اتر پردیش شاید تبدیلی چاہتا تھا

حفیظ نعمانی
9مارچ کی شام 5بجے کے بعدسے جو اکزٹ پول کا شور شروع ہوا وہ 11مارچ کی دوپہر اس انجام کو پہنچا جہاں تک کوئی بڑے سے بڑا فیاض بھی بی جے پی کی جھولی میں اتنی سیٹیں نہیں ڈال سکتا تھا، بی جے پی کے ہر لیڈر نے 300سیٹیں جیتنے کا دعوا کیا تھا اور جو نتیجہ آیا وہ سوا تین سو نکلا یہ کیسے ہوا اور کیوں ہوا؟ اس بحث سے کوئی فائدہ نہیں ہے، بس حقیقت ہے کہ یہی ہوا۔۔لیکن اس پر برسوں بحث ہوتی رہے گی اور اس لئے ہوتی رہے گی کہ 2019ء سے پہلے ابھی صوبوں کے الیکشن بھی باقی ہیں اور پھر لوک سبھا کا الیکشن آجائے گا اور پھر اگر ڈاکٹر ایوب صاحب کے لئے انقلاب کا پہلا صفحہ دو مہینے کے لئے ریزرو ہوجائے گا اور ساٹھ ساٹھ لاکھ روپے کی پیشکش پر ٹھوکر مارنے والے مشہور صحافی عزیز برنی ڈاکٹر ایوب کو قائد اعظم کہنے لگیں گے اور اسد الدین اویسی ہر اس جگہ جہاں مسلمانوں کے ووٹ سے ہار جیت ہورہی ہوگی وہاں کسی بدھوخیرو جمعراتی کو ٹکٹ دے کر بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے لگیں گے تو پھر انجام یہی ہوگا۔
ہم جیسے لوگوں کو مداری سے شکایت نہیں ہونی چاہیے۔ شکایت ان سے ہونی چاہیے جو مداری کا بھیس بدل کر دیکھنے والوں کو بے وقوف بنانے کے لئے آئیں اور دیکھنے والے بے وقوف بن جائیں۔ اویسی صاحب نے 32امیدوار کھڑے کرنے کی بات کہی تھی۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ کتنوں کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوئے اور ان کا کیا انجام ہوا؟ اویسی جیسے لوگوں کو انجام سے مطلب نہیں ہوتا وہ صرف اپنی فیس لیتے ہیں اور جس سے فیس لیتے ہیں اس کا مقدمہ لڑتے ہیں۔ انہیں فیس مل گئی اور ان کا کام ہوگیا۔ ڈاکٹر ایوب صاحب خود بھی کھڑے ہوئے تھے اور اپنے فرزند کو بھی قربان کرنے کے لئے کھڑا کیا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ مقصد جیتنا نہیں کسی کو ہرانا تھا اور اخراجات لینا تھے جو ڈاکٹر کا پیشہ ہے۔ کاش اتر پردیش کے مسلمانوں کو اب بھی عقل آجائے اور جہاں کہیں میر جعفر اور صادق آئیں انہیں دوڑا دیا جائے۔
اس مرتبہ مس مایاوتی کو جوش آیا تو انہوں نے برہمن سماج کے بجائے مسلمان سماج پر ڈورے ڈالنے کے لئے اپنے سیکرٹری نسیم الدین صدیقی کو مسلمانوں کا ٹھیکہ دے دیا اور وہ نہ جانے کہاں کہاں سے سو امیدوار پکڑ لائے۔ دلالوں نے جب دیکھا کہ صدیقی صاحب کی جیب پھٹی جا رہی ہے تو انہوں نے مولوی عامر رشادی کا سودا کرا دیا اور 84کامیاب ہونے والے امیدوار لاکر مایاوتی کے قدموں میں ڈھیر کر دئیے اور پورے پروانچل کے مسلمانوں کا ٹھیکہ دے دیا۔ پھر دوسرے دلال آئے انہوں نے بہن جی کو بتایا کہ 75فیصدی مسلمان تو صوفی سنتوں اورخانقاہوں کے مجاور کو مانتے ہیں۔ وہ اگر کہیں گے تو اکثریت آپ کو ووٹ دے گی۔ بہن جی نے یہ سودا بھی کرلیا۔ اس کے بعد ایک بہت بڑا دلال آیا اور اس نے بتایا کہ سب سے بڑا امام شاہی امام ہے جس کے کہنے سے 2016میں مسلمانوں نے ملائم سنگھ کو ووٹ دیے تھے اور پھر شاہی امام کو بھی لکھنؤ بلا لیا گیا اور لکھنؤ کے ایک عالیشان ہوٹل میں پریس کانفرنس کرکے اعلان کرایا گیا کہ ہر مسلمان بہن جی کو ووٹ دے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بی ایس پی کے جتنے امیدوار کامیاب ہوئے ان سے کہیں زیادہ تو دلال اور صوفی سنت مولوی عالم اور امام تھے جنہوں نے پیسے لئے تھے۔اس پوری کہانی میں شرم کی بات یہ ہے کہ ہندو برہمنوں نے جب بہن جی سے سودا کیا تو کروڑوں ووٹ دئیے اور دلائے اور مسلمانوں کے مولویوں، صوفیوں، سنتوں اور شاہی امام نے پیسے تو جیب بھر کے لئے اوردھوکہ کیا۔۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کی 5ریاستوں میں تقریباً 200سوٹکٹ دئیے لیکن ایک بھی ٹکٹ مسلمانوں کو نہ دے کر اس کا اعلان کردیا کہ ملک کے 60 کروڑ مسلمانوں سے نہ ہمیں کچھ لینا ہے اور نہ دینا اور الیکشن کو پوری طرح فرقہ وارانہ رنگ دے دیا۔ہمیں نہیں معلوم کہ کسی مسلمان نے وزیر اعظم سے اس کی شکایت کی ہو۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مسلمان یہ چاہتے نہیں تھے کہ وہ بی جے پی کے ٹکٹ سے لڑیں۔۔ بلکہ وجہ یہ تھی کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ٹکٹ ملے گا نہیں۔ مودی جی نے جب وزارت بنائی تونجمہ ہبت اللہ کو وزیر بنایا اور جب وہ ناکام ثابت ہوئیں تو مختار عباس نقوی اور ایم جے اکبر کو بوزیر بنا دیا۔ مختار عباس نقوی برسوں سے بی جے پی میں ہیں، وہ لوک سبھا کا الیکشن لڑکر جیت بھی چکے ہیں اور ایم جے اکبر صحافی ہیں لیکن مسلمانوں میں ان کی وہ حیثیت نہیں ہے جو ترجمان کی ہوتی ہے، ان دونوں کو وزیر بنانے کے بعد بھی شری مودی کے’ ہندوتو‘ کی طرف جھکاؤ پر پردہ نہیں پڑتا۔
مسلمانوں کے رویہ کی بات تو اپنی جگہ لیکن زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ اب تک سیکولر ہندو ہونا ایک امتیاز تھا اور جن سنگھ یا مہاسبھا سے واستہ ہونے پر ہندو فخر نہیں کرتے تھے۔ نریندر مودی نے گجرات سے یہ مہم شروع کی اور اب سیکولر ہندو وہ جاٹ بھی نہیں رہا جو خود کو ہند ونہیں کہلانا چاہتا تھا۔ چودھری چرن سنگھ کو جو جانتے ہیں انہیں اس خبر سے حیرت ہوئی ہوگی کہ اجیت سنگھ نے جاٹوں کو بی جے پی کے مقابلہ پر کھڑا کیا تھا اور پورے علاقہ میں وہ ہیلی کاپٹر سے مہم چلا رہے تھے اور اکھلیش یادو نے انہیں ساٹھ سیٹیں دینا چاہیں تو انہوں نے انکار کردیا اور نتیجہ آیا تو وہ صرف ایک ہی سیٹ جیت سکے جس کا مطلب صاف ہے کہ جاٹ بی جے پی کے ساتھ چلا گیا۔
جاٹوں کا ایک مطالبہ ریزرویشن کا تھا اور دوسرا ہریانہ میں مرنے والوں کی جان کا معاوضہ اور ان ہی دونوں باتوں کو لے کر بی جے پی کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم مودی نے ایک کا بھی وعدہ نہیں کیا لیکن مغربی یو پی کی جاٹوں کی سیٹیں بی جے پی کو مل گئیں۔ ہوسکتا ہے کہ یو پی والے ملائم سنگھ اور مایاوتی سے اوب گئے ہوں اور تبدیلی چاہتے ہوں ورنہ اگر مودی لہر ہوتی تو پنجاب ،گوا اور منی پور میں کیوں نہیں نظر آئی؟

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply