پختون پنجاب مِلی یگانگت،غلط فہمیوں کا ازالہ

کچھ روز قبل جاری پختون پنجابی ایشو کے دوران خاموشی اختیار کئے رکھی کہ مجھے اپنے پشتون دوستوں سے محبت ہے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ اس تنازع میں پڑ کے (جسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ) ہمارے درمیان کوئی رنجش یا دل میں میل آئے۔۔۔۔یہ ریاستی و حکومتی معاملات ہیں جن میں بعض اوقات سیاسی مفادات کی آمیزش ہو جاتی ہے جو گروہی نسلی منافرت کا سبب بنتی ہے جس سے دور ہی رہا جائے تو مناسب ہے ہمیں آپس میں الجھنے سے گریز کرنا چاہیے، ہاں صحتمند اور مثبت مکالمے میں کوئی ہرج نہیں اس سے ایک دوسرے کے موقف کو جاننے اور اسکے حل کی طرف پیشرفت میں آسانی رہتی ہے۔۔۔آج مجھے یہ سب کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ایک نہایت محترم دوست کی وال پہ ایک پوسٹ دیکھی جس میں انہوں نے لاہور کے سفر میں پیش آنے والی متوقع مفروضہ پہ مشتمل پریشانی کا ذکر کیا اور پشتون بھائیوں سے امتیازی رویے کی دہائی دی، یہ میرے لئیے حیرت اور دکھ کی بات تھی جسکا میں نے برملا اظہار کیا اسوقت مجھے حقائق کا علم نہیں تھا میں نے محترم دوست کی بات کو معتبر جانا مگر مجھے حیرت اس بات پہ تھی کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کے شہریوں کو لاہور یا پنجاب میں کہیں بھی داخلے کے لئیے کسی مخصوص سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہو۔۔اس ضمن میں انہوں نے آئی جی پولیس پنجاب کے آفیشل لیٹر کا حوالہ دیا، انہوں نے اس کا سنیپ شاٹ بھی اپنی گزشتہ پوسٹ پہ لگایا میں نے بھی وہ خط دیکھا جہاں تک میں اس خط کو سمجھا ہوں میری دانست میں معاملہ اسطرح نہیں جیسے میرے فاضل دوست نے بیان کیا۔۔یہ خط جو آئی جی پولیس پنجاب کی طرف سے پولیس افسران ،سکیورٹی اداروں اور ایڈمنسٹریشن اتھارٹیز کو جاری ہوا اسکے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کومبنگ آپریشن کے تناظر میں ہدایت نامہ ہے ۔اسمیں بہت سارے معاملات کااحاطہ کیا گیا ہے کہ گھروں میں سرچ آپریش کے دوران لیڈیز پولیس افسران موجود ہونی چاہییں اور مکمل انٹیلی جنس معلومات کے بعد آپریش کیا جائے بلاوجہ کسی کمیونٹی یا علاقے کے لوگوں کو پریشان نہ کیا جائے وغیرہ وغیرہ ۔۔پوری تفصیل سے قطع نظر اس میں جو زیرِ بحث ایشو ہے اس پہ بات کی جائے تو اس خط کے مطابق افغان/پشتونوں کے لئیے ایک فوکل پرسن کا تقرر کیا جائے گا جو ایڈمنسٹریشن اور سکیورٹی اداروں سے تعاون کرے گا وہ مقامی معتبر شخصیت بھی ہو سکتی ہے، ایسی شخصیت کی عدم دستیابی کی صورت میں متعلقہ ضلع کا پولیس آفیسر بھی فوکل پرسن ہوسکتا ہے، ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے پنجاب کے اضلاع میں رہائش پذیر افغانیوں/ پشتونوں کے لئیے ایک سرٹیفکیٹ وضع کیا جائے جس میں ان لوگوں کے مکمل کوائف درج ہوں جس پہ ان کی فوٹو گراف بھی چسپاں ہوں اس سرٹیفکیٹ پہ درج معلومات کی آن لائن رسائی بھی ممکن ہونی چاہیے، یہ سرٹیفکیٹ سکیورٹی اداروں کو بھی فراہم کیا جائے تاکہ سرچ آپریشن کے دوران یا ان لوگوں کو نقل و حمل آمدورفت کے وقت پریشانی نہ ہو،
مزید یہ کہ ممکن ہے ضلعی انتظامیہ کی طرف سے تصدیق شدہ ایسے سرٹیفکیٹ کے حامل افغانیوں/ پشتونوں کو ضروری جانچ پڑتال کے بعد آمد و رفت کی اجازت ہو ۔
اب غور طلب بات یہ ہے کہ اس خط میں کہیں بھی پختون پاکستانی شہریوں کا تذکرہ نہیں جہاں جہاں بھی ہے وہاں واضح طور پر افغانی/ پشتون کمیونٹی کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں، بادی النظر اس میں ان لوگوں کو سرٹیفکیٹ کا پابند کیا گیا ہے جو پاکستانی شناختی دستاویزات نہیں رکھتے اور دوسرے صوبوں سے نقل مکانی کر کے پنجاب میں عارضی طور پہ رہائش پذیر ہیں، جو پختون عرصہ دراز سے پنجاب میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں اور قومی شناختی کارڈ ہولڈرز ہیں وہ پاکستانی شہری ہیں خواہ خیبر پختونخواہ سے ہوں کہ بلوچستان سے انکے لیے لاہور یا پنجاب میں یا پاکستان میں کہیں بھی آنے جانے کے لیے ایسے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ۔ مجھے حیرت اور افسوس ہے ان دوستوں پہ جو اس طرح کا مسئلہ اٹھاتے ہیں جن میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی اس طرح دانستہ یا غیر دانستہ پاکستان میں نسلی تعصب ومنافرت پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے کان، آنکھیں کھلی رکھنی چاہییں حقائق کو جاننے کی سعی کرنی چاہیے پھر کوئی رائے قائم کریں ،اس طرح کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں آپس میں محبت اور مِلی یگانگت رکھیں ۔ اللہ پاکستان کی وحدت و سلامتی کا تحفظ کرے۔آمین!

Facebook Comments

گل ساج
محمد ساجد قلمی نام "گل ساج" مظفر گڑھ جنوبی پنجاب ۔۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply