کعبہ خدا سے خالی تھا ۔۔(دیار عشق۔1) ابن اکرم

سوری مسٹر محمد، کمرہ ابھی بھی تیار نہیں۔ تیسری بار یہ سننے کے بعد میں نے زباں دانتوں کے نیچے دبا لی تاکہ وہ گالی ہونٹوں سے باہر نہ  آئے جو زباں پہ آ چکی تھی۔ تم مکہ والوں نے کبھی بھی کسی محمد سے اچھا سلوک نہیں کیا۔ میں نے دل میں ہی اسے مخاطب کر کے کہا۔ دن کا ایک بج چکا تھا اور کمرہ ابھی تک میسر نہ  تھا۔ ملک سے چلتے ہوئے خصوصا ًای میل کی تھی کہ ہم سویرے پانچ بجے پہنچ جائیں گے۔ حرم کے بالکل سامنے موجود اس ہوٹل میں پہنچے تو فجر کا وقت ہو چلا تھا تھا سو سامان ریسیپشن پہ رکھوا کر حرم کو چل دئیے۔ نو بجے کے قریب واپس آئے تو تب بھی کوئی کمرہ خالی نہ ہوا تھا۔ اور اب صوفوں پہ اونگھتے ایک بج رہا تھا مگر کمرہ ابھی بھی تیار نہ  تھا۔ جی چاہتا تھا کہ ابھی بیگ اٹھاؤں اور واپس چل دوں۔ دل میں موجود غصہ فقط کمرہ نہ  ملنے، ریسیپشن پہ موجود عربیوں کے روایتی سست اور لاپرواہ روئیے یا تھکن کی وجہ سے تھا؟ یا پھر اس کی اصل وجہ وہ احساسات تھے جنھوں نے حرم میں جنم لیا تھا۔

یکدم بیٹھے بیٹھے اک دن سوچا کہ ابھی تو میری والدہ چلتی پھرتی ہیں، کل کو کہاں ان کو ویل چیئر پہ حج کراتا پھروں گا۔ ویسے بھی جنوری کا موسم حجاز میں بھی بہتر ہوتا ہے سو مجھے والدہ کو لے کر عمرہ پہ جانا چاہیے۔ پھر وہی خیالات امڈنا شروع ہوئے جو ہمیشہ روک لیتے تھے، کیا میں اس قابل ہوں کہ جا سکوں، جو گناہ میری ذات سے چمٹے ہیں اور شاید علت بن چکے ،ان کا کیا ہو گا، واپس آ کر بھی اگر ویسا ہی رہا، ابھی تو میں بہت نوجوان ہوں اتنی جلدی بھی کیا ہے، مگر پھر والدہ والا آرگیومنٹ بھاری ہوا اور بیٹھے بیٹھے ای ویزہ لیا، خود ہی ہوٹل ٹکٹ بک کیے اور آج سویرے والدہ کو لیے جدہ اُتر آیا۔ جدہ ایئرپورٹ پہ اترا تو سامان میں سب ہی کچھ تھا مگر دو چیزیں گھر چھوڑ آیا تھا۔ ایک کیلکولیٹر اور دوسرا عقیدت بھرے احساسات۔ یہ طے کیا تھا کہ وہاں نماز پڑھو تو اتنا ثواب، یہاں چومو تو جنت کنفرم کے چکر میں نہیں پڑنا۔ کسی کو حجر اسود کے چکر میں دھکا نہیں مارنا اور نہ  ہی نوافل پڑھ پڑھ ماتھا سجا کر جنت مانگنی ہے۔ دوسرا پہلے سے کوئی احساس لے کر نہیں جاؤں گا، بس جو احساس پیدا ہو گا وہی محسوس کرنا ہے۔

کعبہ پہ پہلی نظر فجر کے وقت پڑی۔ کالے کپڑے سے ڈھکی روشنیوں میں نہائی ایک عمارت جو یکدم سامنے آتی ہے۔ مگر دل کو کچھ محسوس نہیں ہوا۔ میں بس اسے دیکھتا رہا۔ علی ہمارے ساتھ لندن سے آیا تھا، لوگوں کو سگرٹ چائے کی لت ہوتی ہے اسے عمرے کی ہے اور اکثر میں اس پہ تنقید کرتا تھا کہ یہ پیسے کسی غریب کو دیا کر، تجھے کیا اپنے عمرے پہ اعتبار نہیں جو بار بار جاتا ہے۔ ہمارا پروگرام سن کر وہ بھی ساتھ ہوا کہ مکہ تک ساتھ چلیں گے۔ ہمارا عمرہ لیڈر وہی تھا۔ اس کی پہلی بلکہ واحد ہدایت بس یہ تھی کہ جو مرضی ہو جائے رکنا نہیں اور کچھ بھی گر جائے جھکنا نہیں۔ گو رش بہت زیادہ نہ  تھا مگر یہ ہدایت بہت کام کی نکلی کہ پیچھے سے آتا ہوا ریلا آپ کو روند کر رکھ سکتا ہے۔ اور ہم اب طواف میں تھے، بس تلبیہ ہی یاد تھی تو وہی پڑھتا ہوا چکر پہ چکر کاٹ رہا تھا۔

یکدم میری نظر ایک خاتون پہ پڑی اور دل کی ایک دھڑکن جیسے مس ہو گئی۔ یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے، تیرے گھر میں کھڑا ہو کر بھی میری نظر کسی حسین چہرے پہ یوں رک سکتی ہے؟ کوئی عورت مجھے پیاری لگ سکتی ہے؟ مجھے کچھ محسوس کیوں نہیں ہو رہا۔ میں بار بار کعبے کی جانب دیکھتا تھا جو اب صبح صادق کی روشنی میں اور واضح ہو چکا تھا، اور روشن تھا، مگر میرے میرے دل میں اندھیرے تھے۔ کیا میں اس قدر گناہوں کی پوٹلی ہوں؟ کیا میں خالی ہوں؟ یا یہ کعبہ خالی ہے؟ کیا میں عین کعبہ میں آ کر ملحد ہو جاؤں گا؟ کیا تو واقعی ہے؟ میرا دل کیا میں طواف چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوں اور کعبے کا دروازہ کھٹکھٹانے لگ جاؤں کہ باہر نکل، میرے ساتھ ایسا نہ  کر۔ میں نے تو تشکیک سے لوٹ کر تجھے مانا تھا، میں بہت شوق سے آیا ہوں، یوں کنڈی بند کر کے نہ بیٹھ میرا تو سب کچھ لٹتا جا رہا ہے۔ لیکن میں بس چکر مارتا رہا۔ سات کب پورے ہوئے علی کو دیکھ کر معلوم ہوا۔ دو نفل ادا کیے اور سعی شروع کر دی۔ پاؤں من من کے ہو گئے تھے کہ یوں لگتا تھا جیسے میں بس ایک رواج پورا کر رہا ہوں۔ منہ سے دعا نکلتی تھی مگر فقط الفاظ تھے، بے معنی، بنا کسی احساس کے۔ جب میری ماں نے مجھے گلے لگا کر کہا کہ عمرہ مبارک تو جی چاہا اسکے گلے لگ کر زور زور سے رونے لگ جاؤں کہ ہائے نی مائے میں لٹیا گیا جے۔ خدا لے کر آیا تھا اور اسی کے گھر میں کھو بیٹھا ہوں۔

“مسٹر محمد، آپ کا کمرہ ریڈی ہے”۔ یہ الفاظ ایک لائف لائن کی مانند میرے کانوں سے ٹکرائے۔ کمرے میں چیک ان کیا اور ٹوٹے ہوے دل کو لیے اپنی مایوسیوں سمیت سو گیا۔ میرے خواب بھی میری اور کعبے کی طرح خالی تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply