آٹھ فٹ کا گھوڑا اور گجرات کا سفر (حصہ دوم) ۔۔۔ معاذ بن محمود

گزشتہ شب ایڈورڈز کالج پشاور اور یو ای ٹی مردان کیمپس یعنی اچھے برے وقت میں ساتھ رہنے والے صاحبزادہ امین جان سے باتہو رہی تھی۔ دورانِ گفتگو مختصر قصہ سنانے لگا۔

 فیز فائیو حیات آباد پشاور میں رہتے ایک دوست ملنے آیا۔ گھر میں خوب گپ شپ کے بعد اس نے واپس جانے کی اجازتمانگی۔ باہر چھوڑنے گیا تو دوست، جو پوٹھوہار گاڑی پر آیا ہوا تھا، نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ بندہ گاڑی کادروازہ لاک کیے بغیر ہی میرے ساتھ اتنی دیر بیٹھا رہا۔ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے میں نے کہا۔۔

ظالم۔۔۔ تو گاڑی لاک کیے بغیر آگیا تھا، کوئی لے جاتا تو؟

دوست نے میسنا سا تبسم چہرے پر سجایا اور گویا ہوا۔

امین جانہ۔۔ خبرہ داسے دا چہ زما دی گاڑے فرسٹ گئیر خراب دے۔۔۔ نو کہ سوک را ہم شی نو سہ خاص فیدا بہ نشی واغسطے

مفہوم: امین جان۔۔۔ بات یہ ہے کہ میری گاڑی کا پہلا گئیر خراب ہے۔۔۔ تو کوئی آ بھی جائے تو کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔

یہ قصہ یوں لکھنا پڑا کہ دوران سفر افضل بھائی کا آٹھ فٹیہ گھوڑا بھی دو تین بار لاک ہونے سے رہ گیا۔ پاکستان ہو اور کوئی مفتا نہپھوڑے یہ ممکن نہیں، تاہم چونکہ ہمیں گاڑی بند کرنے کے بعد سٹارٹ کرنے کی مشقت اٹھاتا دیکھ چکا ہوگا سو پیادہ رہنے میں ہیعافیت جانی۔

بالآخر ہم ملتان پہنچ گئے۔ یہ چونکہ مختصر المیعاد ٹھہراؤ کا ارادہ تھا لہذا روسی بھائی کے علاوہ کسی پر یہ عقد کھولنا مناسب نہ سمجھا۔راستے میں اسد پہلوان کا معلوم ہوا کہ پاکستان اور ملتان ہی میں ہے نیز کاروباری و غیر کاروباری وینچرز پر گفتگو مطلوب ہے لہذااسے بھی روسی بھیا کے آستانے کا پتہ دے دیا۔ یہ دونوں احباب رات ۸ بجے سے ہماری راہ تک رہے تھے۔ گو ہم میں سے کوئیبھی شیشہ توڑ دینے والا مواد نہیں، پھر بھی یہ دونوں ہمارے شدت سے منتظر تھے۔ شاید بھٹی صاحب کی مودت میں وصل کا انتظارتھا۔

میرا پیٹ اب تک خراب تھا۔ ہاضمے کی میں پرواہ نہیں کرتا لہذا روسی بھائی کے یہاں پہنچ کر بے دریغ ناشتہ کھینچا۔ ناشتے سے کہیںزیادہ لسی پر توجہ رہی۔ روسی بھائی بھی کمال کے بندے ہیں۔ دعوی کرتے ہیں کہ ان کا صرف قد چھ فٹ سے اوپر ہے، باقیاعضاء مختصر و منہنی ہی ہیں تاہم میں اس بات سے انکاری ہوں۔ مجھے ایمان کی حد تک گماں ہے کہ ان کے معدے کا حجم گلوکارہنکی مناج Nicki Minaj کے زیریں حجم کا مقابل ہے۔ یہاں ماشاءاللہ کہنا روایت اور ضرورت دونوں اعتبار سے واجب ہے۔ماشاءاللہ۔

روسی بھائی نے ہم چار کے لیے چودہ بندوں کا ناشتہ تیار کروایا۔ ہم چونکہ بندے تھے، بٹ نہیں لہذا چار ہی کا کھانا تناول کر پائے۔اس کے بعد غیر نصابی تفریحات کا سلسلہ چلا جو مختصر مگر پراثر رہا۔ نتیجتا ہم سب کی حالت یہ ہوگئی کہ اسد پہلوان سے بات کرتےکرتے آنکھ لگنے لگی۔ اسد پہلوان یقیناً دل میں گالیاں دیتا رہا ہوگا کہ ایک تو میں ان کے لیے آیا اور یہ ہیں کہ میری بات نہیں سنرہے۔ بخدا یہ بشری مجبوری تھی سو ہم سب سونے لیٹ گئے۔

دن کے کسی پہر میری آنکھ کچھ اس حالت میں کھلی کہ سانس بند تھا۔ پہلا شک افضل بھائی کی طرف گیا۔ ساتھ نظر ڈالی تو افضلبھائی الٹے پڑے سو رہے تھے۔ یوں سانس اصولا ان کا بند ہونا بنتا تھا تاہم یہاں حالات الٹے تھے۔ کسی طرح میں کھڑا ہوا۔سامنے بھٹی صاحب لاش بنے سو رہے تھے۔ میں نے خود کو گرنے سے روکنے کے لیے بھٹی صاحب کا ہاتھ بے پناہ غیر رومانویطریقے سے پکڑا۔ بھٹی صاحب سوتے سے اٹھ گئے۔ اب وہ مجھے بدروح سمجھ رہے تھے۔ کچھ سیکنڈز میں انہیں بھی سمجھ آگئی کہمیرے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ خیر کچھ دیر میں میرا سانس بحال ہوگیا۔ میڈیکل اصطلاح میں اس حالت کو GERD کہتے ہیں جو بوجہبدہضمی کھانا معدے سے واپس سانس کی نالی میں آنے سے ہوتا ہے۔ سانس مکمل بحال ہوا تو ایک بھاری بھرکم قے کا سامنا کرناپڑا۔ روسی بھائی کا نمک سود سمیت واپس۔

کراچی سے ملتان ہم تین بندے کچھ اس ہئیت میں سفر کرتے رہے کہ میں اور افضل بھائی ڈرائیونگ اور بھٹی صاحب باتیں کھودتےرہے۔ بھٹی صاحب کے برعکس میری اور افضل بھائی کی سیٹ چونکہ سنگل سنگل تھی لہذا مجھے بحیثیت پاکستانی مسلمان مرد حسدمحسوس ہوا۔ پس میں نے فیصلہ کیا کہ بھٹی صاحب کے ساتھ ایک اور پاکستانی مسلمان مرد کو بٹھایا جائے تاکہ ان کو تنگی محسوس ہواور میری آگ کچھ ٹھنڈی ہو سکے۔ روسی بھائی اس کام کے لیے موزوں شخصیت تھے۔ روسی بھائی سے بات کی، فرماں بردار فرزندنے والدہ سے اجازت لی اور ہمارے ساتھ آگے کے سفر پر گامزن ہوئے۔ ملتان سے ہم نے گجرات نکلنا تھا جہاں سپین پلٹنوجوان زاہد برلاس سے سات سالہ ملاقات واجب الادا تھی۔

ملتان پہنچنے تک گاڑی میں سیاسی اعتبار سے دو عدد پٹواری ایک جیالہ پلٹ انصافی بھائی (افضل بھائی) موجود تھے۔ افضل بھائی کےلیے اب یہ معنی رکھتا تھا۔ حیدرآباد سے سکھر جی ٹی روڈ کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ سفر کے اس حصے میں گاڑی زیادہتر میں ڈرائیو کر رہا تھا۔ امارات میں میرے پاس ۲۵۰۰ کروس اوور ایس یو وی تھی۔ اکسلریٹر پر میرا پاؤںبھاریرہتا ہے۔ یہیمعاملہ پاکستان میں بھی تھا۔ افضل بھئی کی سٹی ماڈل ۲۰۰۱ ویسے ہی چل چل کر ولیج بن چکی ہے، پھر ریس دبانا میرے لیے فطریتھا۔ دوسرا معاملہ یہ ہوا کہ دائیں یا بائیں مجھے جہاں سے جگہ ملتی میں اوورٹیک کر لیتا۔ بھٹی صاحب ہماری نسبت ہومیوپیتھک ڈرائیورہیں۔ لین کے بیچ گاڑی چلانے میں کچھ ایسی مہارت رکھتے ہیں کہ دائیں بائیں دونوں طرف سے ہارن پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ہماری ڈرائیونگ دیکھ کر بھٹی صاحب کا حلق بھر آیا۔ سکھر پہنچنے پر موٹروے ملی تو سانس میں سانس آیا۔ سکھر سے ملتان تک بھٹیصاحب نے پچھلے راستے کا غصہ افضل بھائی پر اتارا۔ بھٹی صاحب جہاں ٹھنڈے پڑتے میں بس اتنا کہہ دیتایار موٹروے دیکھیںآپ بس۔ بھٹی صاحب نئے ولولے کے ساتھ شروع ہوجاتے۔

یوں روسی بھائی افضل صاحب کے لیے رحمت کا سر اور چشمہ ثابت ہوئے۔ ملتان سے لاہور تک مدارس میں بچوں کے جنسیاستحصال پر اور لاہور سے گجرات تک مولانا طارق جمیل کے سیاسی و فوجی مؤقف پر مکالمہ جاری رہا۔ مولانا کی فضیلت کا اندازہاس بات سے کیجیے کہ ان پر تنقید شروع ہوتے ہی گاڑی کی بریک فیل ہوگئی۔ الحمد للّٰہ۔ ثم الحمد للّٰہ۔ ساڑھے تین گھنٹے کا اگلا سفرمیری زیر ڈرائیوری پورا ہوا۔ افضل بھائی کے آٹھ فٹے گھوڑے پر بلا بریک اس سفر کا کریڈٹ میں مولانا کو دیتا ہوں۔

آخرکار اللہ اللہ کر کے ہم زاہد کے گھر پہنچ گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply