حب الوطنی بد قماشوں کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے۔۔گل ساج

“Patriotism is the last Refuge of a
Scoundrel”

“حب الوطنی بدقماشوں کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے”

یہ جُملہ جو اب ضَرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے مجھے یوں یاد آیا جب برادرم Jean Sartre صاحب کی دیوارِ تحریر پہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند ضمناً ڈاکٹر قدیر خان کا ذکر ہوتے دیکھا۔
ان عظیم المرتبت ہستیوں کے بیچ پاکستانی ایٹمی پروگرام کی داستانِ شروعات و تکمیل کی بازگشت بھی سنائی دی
پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی بہت سی دلچسپ کہانیوں سے عبارت ہے “گھاس کھائیں گے ایٹم بم بنائیں گے” سے آغاز ہونے والی “ایٹم کہانی”میں ایک پرسرار تحیر خیز کردار “سیٹھ عابد حسین” کا بھی ہے جس پہ عرصہ دراز تک اِسرار کے دبیز پردے پڑے رہے ۔یہ قصے کہانیاں سینہ گزٹ منتقل ہوتی رہیں اخبارات ورسائل میں ڈھکے چھپے انداز میں سیٹھ عابد کا ذکر ہوتا۔

اس نام کی گونج اس وقت سنائی دی جب بھٹو دورِ حکومت میں پاکستان نے فرانس سے ایٹمی پراسیسنگ پلانٹ خریدنے کا معاہدہ کیا مگر پاکستان پہ امریکہ کی طرف سے سخت درآمدی برآمدی پابندیاں عائد تھیں۔ایسے میں سیٹھ عابد حسین جو اس وقت انڈر ورلڈ کا بے تاج بادشاہ تھا، سونے کی سمگلنگ کا وسیع نیٹ ورک چلا رہا تھا، کی “حب الوطنی” جاگی سیٹھ عابد حسین نے پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام میں مدد کرنے کی ٹھانی۔ انہیں فرانس سے ایٹمی پراسیسنگ پلانٹ پاکستان لانے کا مشکل ٹاسک دیا گیا۔سیٹھ عابد نے یہ کارنامہ کر دکھایا اور بحری گزر گاہوں کے چور راستوں سے ایٹمی پراسیسنگ پلانٹ پاکستان سمگل کردیا۔یاد رہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کو ہالینڈ سے چوری چھپے ڈرامائی انداز میں پاکستان لانے میں بھی سیٹھ عابد حسین کا نام لیا جاتا ہے۔
سیٹھ عابد حسین لاہور کے نواحی شہر “قصور” میں پیدا ہوا مگر والد کا کراچی میں گولڈ کا وسیع کاروبار تھا۔ اسکے والد کے متعلق بھی مختلف کہانیاں گردش کرتی رہیں کہ اسے مہدی ہونے کا زعم تھا۔عابد حسین چھ بھائی تھے مگر ان کے علاوہ تمام (Retarded) گونگے بہرے تھے۔

سیٹھ عابد نے سونا،بعد ازاں غیر ملکی کرنسی کی سمگلنگ شروع کی وہ سمگلنگ کو شرعاً  جرم نہیں سمجھتا تھا اس ضمن میں متعدد فتوی حاصل کر رکھے تھے ،کسی زمانے میں وہ سونے کی سمگلنگ میں ڈان کہلاتا تھا۔
ایک مرتبہ اپنے پارٹنر کے ہمراہ دبئی سے سونے کی بہت بڑی کھیپ پاکستان منتقل کرنے کے دوران مشکلات پیش آئیں تو انہوں نے سونا بحیرہ عرب میں کسی خفیہ جگہ پہ چھپا دیا، بہت سالوں تک یہ خزانہ سمندر میں دفن رہا پاکستان میں حکومت بدلی حالات کچھ سازگار ہوئے شومئی قسمت اس دوران پارٹنر کی موت واقع ہو گئی۔سیٹھ عابد نے اس گولڈ کھیپ کا مقدمہ لڑا اور جیتنے کے بعد اس خزانے کا بلا شرکت غیرے مالک قرار پایا۔

نیو کلیئر پراسیسنگ پلانٹ کی منتقلی کی “قومی خدمت” کے بعد بھٹو نے اس سے “جماعتی خدمت” بھی لینا چاہی جس سے انکار پہ بھٹو اور سیٹھ عابد میں اختلافات پیدا ہو گئے ،بھٹو نے سیٹھ عابد کی گرفتاری میں ناکامی پر اسکی دختر کو گرفتار کر لیا، سیٹھ عابد نے سراسیمہ ہوتے حکومتِ وقت کے سامنے جھکنے کی بجائے جوابی وار کرتے ہوئے لندن میں مقیم وزیراعظم پاکستان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو اغوا کر لیا یوں اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے دونوں خواتین کی رہائی عمل میں آئی۔

سیٹھ عابد کے جنرل ضیاء سے بھی بہترین تعلقات تھے ۔شنید ہے کہ اس دوران سیٹھ عابد نے ایٹمی پروگرام میں مالی مدد بھی کی
جنرل ضیاء اور سیٹھ عابد کی قربت میں ایک قدرِ مشترک ان کی اولاد کا معذور ہونا بھی ہے ۔جنرل ضیاء اور سیٹھ عابد میں گہری چھنتی تھی۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بھٹو پھانسی کیس میں سلطانی گواہ بننے والے مسعود محمود سیٹھ عابد کے حقیقی برادراِ ن لاء تھے جو بھٹو کی پھانسی کے بعد امریکہ منتقل ہو گئے۔سیٹھ عابد نے بھی مرورِ زمانہ اپنے دھن کو سفید کرنے کے لیے پراپرٹی کے بزنس میں قدم رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے رئیل اسٹیٹ بزنس ٹائیکون کی حیثیت حاصل کر لی۔”گرین فورٹ” کے نام سے بلڈرز ڈویلپر گروپ بنایااور سیٹھ عابد کی اولاد میں سے ایک ہی فرزند نارمل تھا یہ حافظ قرآن  بیٹا کراچی میں باقاعدہ نماز تراویح پڑھایا کرتا تھا۔سیٹھ عابد کے پراپرٹی بزنس کو اس کا بیٹا ایاز عابد دیکھتا تھا۔ 2006 میں لاہور میں اپنے ہی سیکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں گولیوں کا نشانہ بن گیا۔

سیٹھ عابد  پاکستان کے  امیر ترین شخصیات میں تیرہویں نمبر پہ آتے ہیں ۔ان کا دعویٰ تھا کہ پاکستان میں کوئی بھی حکومت ان کی حمایت کے بغیر 24 گھنٹے بھی نہیں چل سکتی۔کچھ فلاحی کام بھی ان کے کریڈٹ پہ ہیں حمزہ فاونڈیشن کے نام سے گونگے بہرے بچوں کے لیے ایک ادارہ انکے زیرانتظام کام کر رہا ہے۔سیٹھ عابد جیسے لوگوں کے اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں جن سے یہ انحراف نہیں کرتے، سیٹھ عابد بھی خود کو محب وطن کہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ دنیا بھر سے دولت پاکستان لائے ہیں بے شک سمگلنگ برا کام ہے مگر انہوں نے غیر ممالک سے پاکستان میں زر مبادلہ منتقل کیا اسطرح اپنے انداز میں ملک کی خدمت کی۔
“حب الوطنی بدقماشوں کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے”سیٹھ عابد جیسے کئی کردار اس جملے کی صداقت پہ داغ  ہیں

Save

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

گل ساج
محمد ساجد قلمی نام "گل ساج" مظفر گڑھ جنوبی پنجاب ۔۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply