ریشم ۔۔۔۔۔ رخشندہ بتول/افسانہ

میں اس کچی نالی والی گندی مندی گلی کے آخری مکان تک پہنچا تو دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ہمیشہ کی طرح بغیر دستک دیے میں اس بوسیدہ پردے کو ہٹا کر اندر داخل ہوگیا۔ وہ سامنے برآمدے میں ہی پرانے قالین اور تکیے پر نیم دراز سگریٹ کے کش لگا رہی تھی۔ مجھے دیکھ کے اس نے کسی قسم کا کوئی تاثر نہیں دیا۔ اس کا بھڑکیلا لباس گواہ تھا کہ وہ ابھی ابھی کوئی ”پروگرام“ کرکے واپس آئی ہے۔ میں نے اپنا کوٹ اور ٹائی باہر چارپائی پر رکھا اور اس کے پاس قالین پر بیٹھ گیا۔

”کیسی ہو ریشم؟ “اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ”اچھا مجھے سگریٹ نہیں دوگی آج ؟“
وہ میری جانب دیکھے بغیر نزاکت سے ہاتھ لہرا کے بولی، ”میں نے تمہیں منع کیا تھا نہ اب مت آنا پھر کیوں روز میرا تماشہ دیکھنے چلے آتے ہو ؟“
”کیوں نہ آیا کروں؟ دوست ہو تم میری، ایک تمہی تو ہو جسے میری باتیں سمجھ آتی ہیں۔“
”ہونہہ۔۔۔ دوست؟۔۔۔۔۔ “اس نے ایک تلخ مسکراہٹ میری طرف اچھالی۔ ”یاد ہے ناں اس دن تمہاری اور میری دوستی کے بارے میں تمہارے دوست نے کتنے گھٹیا الفاظ استعمال کیے تھے۔۔۔۔ اور اسکا وہ طنزیہ لہجہ!!۔۔۔ دوست ہوناں تم میرے؟

پھر خاموش کیوں ہوگئے تھے تم؟ کوئی جواب کیوں نہیں دیا تم نے اسے۔۔؟ پورے ملک میں نام ہے تمہارے اخبار کا۔۔۔۔ گھر گھر دھوم ہے تمہاری کہانیوں کی۔۔۔ بڑے فخر سے کہتے ہو‏‏‏ لفظ میری جاگیر ہیں۔۔۔۔ اپنی مرضی کا بیج بوتا ہوں اور اپنی مرضی کی فصل کاٹتا ہوں۔۔۔۔ پھر وہاں لاجواب کیوں ہوگئے تھے تم؟۔۔۔“

”افف ریشم! تم ابھی تک اس جاہل کی باتیں دل پر لیے بیٹھی ہو؟ اچھا اپنا موڈ ٹھیک کرو۔۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں ہم آئندہ کبھی وہاں چائے پینے بھی نہیں جائیں گے۔۔۔“
”بات وہاں جانے نہ جانے کی نہیں ہے۔۔۔ بات حقیقت کو تسلیم کرنے کی ہے۔ میں تمہاری کہانی کا کوئی پرکشش کردار نہیں ہوں۔۔۔ایک تلخ حقیقت ہوں۔۔۔ تمہارا دوست ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا تم جیسے سلجھے ہوئے مرد کا مجھ جیسوں سے تعلق معیوب ہی تو ہے۔۔“

سگریٹ کا ٹکڑا دور صحن میں پھینک وہ میرے سامنے آ بیٹھی۔ ”ہم سے تعلق کا اظہار کرتے ہوئے تو ہمارے اپنے بھی گریز کرتے ہیں۔جانتے ہو، میں نے جہاں آنکھ کھولی وہاں بھی میرے وجود سے کوئی خوش نہیں تھا۔ میری ماں نے مجھے پڑھایا۔۔۔۔ لکھایا۔۔۔۔ لیکن میرے خاندان والے حتی کہ میرے بہن بھائی میری ماں سے اس لیے نفرت کرنے لگے کہ وہ مجھ سے محبت کرتی تھی۔۔۔۔ اس معاشرے نے مجھ سے میری ماں بھی چھین لی۔۔۔”

ریشم کی یہ عادت تھی کہ وہ جب بھی مضطرب ہوتی تو اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے زور زور سے دباتی رہتی۔ ابھی بھی وہ اسی شغل میں مصروف تھی ۔۔۔
میں جو کافی دیر سے خاموش اسے سن رہا تھا اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بولا ”میں سمجھ سکتا ہوں ریشم “

اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور بولی، ”تم کیسے سمجھ سکتے ہو؟ خوبصورت بیوی ہے، بچے ہیں، ماں باپ، بہن بھائی، سوشل سرکل۔۔۔۔تم کیا جانو نامرد ہونا کیا ہوتا ہے؟ کیا گزرتی ہے جب آپ کو علم ہو کہ آپ بانجھ ہیں؟ بلکہ میرا دکھ۔۔۔ میرا دکھ تو کوئی بانجھ کوئی نا مرد بھی محسوس نہیں کر سکتا۔۔۔ کہ ان کے پاس کم از کم ان کی جنس کا بھرم تو ہوتا ہے۔۔۔۔ معاشرے میں بطور مرد یا عورت اپنی پہچان تو رکھتے ہیں وہ۔۔۔“ ریشم کی گہری آنکھوں میں اس کی ساری محرومیاں تیرنے لگیں۔۔۔۔

”جانتے ہو۔۔ تم سے مل کر مجھے ماں بہت یاد آتی ہے کیونکہ یہ ہمدردی یہ شفقت ماں کے علاوہ بس تمہاری آنکھوں میں دیکھی میں نے۔۔۔ماں میری نہیں رہی۔۔۔۔۔ جھوٹ بولتے ہو تم، تم بھی میرے دوست نہیں ہو۔۔ میرا کوئی نہیں ہے “

”سچ کہتی ہو ریشم! میں جھوٹ بولتا ہوں تم میری دوست نہیں ہو۔۔ جانتی ہو میں سارا شہر چھوڑ کر تمہارے پاس کیوں چلا آتا ہوں ؟؟ کیونکہ تم میرا آئینہ ہو۔۔ مجھے تم میں اپنا عکس نظر آتا ہے۔۔
میں بھی ہیجڑا ہوں ریشم۔۔۔۔۔“
وہ حیرانی سے میرا چہرہ تکنے لگی۔
”ہاں ریشم۔۔۔۔۔ اور تم سے کہیں زیادہ مجبور۔۔۔۔ تمہیں تو معاشرے کی غلاظت کا مقابلہ کرنا آگیا ہے۔ جو سوچتی ہو بول دیتی ہو۔ اپنے اضطراب کو اپنے رقص میں ڈھال دیتی ہو، مگر ”میں“ جسے قدرت نے ایک مکمل مرد بنایا ہے۔۔۔ ایک مکمل وجیہ مرد لیکن بہت سی جگہوں پر میں خود کو نا مرد محسوس کرتا ہوں۔۔ اکثر میرا ذہن بانجھ ہونے لگتا ہے۔۔ جانتی ہو میرا دل چاہتا ہے رقص کروں۔۔۔ گھنگرو باندھ کے ناچوں، تمہاری طرح تالی بجا بجا کے معاشرے کو گالی دوں۔ مگر میرا بہروپ تم سے مختلف ہے۔۔۔ ٹائی اور کوٹ والے لبادے میں قید ہوں میں۔
میں تم جتنا سچا نہیں ہوں ریشم۔۔ میں یہ اعلان نہیں کر سکتا کہ میری کوئی جنس نہیں ہے ۔۔۔ کیونکہ پھر مجھ سے بہت سے نا جنسوں کا بھرم ٹوٹ جائے گا ۔۔۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اکثر مجھے تم میں ایک وجیہ مرد اور خود میں ایک ریشم نظر آتی ہے“

Advertisements
julia rana solicitors

ریشم نے قہقہہ لگایا،”یعنی تم بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
آج پہلی دفعہ ہم دونوں نے ایک دوسرے سے اپنے آنسو نہیں چھپائے۔ ریشم نے اپنی سگریٹ کی ڈبیا میری طرف بڑھا دی۔۔۔۔!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply