بدن (18) ۔ دماغ کی نزاکت/وہاراامباکر

دماغ ہمارا سب سے طاقتور عضو بھی ہے اور یہ ہمارا نازک عضو بھی ہے۔ کھوپڑی کی سخت حفاظت میں قید کا نقصان یہ ہے کہ اگر انفیکشن کی وجہ سے سوجن ہو جائے یا کوئی فلوئیڈ آ جائے (جیسا کہ خون نکلنے سے) تو پھر اسے شدید مسئلہ ہو سکتا ہے کیونکہ اضافی مواد کے پاس نکلنے کو جگہ نہیں۔ گاڑی کے حادثے یا موٹرسائیکل سے گرنے میں ہونے والی ہلاکتوں کی وجہ یہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اسے کئی بار اپنے اندرونی طوفانوں کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ سٹروک یا مرگی انسانی دماغ کے عارضے ہیں۔ دوسرے ممالیہ میں یہ شاذ ہی کبھی ملتے ہیں لیکن سٹروک انسانی اموات کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے۔ اور اس میں عجیب یہ ہے کہ دماغ کو ملنے والی خون کی سپلائی بہت اچھی ہے لیکن پھر بھی سٹروک ہوتے ہیں۔
مرگی ہمیشہ سے پرسرار مرض رہا ہے۔ اور اس کا شکار ہونے والوں کے ساتھ تاریخ میں سلوک اچھا نہیں رہا۔ 1956 میں امریکہ کی سترہ ریاستوں میں مرگی کے مریضوں کے لئے شادی کرنا غیرقانونی تھا۔ (یہ قانون آخری ریاست سے 1980 میں ختم ہوا)۔
جدید ادویات نے اس کو کم کر دیا ہے لیکن بیس فیصد لوگوں کو ان ادویات کا اثر نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دماغ کے عجوبہ ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس کی ان گنت بیماریاں ہیں اور ان میں سے کئی بھی عجیب ہیں۔ مثال کے طور پر رڈوک سنڈرم کے مریض ساکن چیزوں کو نہیں دیکھ سکتے لیکن متحرک کو دیکھ سکتے ہیں۔ اینٹون بابنسکی سنڈروم کے مریض نابینا ہوتے ہیں لیکن یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ دیکھ نہیں سکتے۔ کیپ گاس سنڈروم میں مریضوں کو یقین ہوتا ہے کہ ان کے قریب کے لوگ بہروپیے ہیں۔ کوٹارڈ سنڈروم کے مریض کو یقین ہوتا ہے کہ وہ فوت ہو چکا ہے اور اس کو قائل نہیں کیا جا سکتا کہ ایسا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دماغ کے بارے میں کچھ بھی سادہ نہیں۔ شعور کا بند ہونا بھی ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ نیند، بے ہوش کئے جانا، چوٹ سے بے ہوش ہونا، کوما (آنکھ بند ہو اور آگاہی نہ ہو)، vegetative state (آنکھ کھلی ہو اور آگاہی نہ ہو)، نیم بے ہوشی (خیالات جاری رہنا لیکن کنفیوژن اور نیم آگاہی) اس کی مثالیں ہیں۔ پھر لاکڈ ان سنڈروم ہے جس میں شعور مکمل طور پر بیدار ہوتا ہے لیکن کسی سے رابطہ کرنے کا طریقہ پلک جھپکانے کے سوا کچھ اور نہیں۔
کسی کو معلوم نہیں کہ زندہ لوگوں میں سے کتنے ہیں جو اس حالت میں ہیں۔ 2014 میں نیچر نیوروسائنس کے ایک مضمون کے مطالب ایسے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہو سکتی ہے۔ 1997 میں ایڈرین اوون نے دریافت کیا تھا کہ کئی ایسے لوگ جو vegetative حالت میں ہیں، دراصل شعوری طور پر مکمل بیدار ہیں لیکن ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں جس سے کسی کو یہ بتا سکیں۔ اوون کا اندازہ ہے کہ پندرہ سے بیس فیصد لوگ ایسے ہو سکتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ٹھیک سے یہ جاننے کا ذریعہ نہیں۔ کیا دماغ ٹھیک کام کر رہا ہے؟ ہمارے پاس اس کا قابلِ اعتبار ذریعہ صرف یہی ہے کہ اس کا مالک ہمیں اس بارے میں بتا دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دماغ کے بارے میں ایک اور غیرمتوقع فیکٹ یہ ہے کہ آج کے دماغ دس سے بارہ ہزار سال پہلے کے دماغوں سے چھوٹے ہیں۔ اوسط دماغ 1500 مکعب سینٹی میٹر سے سکڑ کر 1350 مکعب سینٹی میٹر کا ہو چکا ہے۔
اس کی وضاحت کرنا آسان نہیں کیونکہ یہ تمام دنیا میں ہوا ہے، گویا کہ ہم نے اپنا دماغ چھوٹا کرنے کا معاہدہ کیا ہو۔ اس بارے میں عام مفروضہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ زیادہ ایفی شنٹ ہوا ہے اور کم جگہ میں زیادہ پرفارمنس دے سکتا ہے (جیسا کہ سیل فون) لیکن کوئی اسے ثابت نہیں کر سکتا کہ کہیں ہم کم عقل تو نہیں ہو گئے۔
اور اسی اثنا میں ہمارے کھوپڑی بھی باریک ہوئی ہے۔ اس کی بھی اچھی وضاحت موجود نہیں۔ شاید فعال لائف سٹائل کو ترک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ موٹی کھوپڑی کی ضرورت کم ہوئی ہے۔ یا پھر بس یہ کہ ہم ویسے نہیں رہے جو ہوا کرتے تھے۔
اور اس سوچ کو یہی چھوڑ کر ہم اب باقی سر کی طرف کا رخ کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply