یاد کی شام

آسمان پر چھائے بادلوں نے اُ س کی یاد سے رنگین شام کو اور بھی رنگین بنادیا تھا۔ اُس کے سنگ بیتے لمحے میرے دل کے آنگن میں یہاں وہاں اٹھکھیلیاں کرتے پِھر رہے تھے اور میں اُس کے پاس بیٹھی ہنسنی بنی، اُس کی باتوں کے موتی چُن رہی تھی، پر وہ میرے جذبات سے انجان تھا یا بن ر ہا تھا شاید ۔۔۔ بھلا برف بھی آگ سے انجان رہ سکتی ہے؟ میرے جذبات تو دہکتا کوئلہ تھے، کیسے ممکن تھا کہ اس کے دل کی سرزمین یہ تپش محسوس نہ کرتی؟

ایک دن وہ مجھ سے ملنے آیا تو باتوں باتوں میں اُس کے لہجے میں محبت بولنے لگی، محبت کو لے کر اُس ؎ کے چہرے پر در آنے والی حیرانی میری نظروں سے چُھپی نہ رہ سکی۔ وہ جانے کِس دُھن میں تھا۔محبت اُس پر مہرباں تھی یا وہ محبت پر فریفتہ۔۔۔ اندازہ نہ ہو سکا۔ پھر ہولے ہولے اُس کی باتیں اور شام یک جاں ہو گئیں۔ دھنک نے ہم دونوں کی ذات کا احاطہ کر لیا۔ پھر روز ایسا ہی ہونے لگا ۔جیسے ہی سورج اپنے گھر کے راستے پر پہلا قدم رکھتا، میں فوراً اپنی وہیل چیئر اپنے ہی ہاتھوں سے چلاتی، لان کے بالکل سامنے پلر سے لپٹی عشقِ پیچاں کی بیل کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتی۔ یہاں بیٹھ کر مارگلہ کی پہاڑیوں میں پناہ لیتا نارنجی اور سُرخ رنگوں کے امتزاج سے مزّین سورج آخری لمحے تک ہم دونوں کی سِمت دیکھ کر مسکراتا رہتا اور ٹھنڈی ہوا عشقِ پیچاں سے کاسنی پھول چُرا چُرا کر ہمیں مہکاتی رہتی۔

وہ بولتا تو اُس کی باتیں کانوں میں رس گھولنے لگتیں، نغمہء فرزانہ کا ساز بج اُٹھتا جو مُجھے خود سے بیگانہ کر جاتا۔ جب وہ میرا ہاتھ تھامتا تو اُس کے قُرب کا لمس میری اُنگلیو ں کی پوروں سے ہوتا ہُوا میری رگ رگ کو آتشیں کر جاتا، اُس کی سانس موم کی گڑیا کو پگھلانے لگتی۔ موم پگھل کر اُس کے قدموں میں گِرتا اور ایک داسی کی مورت میں ڈھل کر اُس کے گھٹنوں پر سر ٹکا کر بیٹھ جاتا۔ سال لمحوں کی گرفت میں آجاتے اور لمحے پنچھی بنے کبھی میری تو کبھی اس کی سوچ منڈیر پر بیٹھتے اور دور دیس کے سفر پر نکل جاتے۔

تب ایک روز شام کے تاریک پڑتے چہرے پر سجی مسکراہٹ محبت اور یقین کے درمیان بیٹھے اُس پل سے ہمیں چوکنّا کر گئی جو فراق کی صورت ہرن بنا زقند بھرنے کو تیار بیٹھا تھا۔ شام کے اس دہلا دینے والے پیغام پر میں نے سوال کرتی آنکھوں سے اُس کی سِمت دیکھا تو اُس نے میرے ماتھے پر بوسہ دے کر میری ساری بے چینی کو اپنے اندر جذب کر لیا۔ لان میں لگے موتیا،چنبیلی اور گلِ لالہ نے ایک بار پھر سے جھوم کر ہماری طرف دیکھا اور آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔ رات تلاطم خیز جذبات کے ساتھ بھی سُبک رفتاری سے بہتی رہی۔ ہوا ہم دونوں کے بالوں سے چھیڑ خانی کرتی کبھی کسی کونے میں جا چُھپتی اور کبھی کسی۔ خا موش لمحوں کی خوشبو ہمارے انگ انگ کو مہکانے کے بعد فضا میں بکھر کر اُسے اور بھی معطر کر رہی تھی۔ اُس کے جانے کا وقت قریب آرہا تھا۔ آہٹوں میں تھکن اُتر آئی تھی۔آگہی کے عذاب لمحے نے اُس کے پاؤں میں سفر باندھ دیا تھا، اُسے لوٹنا تھا۔ ان دیکھی حقیقتو ں کی جانب۔ اور مجھے اُسے رخصت کرنا تھا، اس یقین کے ساتھ کہ کل شام پھر سے رنگ و نور کا قافلہ لیے وہ میری پناہوں میں ہوگا اور اسی اُمید کیساتھ میں اُسے ثریّا کے جُھرمٹ میں تبدیل ہوتا دیکھتی رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors

پھر جانے کیا ہُوا؟ اگلی شام کے بعد کئی شامیں اپنے ساتھ اداسی کا سندیسہ لائیں، اس کے لوٹ آنے کے انتظار میں، میں نے عشقِ پیچاں کے بے شمار گِلے سُنتے ہُوئے چنبیلی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ لوٹ آئے گا۔ اُس کو آنا ہی ہے۔محبت کے رنگوں سے مجھے روشناس کروانے والا بے وفا نہیں ہو سکتا۔ ایک اداس شام میں اُس کے انتظار میں پلر سے لپٹی عشقِ پیچاں کی بیل سے باتیں کرتے، جب میری آنکھ لگ گئی تو چند ہی ساعتوں بعد ایک نرم و گداز احساس نے مجھے آنکھیں کھولنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے دیکھا کاسنی پھول میری جھولی میں پڑے گنگنا رہے تھے،تتلیوں کے رنگ لوٹ آئے تھے،جگنوؤں کی روشنی گہری ہو گئی تھی، چمپا اور چنبیلی آپس میں سرگوشیاں کر رہی تھیں، ہوا شرارتوں میں مصروف تھی،شفق کی لالی چہرے پر سمٹ آئی تھی، ڈوبتا سورج نرمی سے مسکرا رہا تھا، خوشبوؤں نے وجود کو مہکا دیا تھا، وہ میرے سامنے تھا۔۔۔ہنستی آنکھوں میں ستارے لیے، اس کا لفظ لفظ میری سماعتوں کو شہد آگیں کر گیا، محبت سے مخمور لہجے میں، میں نے اسے کہتے سُنا:
محبت کو موت سے کیا غرض۔ یہ ابدی نیند تو دنیا والوں کے لیے ہے، محبت جسموں کا نہیں، روحوں کا تعلق ہے، بے شک خاکی جسم منوں مٹی تلے پڑا سویا رہے پر روح اپنے محبوب کے طواف میں ہی مصروف رہتی ہے، جس طرح پھول سے خوشبو جدا نہیں ہو سکتی، چاند جل نہیں سکتا، سورج بُجھ نہیں سکتا، سمندرکے دونوں کنارے دوری کے باوجودایک دوسرے کی بے چینیوں سے واقفیت رکھتے ہیں، ایسے ہی تم میرا اصل ہو، میری تخلیق کا باعث۔۔۔ متاعِ جاں! کھنکتی مٹی کے اقرار نے ہر پل کو حیات جاودانی بخش دی۔

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply