ہمیں دائیں اور بائیں نظریات کے حاملین ملیں گے۔ ان نظریات کے ماننے والوں کو بھی دو دو میں بانٹ لیں۔ ایک کو ہجوم کہہ لیں جبکہ دوسرا حجوم * ٹھیک رہے گا [حجم سے] یعنی ضخامت، گاڑھا پن، قد و قامت، عظمت اور وسعت رکھنے والے چند لوگ۔
ہجوم کی دور کی نظر خراب ہوتی ہے۔ اکثریت جذبات میں بہنے والوں کی ہوتی ہے۔ انتہا پسندانہ سوچ انھیں سوچنے ہی نہیں دیتی۔ وہ لوگ نعمت ہیں جو جذبات کو سوچ و فکر اور تدبر کی قید سے آزاد نہیں کرتے۔ یہ خاموش طبقہ بھی کہلایا جا سکتا ہے۔ انھیں کم گو کہنا بھی بجا ہے لیکن یہ آگے اور پیچھے بیک وقت دیکھ سکتے ہیں۔ خاموشی ویسے بھی عقل کو حصار میں لیے ہوتی ہے۔ ان کی خاموشی ہی دراصل ان کی بقا ہے۔
ایک تیسرا طبقہ بھی ہوتا ہے جو قوت اور طاقت سے لیس لیکن ان کی خوشحالی اور مفادات انھیں صرف ذات کا سوچنے پہ مجبور کرتے ہیں۔ وہ ہجوم سے کہتے ہیں کہ قومی مفاد ذاتی مفاد سے عزیز ہونا چاہیے جسے حجوم* ہنس کے ٹال دیتا ہے کیونکہ انھیں لومڑیانہ چالیں سمجھ آرہی ہوتی ہیں جبکہ ہجوم چاہے اَن چاہے بلی دیکھ کے آنکھیں موند لیتا ہے اور تب ہائے ہائے کرتا ہے جب بلی تھیلے سے باہر آتی ہے۔
ہجوم اور حجوم دونوں ہی طاقتور کے آگے ہاتھ باندھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن ان تینوں طبقات میں دور دیکھنے والے چند لوگوں کو فاضل جبکہ باقی ماندے کو فضلہ کہہ سکتے ہیں۔ یہ دو ایسے طبقات ہیں جو اپنے اپنے لیول پہ مفادات ایک ہونے کی وجہ سے سہولت کاری کا کام کرتے ہیں۔
اللّہ ہمیں بھی سمجھ عطا کرے اور چن لے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں