اقوال احمقانہ: سیاست عبادت ہے ۔ صفدر چیمہ

سیاست کا شمار ایک ایسی عبادت میں ہوتا ہےجس کے ذریعے ہم اپنے سماج کی اجتماعی خدمت کر سکتے ہیں۔شعوری تربیت کر سکتے ہیں۔ اپنی قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ایک مضبوط عظیم اور ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا کر سکتے ہیں۔
ہم بحیثیت قوم سیاست کو انتہائی بری نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے اچھے بھلے پڑھے لکھے سمجھدار لوگ بھی سیاست کو گند کہتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
ساتھ ساتھ یہ بھی فرمائیں گے کہ ” ہمیں اس سے کیا غرض ہے کہ کس کی حکومت ہے اور کس کی حکومت آئے گی؟ جس کی بھی حکومت آئے ہم نے تو اپنا کمانا اور اپنا کھانا ہے۔ ہم نے تو ایمانداری سے اپنی آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کرنی ہے۔”
ہماری اسی فرسودہ سوچ نے ہم پر بد دیانت، عطائی، اور حادثاتی سیاسی اشرافیہ مسلط کر دی ہے۔
یہ مسلط سیاسی اشرافیہ جونکوں کی طرح ہمارا خون بھی چوس رہی ہے اور دیمک کی طرح مادر وطن کی جڑیں بھی کھوکھلی کر رہی ہے۔
کیا اس قسم کی بد دیانت سیاسی اشرافیہ کے ہوتے ہوئے کوئی ایماندار پولیس آفیسر دیانتداری سے اپنی ذمہ داری نبھا سکتا ہے؟ کیا کوئی ڈاکٹر مسیحا بن سکتا ہے؟ کیا کوئی جج اپنے منصب کے ساتھ انصاف کر سکتا ہے؟ کیا تمہیں اور تمہارے بچوں کو خالص غذا اور اعلی معیار کی ادویات مل سکتی ہیں؟ کیا تم اپنے بچوں کو سستی اور اعلی تعلیم دلوا سکتے ہو؟ کیا تم اپنے گھروں میں بھی چور ڈاکوؤں سے محفوظ رہ سکتے ہو؟ کیا تم وطن عزیز کے ایک شہر سے دوسرے شہر تک محفوظ سفر کر سکتے ہو؟ کیا تم کسی بھی ریاستی ادارے میں اپنے ایمان کے ساتھ ملازمت کر سکتے ہو؟
اگر ایمانداری سے اپنے فرائض سر انجام دینے کی کوشش بھی کی تو دوسرے دن تمہاری لاش کسی پنکھے کے ساتھ لٹکی ہوئی نظر آئے گی یا کسی پر اسرار روڈ ایکسیڈنٹ میں کتے کی موت مارے جاؤ گے۔ ہمارے بچے اسکول جاتے ہوئے اغوا کر لیے جاتے ہیں۔ کبھی پیسوں کی خاطر تو کبھی انسانی اعضاء کی خاطر۔ اور بہت کچھ۔ .
اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی ہم کہتے ہیں کہ سیاست سے ہمیں کیا غرض؟
میں یہ نہیں کہتا کہ ہم سب کل وقتی سیاست کریں۔ کل وقتی سیاست سیاستدانوں کا کام ہے لیکن ہم سب کو اتنا سیاسی شعور ضرور ہونا چاہیئے کہ ہم اپنے اور اپنی نسلوں کے مستقبل کے فیصلے کرنے کا اختیار کس قماش کے لوگوں کو سونپ رہے ہیں۔
سیاست پیشہ پیغمبری ہے۔ سیاست کو ” فرض کفایہ ” کا مقام دے کر اپنا جزو ایمان بنائیں۔
پھر دیکھیں سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوتا ہے کہ نہیں؟
اور یہ بات یاد رکھیں کہ جب تک ہم سیاست کو عبادت سمجھ کر اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کرتے اس وقت تک ہم بھیڑوں کی مثل ہیں اور ہمارے حکمران بھیڑیوں کی مثل۔
اگر ہم نے بر وقت کوئی درست سیاسی قدم نہ اٹھایا تو یہ بھیڑیے نما حکمران اشرافیہ ہمارا امن، بچے، تعلیم،صحت،عزت نفس سب کچھ کھا جائیں گے۔ کچھ نہیں بچے گا۔ اپنی دھرتی پر مسافروں والی زندگی ہمارا مقدر ٹھہرے گی۔
اگر ہم چاہیں تو سیاست کو عبادت قرار دیکر اپنا اور اپنی نسلوں کا حال اور مستقبل محفوظ کر سکتے ہیں۔ یا سیاست کو گند قرار دے کر حال اور مستقبل کو داؤ پر لگا سکتے ہیں۔
فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply