انسانی تاریخ از خود اس بات پر شاہد ہے کہ انسانی عقل ہمیشہ کسی ما ورائی طاقت کے تابع رہی ہے ، یہی وجہ ہے کہ انسان چاہے ادیانِ سماویہ کے تحت زندگی گزارتے ہوں یا نہوں نے اپنے طور پر ادیان ایجاد کر لئے ہوں ، سب نے کسی نا کسی طاقت کو خود سے اوپر مانا ہے۔ ۔اور یہ صرف اتفاقی امر نہیں ہے بلکہ انسانی عقل ہمیشہ ہی اس بات کی متقاضی رہی ہے کہ اس کو جو کچھ مظاہرِ قدرت نظر آ رہے ہیں ان کے پیچھے کوئی صاحبِ قدرت بھی ہو، اسی لئے جہاں ادیانِ سماویہ کے حاملین کے ہاں ایک اللہ کا تصور پایا جاتا رہا ہے وہیں دیگر ادیان میں بھی ایک الگ طاقت کو تسلیم کیا جاتا رہا ، جس کو کسی نے شبیہ کے طور پر اپنے سامنے مورتی کی صورت میں بنا کر رکھ لیا تو کوئی اس ما ورائی طاقت کے سب سے مضبوط مظہر کا پجاری بنا ، جیسے سورج و چاند کی عبادت کرنے والے ، الغرض یہ کہ تاریخِ عالم کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں ہمیشہ ہی کوئی نا کوئی مذہب کار فرما رہا ہے اور مذاہب کلی طور کسی ما وراء ذات کو تسلیم کرتے آئے ہیں۔ چونکہ یہ انسانی عقل کا تقاضا ہے۔
لیکن ساتھ ہی بہت ہی مختصر سے لوگ ایسے بھی تاریخ کے تقریبا ًہر دور میں رہے ہیں جنہوں نے عقل کی بنیاد پر کسی ما ورائی طاقت کا انکار کیا ، لیکن ان عقل کے اندھوں پر عقل ہی نے ایسا جادو کیا کہ انہوں نے ما ورائی ذات کے معروف تصور کے انکار کے ساتھ عقل کو ہی سب کچھ تسلیم کر لیا اور یوں عقل کی گھٹا ٹوپ وادیوں میں جا نکلے ۔جس کی بنیادی وجہ کسی کو عقل سے اوپر یا ما وراء تصور نہ کرنا ہے ، اور اس تصور نے چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے ، جانتے یا نہ جانتے ہوئے عقل کو خدا کا درجہ دینے والا بنا دیا جو خود ایک ما وراء چیز ہے کیونکہ عقل خود کسی طرح کی کوئی پراپرٹیز (حقیقت/وجود) نہیں رکھتی۔
یوں یہ گروہ جیسے لا دینیت کا شکار ہوا ویسے ہی لا عقلیت کا بھی شکار ہو گیا۔ اس قسم کے لوگ تاریخ میں بڑی گمنامی کی زندگیاں گزار کر گئے ہیں ، سوائے دو ادوار کے:
1. فلسفہ یونانی کا دور
2. سائنس کا دور۔یعنی زمانہِ حال
ان دو ادوار میں اس گروہ کو خوب پذیرائی ملی اور اپنے پنجے مضبوط کرنے کا موقع ملا ، اس کی وجہ یہ بنی کہ یہ لوگ اپنے مزعومہ خدا یعنی عقل کے ذریعہ کچھ نتائج تک پہنچنے لگے اور بظاہر انسان کے سامنے ہوتے ہوئے مظاہرِ قدرت کی کوئی نا کوئی توجیہ پیش کر سکے ، اور یوں کمزور عقیدہ لوگوں پر ان کی یلغار بہت مضبوط رہی۔اس طرح لوگ لا دین یعنی ملحد ہونے لگے یا کم از کم الحاد ان کے اوپر کچھ نا کچھ اثر قائم کرنے لگا۔
البتہ دونوں ادوار میں ایک چیز بڑی مختلف نظر آئی کہ یونانی فلسفہ کے دور میں ان بے عقلوں کو ہمیشہ ہی ان کا حق ملا (یعنی دھتکارا گیا) اور سائنسی دور میں ان لوگوں کو اوقات سے زیادہ مقام دے دیا گیا ، یوں پہلے دور کے لوگوں کی گمراہی تو کتابوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی لیکن زمانہ حال میں ان عقل پرستوں کو چونکہ اقوامِ عالم پر بھی تسلط حاصل ہو گیا یوں ان کی یلغار صرف کتابوں تک محدود رہنے کے بجائے پروپیگنڈے ، میڈیائی طاقتوں اور دیگر مشینریوں کے ذریعہ عوام میں اضطراب اور بے چینی پھیلانے کا سبب بنی۔
البتہ سچ یہ ہے کہ جس طرح فلسفہ یونانی اپنی تمام تر جولانیوں میں بھی اس وجہ سے نا کامی کا شکار ہو گیا کہ عقلِ سلیم رکھنے والوں نے نا صرف تعلیماتِ سماویہ کے ذریعہ بلکہ ساتھ ہی عقلی دلائل پر بھی اس کی عدمِ حقانیت کو ثابت کیا ، اور اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا اسی طرح سائنسی بنیادوں پر عقل کا مقدمہ قائم کرنے والوں کا بھی یہی حال اور یہی حل ہے۔
الحادی سوچ رکھنے والے ہر میدان میں عقل کے گھوڑے دوڑانے کے قائل ہیں ، اور دین کا اصل مقدمہ اور اصل روح ہی غیب پر ایمان لانے کا نام ہے ، یوں یہ دوالگ الگ سوچیں ہیں جن میں سے آخر الذکر سوچ پر ہمارا معاشرتی ڈھانچہ قائم ہے ، اور ہمارا معاشرہ جی رہا ہے ، جبکہ اول الذکر کو ہمارے معاشرے میں داخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، جس میں جہاں میڈیا اور سوشل میڈیا کا استعمال کیا جا رہا ہے وہیں ایک بڑا ہتھیار نصاب کی صورت میں بھی لانچ کیا گیا ہے ، جس میں لا دینیت کو گھول کر ہماری نسلوں کو پلایا جا رہا ہے ، اور اس طرح نو جوانوں کا ایک بڑا طبقہ مکمل طور پر الحاد کا نہیں تو کم از کم ملحدانہ سوچ کا تیزی سے شکار ہو رہا ہے اور دین سے دور ہو کر نا صرف اپنے لئے بلکہ پورےمعاشرے کیلئے خطرے کا باعث بن رہا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں