• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ظلمت سے نور کا سفر(آخری قسط،23)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ظلمت سے نور کا سفر(آخری قسط،23)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہو جاؤں گا
اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاؤں گا
تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں
میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاؤں گا
مجھ کو چلنے دو اکیلا ہے ابھی میرا سفر
راستہ روکا گیا تو قافلہ ہو جاؤں گا
ساری دنیا کی نظر میں ہے مرا عہد وفا
اک ترے کہنے سے کیا میں بے وفا ہو جاؤں گا

ضحی اپنے کونسلنگ سینٹر میں کچھ صحت کارڈز پہ دستخط کر رہی تھی جبکہ اس کی دو سالہ عمارہ ایک صحفے پر نقش و نگار بنانے میں مصروف تھی۔فون کی مخصوص بیل بجنے پر ضحی سے پہلے عمارہ نے بابا کہتے ہوئے فون اٹھا لیا۔ضحی نے اس کے ہاتھ سے فون لیتے ہوئے کال سنی۔
“چلو بیٹے بابا آگئے ہیں ”
ضحی نے جلدی سے کارڈ اٹھائے اور ورڈ میں سوئی خواتین کے سرہانے رکھے ۔
عمارہ نے بھی اپنا صفحہ ایک میز پہ رکھ دیا اور باہر بھاگ گئی۔ضحی پرس لیتے ہوئے اس کے پیچھے دوڑی ۔رات کے گیارہ بج رہے تھے اور وہ اپنے اسٹیچنگ سینٹر کے بعد کونسلنگ سینٹر آتی تھی جہاں سے اظہر اسے گھر لے جاتا ۔آج کافی دیر ہوگئی تھی تو وہ پریشان تھی کہ گھر اب کھانا کیسے بنایا جائے۔
اظہر نے اس کی مشکل آسان کی
“یار باہر سے کھا لیتے ہیں۔”
ضحی نے ٹوکا”
نہیں گھر چلیں میں کبابوں کا سالن بنادوں گی”
ورکنگ وومین کو اپنی جگہ،اپنا گھر اور اپنا کچن مینج کرنا آنا چاییے ورنہ وہ کوئی بھی ادارہ نہیں چلا سکتی نہ ہی کسی جاب کی مستحق ہوسکتی ہے۔
اظہر نے اسے خیالوں میں گم پاکر کھنکارتے ہوئے متوجہ کیا اور بولا تو ضحی کے حواس گم ہوگئے۔

” ریشمہ نے اماں جی کو پاگل خانے بھیج کر مکان بیچ دیا۔پیسے شوہر کو دیے تاکہ وہ اپنا نشہ لے اور ریشمہ کو طلاق نہ دے”

تین سال پہلے

اظہر نے گاڑی اس کے گھر کے سامنے روکی تو ضحی کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا ۔
“اظہر یہ آپ نے کیوں کیا میں اندر نہیں جانا چاہتی”
اظہر نے خاموشی سے گاڑی سے اتر کر اس کی طرف کا دروازہ کھولا
ضحی نے شکوہ کناں پرنم نگاہوں سے دیکھا اور مدھم سے بولی
“میں اندر نہیں جانا چاہتی”
اظہر نے گہری سانس لی اور اس سے پوچھا
“ضحی!
کیا آپ ان اولادوں میں سے ہونا چاہتیں ہیں جو والدین کو چھوڑ دیتے ہیں؟
کیا آپ وہی کریں گی جو آپ کے ساتھ کیا گیا؟
ضحی ! میری مضبوط کندھوں والی بیگم چلیں شاباش ۔۔۔”
ضحی گاڑی سے اتری اور بھوجھک قدموں سے دروازہ بجایا۔۔
لیکن دروازہ کھلا تھا اور ضحی اندر داخل ہوئی تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔گھر تقریبا خالی تھا۔وہ صحن جو کبھی چمکا کرتا تھا دھول سے اٹا ہوا تھا ۔لان کے وہ پودے جن کو اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا اب کہیں نہیں تھے۔۔
گھر خستہ حالی کا شکار تھا ۔ضحی کے پور پور میں بے چینی دوڑ گئی۔آواز دے بیٹھی
“اماں،ریشمہ؟ بھائی؟ ابا؟ کوئی ہے؟؟؟”
اندر سے ناتواں ،کپکپاتی ہوئی آواز آئی “ضحی!
میرا بچہ آگیا۔ضوئی ضوئی آگئی”
ضحی آواز کی سمت بھاگی اور اظہر خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑا۔
ضحی اندر آئی تو اماں کو بستر سے اترنے کی کوشش میں پایا۔انہیں سہارا دیا۔دکھ سے انہیں دیکھا۔کہاں گیا وہ رعب دبدبہ، تنتنہ ،رعونت ؟؟
یہ وہ اماں تو نہیں تھیں جو دوڑتے ہوئے محلہ کا پورا چکر لگا آتیں ۔
اماں نے ضحی کا چہرہ،ہاتھ چومے اور اظہر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
“اماں جی میں آپ کا بیٹا ہی ہوں ۔ضحی میں الیکٹریشن اور مالی لاتا ہوں ”
ضحی نے تشکر کے ساتھ اس کو الوادعی نظروں سے دیکھا۔
اظہر جو گھر کی حالت دیکھ چکا تھا لیکن ماں بیٹی کے درمیان کئی سالوں کا فاصلے سمیٹنے کے دوران کھڑا نہیں رہ سکتا تھا۔یہ اس سے نہیں ہوا تھا۔پانی کی موٹر بھی خراب ہونے کے ساتھ کافی چیزوں کو مرمت کی ضرورت تھی۔وہ باہر چلاگیا۔
اندر ضحی ماں کی کہانی سن رہی تھی
“ہائے نی میری ضوئی۔۔۔”کہتے ہوئے وہ وقفے سے ساری کہانی سنا رہی تھیں
“تیرے جانے کے بعد تیرے بھائی نے ریشمہ کی شادی اپنے دوست سے کردی۔وہ نشے کا عادی تھا اور اس نے تیرے بھائی کو بھی نشے پہ لگا دیا ۔۔نشے کے لیے اس نےتیرے ابا کے نام پہ قرضے لیے ۔تیرے ابا نے قرض اتارنے کے لیے سب بیچ دیا۔دکھ نماڑا
۔۔ہائے ساڈا دکھ نماڑا۔۔۔
تیرے ابا کو کینسر تھا اور تیرا بھائی نشے کے لیے گھر کا فرنیچر بھی کھا گیا اب کچھ پتہ نہیں کہاں ہے۔تیرا ابا کا علاج نہ ہوا اور وہ چل بسے۔
ہائے میرے سر کا تاج۔’
ضحی کو سمجھ نہ آئی کہ وہ کس دکھ پہ روئے؟
والد کی وفات پر ؟ بھائی کی گمشدگی پر؟
اپنی بہن کی ناکام شادی پر؟ یا والدہ کی اس حالت پر؟
وہ بس ماں کو گلے لگائے روتی گئی۔یہاں تک اظہر آگیا کھانا بھی لے آیا تھا
گھر کا کام کرانے کے بعد ضحی نے کھانا لگایا ۔اظہر ماں سے مخاطب ہوا۔
“اماں جی آپ ہمارے ساتھ چلیں۔جب آپ چاہیں یہاں آجایا کریں ۔گھر تو اچھا ہوگیا ہے اب لیکن مائیں بیٹوں کے ہوتے اکیلے نہیں رہتیں۔”
ضحی بس ممنوں نظروں سے دیکھتی رہی۔
اماں جی نے ٹھنڈی سانس بھری
“نہ پتر ۔ضحی کے ساتھ میں نے بہت برا کیا اس کو گھر سے نکالا میری اولاد بکھر گئی۔ریشمہ کا شوہر اس کا جینا حرام رکھتا ہے وہ یہاں آجاتی ہے کبھی کبھی ۔میں نہیں چاہتی اسے ضحی کا پتہ چلے اور پیسوں کی مانگ کردے۔”
ضحی کا دل مکدر ہوگیا “ٹھیک ہے میں ایک بزرگ خاتون کو جانتی ہوں وہ ادھر رہیں گی آپ کے ساتھ،میں اور اظہر آجایا کریں گے”
اظہر کو ٹھیک نہ لگا مگر ضحی کی طبعی حالت کے پیش نظر خاموش رہا۔

حال
ضحی کو سب بھول گیا اور وہ اسے بولی
“پلیز ہاسپٹل چلیں”
اظہر نے کہا “وہیں جارہا ہوں ۔”
ضحی نے بھوک سے روتی عمارہ کو پرس سے بسکٹ نکال دیا اور دونوں ہاتھ اٹھا دیے
اے اللہ ! اے بے بسوں کے رب!
تجھ سے مانگتی ہوں اور تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہی اللہ مجھے میری والدہ سے ملادے ۔ہمارے لیے آسانیاں عطا فرما”
اظہر نے گاڑی پاگل خانے کے سامنے روکی اور عمارہ کو اٹھائے ہوئے ضحی کا ہاتھ تھامے اندر چلا گیا۔
ضحی کی ربورٹ کی طرح انہی راہداریوں سے گزرتی ہوئی وارڈ تک آئی ۔نگاہوں نے ماں کو پالیا جو اسی بیڈ پر بے سدھ پڑی تھیں جس پر کبھی وہ ضحی کو چھوڑ آئیں تھیں
جس پر کبھی وہ ضحی کو چھوڑ آئیں تھیں۔ضروری کاروائی کے بعد ماں جی کو گھر لےآئے
صبح اماں جی کی  آنکھ کھلی تو عمارہ اپنے ننھے ہاتھوں سے انکی آنکھیں کھول رہی تھی
“نانو اٹھیں ”
اماں جی نے آہستگی سے کہا
“میری ضحی”…

Advertisements
julia rana solicitors london

ختم شد

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply