حرم کا راہی ۔۔ ظفرالاسلام سیفی/سفر نامہ

مجھے اعتراف ہے کہ میں ابن حوقل بغدادی ہوں نہ اصطخری فارسی،ابن بطوطہ مغربی ہوں نہ حکیم ناصر خسرو،ابن جبیر اندلسی ہوں نہ ابن انشاء،اشفاق احمد ہوں نہ مولانا حسین احمد مدنی،شورش کاشمیری ہوں نہ مفتی تقی عثمانی مگرعشق ومحبت ادبیت وعلمیت نہیں عقیدت ووارفتگی کا متقاضی ہوتا ہے۔

یہ داستان سفر ایک سراسیمہ وجود کے نامہ سفر سے  زیادہ نامہ محبت ہے جسے فروری کی یخ بستہ ہواؤں  میں گنجینہ احساسات کی حرارت موسمی شدت کے ساتھ کسی آفتابی تمازت کی طرح مقابلہ کرتی   مرکز انوار وتجلی تک لے گئی اور پھر کیا ،کیسے ہوا کچھ معلوم ہوسکا نہ محسوس۔

مجھے بتلایا گیا کہ وہ جس کے لیے  ”ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی “ کا عالم حجاب ہمہ سمت تھا اب
”زمانہ آیا ہے بے حجابی کا۔۔۔۔ عام دیدار یار ہوگا “
آنکھوں سے سیل رواں جاری تھا،میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ سامان کا گٹھڑ وبقچی اٹھائے دیوانہ وار گھر سے یوں بھاگ کھڑا ہوجیسے موت تعاقب میں ہے ،سرشاری تو تھی ہی مگر بے تابی ایسی کہ  ”خود ٹرپتا تھا، چمن والوں کو تڑپاتا تھا میں“وارفتہ طبع کو کسی عالم مستقر کی تلاش تھی،ویزہ وٹکٹ کے صبر آزما مراحل سے گذرنے کے بعد سعودی ائیر لائن نے یکایک شفاخانہ حجاز تک پہنچادیا،اللہ اللہ کیا عالم کیف وجہان بے خودی ہے کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا۔

قسمت خودی پہ نازاں وفرحاں ۔۔۔۔کہاں سے چل کر کدھر آگیا؟جلال وجمال کا ایسا قدرتی مظہر جرمنی واٹلی اور فرانس،امریکہ وبرطانیہ کی مادیت جس کے سامنے شرمسار لگے۔۔۔ جلوہ آرائی کے ایسے مظاہر جنہیں زباں بیان کرسکے نہ زیرقلم آسکیں،مکہ ومدینہ اللہ اللہ نام ہی کتنی جلوہ آرائی رکھتے ہیں، چہ جائیکہ خود یہ مقدس سرزمین ومحبط تجلیات۔

یہ نامہ محبت ان دوغریب وبے کس عاشقوں کی داستان سفر ہے جنہیں کسمپرسی کے عالم میں ہزاروں میل دور درگاہ خداوندی وبارگاہ رسالت ماب تک پہنچایا گیا اور انہوں نے عقیدت وفریفتگی کی داستان رقم کی ،جو بے سروسامانی میں ہی نہیں بے قابلیت بھی بلالیے گئے اور وہ ٹھٹھک ٹھٹھک کے قدم  رکھتے ہیں ،جنہیں احساس ہے کہ وہ کدھر جا رہے ہیں اور انہوں نے کرنا کیا ہے،اشکوں سے وضو کرکے جو کوچہ محبوب میں سر کے بل حاضری دیتے ہیں،کرنے کو تو جنہوں نے عمرہ کیا مگر وہ کر کچھ ایسا آئے کہ جسے تاریخ کا حصہ بنانا چاہتے ہیں،جنہیں اپنی نفسانیت سے اٹی زندگی پر شرمساری بھی ہے اور بارگاہ خداوندی تک رسائی پر فخر بھی،جو اپنی تقصیرات ومعاصی کے معترف بھی ہیں مگر سرزمین حجاز پر نہایت فرحاں ونازاں بھی ،جن کی آنکھیں برس رہی ہیں بلکہ برسے جارہی ہیں،کبھی اس نعمت مترقبہ پر خوشی کی فراوانی سے تو کبھی اپنی سرکشی وبے مائیگی  پر  ملال وحزن سے،جو کبھی بہت خوش دکھ رہے ہیں تو کبھی غم واندوہ سے نڈھال،جو پہنچے تو سرمست تھے مگر لوٹے تو بے حال، جنہوں نے راہ نبوت کو اشکوں سے دھویا،بارگاہ رسالت ماب میں آنسوؤں  سے اپنے عشق کو سرمدیت بخشی اور سرزمین حجاز کے کوچہ کوچہ کو اپنے وجود میں جذب کیا،مظاہر خداوندی کے تاریخی پس منظر سے شناسائی حاصل کی،مسائل ومعارف کو دیکھا اور زیرعمل لایا اور اس سب کو اپنے جذبات کی آمیزش دیتے ہوئے تاریخ کی زینت بنایا۔

سفرنامہ حرم کا راہی جہاں وارفتہ جذبات کا حسین منظرنامہ ہے وہیں مرکز تجلیات مکہ ومدینہ کی خوبصورت تاریخی دستاویز اور مسائل ومعارف کا فقیہانہ مجموعہ بھی،جو عالم کسمپرسی میں زیارات مکہ ومدینہ سے بہرہ ور ہونے والے دو بے کس میاں بیوی کی خداورسول سے عاشقانہ اداؤں  کا تذکرہ بھی ہے اور ایک خوبصورت علمی وتاریخی دستاویز بھی۔ راقم الحروف کے پیش نظر یہ جذبہ کارفرما ہے کہ اپنے سفر کی محبوبیت کو سرمدیت بخشے اور کسی بھی نئے عازم سفر کو بتلایا جاسکے کہ کم از کم معیار محبت کیا ہے،علمی مصادر سے اخذ کردہ مسائل ہر ہر منسک کی درست ادائیگی کی طرف متوجہ کرسکیں تاکہ یہ سفر جہاں اخروی نجات کا ذریعہ بن سکے وہیں دنیوی سعادت کے حصول کا باعث بھی ہوسکے۔

کتاب پڑھنے اور ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے لنک!

Advertisements
julia rana solicitors london

https://drive.google.com/drive/folders/1aJyb03DZRjqSb6VdhznLRT4hFSc_ypHd

Facebook Comments

ظفر الاسلام
ظفرالاسلام سیفی ادبی دنیا کے صاحب طرز ادیب ہیں ، آپ اردو ادب کا منفرد مگر ستھرا ذوق رکھتے ہیں ،شاعر مصنف ومحقق ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply