیشان کو اپنی اشتہار بازی کا ذریعہ بنادیا۔
آسمان کے نیچے جو سب سے زیادہ باعث ادب و احترام جگہ ہے وہ حجرہ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ ہے جہاں صبح و شام آقا ﷺ کے پاس ستر ستر ہزار نوری فرشتے حاضری دے رہے ہیں، جہاں جبریل علیہ السلام کو بھی داخلے کے لیے پوچھنا پڑتا تھا، جہاں ﷲ تعالیٰ نے خود صحابہ کرام ؓ کو اپنے محبوب ﷺ کے پاس حاضری کے اداب بتائے ہیں ، آواز اونچی کرنے سے منع کیا ہو، وہاں آج کا مسلمان جب تمام تر اداب کو پس پشت ڈال کر آتا ہے تو بجائے کچھ پانے کے شاید کچھ کھو کر ہی جاتا ہے۔ کوئی اپنی پشت روضہ مبارک کی طرف کرکے سیلفی لے رہا ہے کوئی دوسرے کی تصویر کھینچ رہا ہے۔ کئیوں کو دیکھا ٹیلیفون کال پر دوسروں سے سلام عرض کروارہے۔ موبائل سکرین پر عورت کی تصویر نظر آرہی لیکن کچھ خیال نہیں کہ یہ مقام کتنا عظیم اور کتنے حقوق رکھتا ہے۔
صرف مدینہ منورہ کے قیام سے ہی کتنے حقوق واجب ہوجاتے ہیں کسی کو معلوم نہیں۔ چہ جائیکہ روضہ مبارک ﷺ کے سامنے آداب کا رونا رویاجائے۔ تایا جان سے ہی سنا کہ ایک دفعہ میں اور میاں سراج احمد دین پوری مدینہ منورہ کی گلیوں میں جارہے تھے کہ حضرت کو ایک مرید ملا، حضرت نے اس سے پوچھا بھائی مدینہ طیبہ کا قیام ہے کچھ پڑھتے بھی ہو۔ کہنے لگا حضرت روزانہ ایک ہزار دفعہ درود شریف پڑھتا ہوں۔ فرمایا مدینہ طیبہ کے قیام میں تو یہ بہت تھوڑا ہے۔ میں میاں جی حضرت عبدالہادی ؒ کے ساتھ جب حج پر آیا تھا تو قیام مدینہ کے دوران میاں جی جب تک ایک لاکھ دفعہ درود شریف نہ پڑھ لیتے تھے کوئی اور کام نئ کرتے تھے۔
آج کمزوری اور ضعف بڑھ چکا ہے۔ طبیعتوں میں یکسوئی اور عبادات میں لذت نہیں ہے۔ لاکھ دفعہ تو تو کجا ہزار دفعہ پڑھنے والا بھی بمشکل ملے گا۔ لیکن آداب مدینہ اور آداب مسجد نبوی ﷺ کا خیال تو رکھا جاسکتا ہے۔
عزت بخاری کا شعر ہے:
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنیدؒو بایزیدؒ ای جا
زیرآسماں حجرہ امی عائشہ ؓ جہاں آقا ﷺ محو استراحت ہیں وہ مقام عالیشان ہے جہاں جنید و بایزید بسطامی علیہ الرحمہ جیسے بڑے بڑے اولیاء بھی وقت حاضری سانسوں کو روک لیتے تھے کہ کہیں تیز تیز سانسوں سے بارگاہ رسالت ﷺ میں بےادبی نہ ہوجائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply