تتاگھت نظم (11)۔۔۔

پیش لفظ
کہا بدھ نے خود سے : مجھ کو۔ دن رہتے، شام پڑتے، سورج چھپتے، گاؤں گاؤں یاترا، ویاکھیان، اور آگے ، اور آگے۔ بھارت دیش بہت بڑا ہے، جیون بہت چھوٹا ہے، لیکن اگر ایک ہزار گاؤں میں بھی پہنچ پاؤں تو سمجھوں گا، میں سپھل ہو گیا۔ ایک گاؤں میں ایک سو لوگ بھی میری باتیں سن لیں تو میں ایک لاکھ لوگوں تک پہنچ سکوں گا۔ یہی اب میرا کام ہے ،فرض ہے ، زندگی بھر کا کرتویہ ہے۔ یہ تھا کپل وستو کے شہزادے، گوتم کا پہلا وعدہ … خود سے …اور دنیا سے۔ وہ جب اس راستے پر چلا تو چلتا ہی گیا۔اس کے ساتھ اس کا پہلا چیلا بھی تھا، جس کا نام آنند تھا۔ آنند نام کا یہ خوبرو نوجوان سانچی کے ایک متمول خاندان کا چشم و چراغ تھا، لیکن جب یہ زرد لباس پہن کر بدھ کا چیلا ہو گیا تو اپنی ساری زندگی اس نے بدھ کے دستِ راست کی طرح کاٹ دی۔ یہی آنند میرا ، یعنی ستیہ پال آنند کے خاندانی نام ’’آنند‘‘ کی بیخ وبُن کی ، ابویت کی، پہلی سیڑھی کا ذوی القربیٰ تھا۔ اسی کی نسب خویشی سے میرے جسم کا ہر ذرہ عبارت ہے۔ مکالمہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان نظموں کے اردو تراجم اس میں بالاقساط شائع ہو رہے ہیں۔ اردو کے غیر آگاہ قاری کے لیے یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ ’’تتھا گت‘‘، عرفِ عام میں، مہاتما بدھ کا ہی لقب تھا۔ یہ پالی زبان کا لفظ ہے جو نیپال اور ہندوستان کے درمیان ترائی کے علاقے کی بولی ہے۔ اس کا مطلب ہے۔ ’’ابھی آئے اور ابھی گئے‘‘۔ مہاتما بدھ گاؤں گاؤں گھوم کر اپنے ویا کھیان دیتے تھے۔ بولتے بولتے ایک گاؤں سے دوسرے کی طرف چلنے لگتے اور لوگوں کی بھیڑ ان کے عقب میں چلنے لگتی۔ آس پاس کے دیہات کے لوگ جب کچھ دیر سے کسی گاؤں پہنچتے تو پوچھتے کہ وہ کہاں ہیں، تو لوگ جواب دیتے۔ ’’تتھا گت‘‘، یعنی ابھی آئے تھے اور ابھی چلے گئے‘‘۔ یہی لقب ان کی ذات کے ساتھ منسوب ہو گیا۔ میں نے ’’لوک بولی‘‘ سے مستعار یہی نام اپنی نظموں کے لیے منتخب کیا۔ ستیہ پال آنند –

تتھاگت نظم (11)
دولت
اور پھر ایسے ہوا، آنند جب حاضر ہوا تو
بُدھّ پہلے سے ہی اس کے منتظر تھے
’’شہر سے تم جس کو اپنے ساتھ لے آئے ہو،بھکشو
اس کو واپس بھیج دو ….تم جانتے ہو
بھکشوؤں کا آشرم
یہ سَنگھ تو بس بھکشوؤں کے واسطے ہے!‘‘

’’پیر و مرشد
آنے والا کوڑھ سے بیمار ہے، لیکن اسے یہ
ضد سمائی ہے کہ وہ بھکشو بنے گا
جانتا ہے
سَنگھ اُن سب کے سواگت میں کھُلا ہے
جو اسے اپنی پناہِ آخری محسوس کر کے
اس میں آنا چاہتے ہیں!‘‘

’’جب کوئی دھنوان یہ دَر کھٹکھٹائے
اور آ کر یہ کہے، وہ سَنگھ کا اک رُکن بننا چاہتا ہے
ہم اُسے منظور کر لیتے ہیں بھکشو!‘‘

’’ہاں، تتھا گت،ہم فقط یہ چاہتے ہیں
آنے والا ….‘‘

’’بول، ہم کیا چاہتے ہیں؟‘‘

’’پیر و مرشد، بس فقط اک بات، یعنی
اپنی دولت دان کر آئے، تبھی ہم …‘‘

’’دوسرے لفظوں میں، بھکشو
جو بھی اس کے پاس ہے، یعنی زر و سیم و جواہر
بیوی بچے، گھر، زمیں سب ڈھور ڈنگر
اور اپنے تن کے کپڑے
ساتھ مت لائے، وہیں پر چھوڑ آئے، تو اُسے ہم
سَنگھ میں شامل کریں گے؟‘‘

’’ہاں،تتھا گت!‘‘

’’شہر سے جو ساتھ آیا ہے تمہارے
اس کو کیا کچھ چھوڑنا ہے؟‘‘

’’کچھ نہیں،بھگوان، اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے!‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

’’کوڑھ تو ہے، اُس کی دولت
جو اُسے پچھلے جنم سے اب وراثت میں ملی ہے
پوچھ کر دیکھو، اگر وہ
اپنی یہ دولت بھی پیچھے چھوڑ آئے
سَنگھ اُس کو رُکنیت بخشے گا، بھکشو!‘‘
۰۰

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply