ٹارگٹ ٹارگٹ ٹارگٹ۔۔کرنل ضیا شہزاد/قسط 22

سادگی
بہت سال پہلے ہمارا ایک بیٹ مین بشیر ہوا کرتا تھا جو کہ سادگی میں اپنی مثال آپ تھا۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ہماری یونٹ ایک طویل جنگی مشق کے سلسلے میں کھاریاں کے قریب ایک علاقے میں موجود تھی۔ دوران ایکسرسائز ہم نے ویک اینڈ پر گھر جانے کا پروگرام بنایا۔ بشیر سے کہا گیا کہ ہمارے لئے بس کی ایک سیٹ کا بندوبست کرے۔ اس نے یہ سن کر دوڑ لگائی اور نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ دو گھنٹے کے انتظار کے بعد ہانپتا کانپتا ایک طرف سے نمودار ہوا اور آتے ہی کہنے لگا کہ سر! کوئی بس والا بھی سیٹ دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ بڑی مشکل سے لڑائی جھگڑے کے بعد جا کر ملی ہے۔ ویک اینڈ پر عموماً رش کی وجہ سے ایسا ہوتا تھا جو کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ ہم نے اسے شاباش دی اور تیار ہونے کے لئے ٹینٹ میں چلے گئے۔ کچھ دیر بعد باہر نکلے تو ہماری نگاہ سامنے موجود سچ مچ کی “سیٹ” پر پڑی جس کے ساتھ بشیر کھڑا مسکرا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر ہم نے اپنے سر پر ہاتھ رکھ لیا۔
مت پوچھیے  کہ اس روز گھر تک پہنچنے کے لئے ہمیں کتنا کٹھن سفر طے کرنا پڑا البتہ اس واقعے کے بعد ہم نے کسی سے بس کی سیٹ لانے کی فرمائش نہیں کی۔

بھول چوک
اچھی تربیت ہمیشہ سے پاک فوج کا طرہ امتیاز رہی ہے۔ زمانۂ امن میں معیاری ٹریننگ ہی فوج کی اولین ترجیح ہوتی ہے جس کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا۔ ہر فارمیشن کو سال میں دو مرتبہ جنگی مشقوں کے لئے لازمی طور پر فیلڈ ایریا میں نکلنا ہوتا ہے ۔ دو سال میں ایک بار فائرنگ رینج پر کیمپ بھی کیا جاتا ہے جس کے دوران بھاری ہتھیاروں یعنی توپوں اور ٹینکوں کے لائیو فائر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ ہر یونٹ کے لئے سخت امتحان کا موقع ہوتا ہے جس کے لئے بہت پہلے سے تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔ تمام لوگوں کی ریفریشر ٹریننگ کے ساتھ ساتھ توپوں کی صفائی اور گولوں کی ستھرائی کا بطور خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ سب اس لئے بھی ضروری ہوتا ہے کہ یونٹ جب میدان میں پہنچے تو ہر طرح کے کیل کانٹے سے لیس ہو تاکہ کم وقت میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا جا سکے۔ ٹریننگ کے بارے میں ایک ایس ایم صاحب نے ریٹائرمنٹ کے موقع پران خیالات کا اظہار کیا، صاحبو! میں نے فوج میں پینتیس سال زیرِتربیت رہ کر گزارے ہیں۔ در حقیقت ٹریننگ تو پہلے سال ہی کی تھی باقی کے چونتیس سال اسی کو دہراتے ہوئے گزرے ہیں۔

ایک ایسی ہی جنگی مشق کے لئے ہمیں اوکاڑہ سے خیر پور ٹامیوالی فائرنگ رینج پر پہنچنا اور دو ماہ کے لئے وہاں پر کیمپ کرنا تھا۔ یونٹ میں دو ماہ پہلے سے سخت تیاریاں شروع کر دی گئی تھیں۔ جوں جوں وقت قریب آتا جا رہا تھا ان تیاریوں میں مزید سختی آتی چلی گئی۔ آخر خدا خدا کر کے وہ دن آن پہنچا جب یونٹ نے تمام رخت سفر باندھ کر اٹھارہ توپوں کے ہمراہ چھاونی سے کوچ کیا۔ کوئی دس گھنٹوں کے لگاتار سفر کے بعد جب ہمارا قافلہ منزل پر پہنچا تو رات ہو چکی تھی۔ سامان اتارنے کا آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف خیموں کی چھوٹی سی بستی آباد ہو گئی۔ ایک مناسب جگہ پر لنگر کا سامان کھولا گیا اور کچھ ہی دیر میں گرما گرم کھانا تیار کر کے پیش کر دیا گیا۔ ایک بڑے سے ٹینٹ میں آفیسرز میس کا انتظام کیا گیا جہاں بیٹھ کر سب افسروں نے لالٹین کی روشنی میں کھانا تناول کیا۔ اگلے روز سے رینج پر پریکٹس فائر کا آغاز ہونا تھا اس لئے محفل جلد برخاست کر دی گئی اور سی او سمیت سب لوگوں نے شب باشی کے لئے اپنے اپنے خیموں کا رخ کیا۔

اگلی صبح کا آغاز کچھ ایسا اچھا نہ تھا۔ سی او میس میں تشریف لائے تو ان کے چہرے سے ناراضی عیاں تھی۔ چھوٹتے ہی ٹو آئی سی کی طرف رخ کر کے فرمانے لگے کہ ”میری تو تمام رات آنکھوں میں ہی کٹی ہے۔” ٹو آئی سی بولے کہ ”سر ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے، میں نے تو سب سے بہترین جگہ پر آپ کا ٹینٹ لگوایا تھا تاکہ آپ ٹھیک طرح سے آرام فرما سکیں۔” سی او نے جواب دیا ”میجر صاحب! آپ اس بات پر یقینا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز کے مستحق ہیں کہ آپ نے میرے ٹینٹ کے لئے عین لنگر کے ہمسائے میں جگہ کا انتخاب کیا ۔ رات بھر بکریوں کی مَیں مَیں نے آسمان سر پر اٹھائے رکھا ، پو پھٹتے ہی مرغوں نے اذانیں دینا شروع کر دیں اور دن چڑھے لنگر پر خانساموں کی قوالی شروع ہو گئی۔ اب ایسے شاندار ماحول میں کوئی پلک بھی کیسے جھپک سکتا ہے۔

یہ قضیہ ابھی جاری ہی تھا کہ صوبیدار میجر صاحب ٹینٹ کا پردہ اٹھا کر ایک کونے سے نمودار ہوئے۔ سی او اپنی پریشانی بھول کر ان کی جانب متوجہ ہوئے۔ ”جی، ایس ایم صاحب ، کیا سب لوگ فائر کے لئے تیار ہیں؟” جواب آیا ”سر! سب خیر خیریت ہے۔ وہ بس آپ کو بتانا تھا کہ ۔۔ کہ۔۔۔ہم گولے لانا بھول گئے ہیں۔” یہ سن کر سی او نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا۔ قریب تھا کہ انہیں ہارٹ اٹیک ہو جاتا کہ ٹو آئی سی اور دوسرے افسروں نے ان کو سہارا دے کر کرسی پر بٹھایا ۔ تھوڑی دیر بعد ان کی طبیعت بحال ہوئی تو انہوں نے فرداً فرداً ہم سب کی ”عزت افزائی” کا آغاز کیا۔ ساتھ ہی ساتھ اوکاڑہ کینٹ فون کر کے فوری طور پر دو ٹرک چلوائے گئے جو گولے لے کر شام تک خیر پور رینج پہنچے۔

اگلے دن کا آغاز صبح سویرے ایک عدد کالے بکرے کی قربانی سے کیا گیا جس کے بعد خطیب صاحب نے خصوصی دعا بھی فرمائی۔ فائر سے پہلے توپوں کو رینج ایریا سے سات کلومیٹر پیچھے ڈیپلائے کیا گیا۔ ٹارگٹ ایریا سے ڈھائی کلومیٹر پیچھے ایک اونچے ٹیلے پر آبزرویشن پوسٹ (او پی) بنائی گئی ۔ او پی سے گن پوزیشن کو وائرلیس سیٹ کے ذریعے ٹارگٹ کی پوزیشن اور دیگر معلومات پاس کرنے کے بعد فائرکے احکامات دیئے جانے تھے جس کے بعد گن پوزیشن افسر نے ڈیٹا نکال کر توپوں کا رخ ٹارگٹ کی جانب کرنا اور فائر کروانا تھا۔ سی او سمیت تمام افسران او پی پر جمع ہو گئے۔ فائر کا باقاعدہ آغاز ہوا تو ایک نئی مشکل نے آن لیا۔ ہمارے گولوں نے گویا ٹارگٹ کے قریب نہ پھٹنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ ہزار جتن کر کے دیکھ لئے لیکن گولوں کا چلن وہی رہا۔ کافی دیر تک یہی سلسلہ جاری رہا تو فائر روک دیا گیا اور تمام افسران سی او کے ہمراہ گن پوزیشن پر پہنچ گئے۔ معاملے کی تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ توپوں کی سائٹس میں کچھ فنی خرابی تھی جس کے باعث گولے غلط ڈیٹا پر فائر ہو رہے تھے۔

سی او اور ٹو آئی سی کی جانب سے گن پوزیشن آفیسر کی ”عزت افزائی” کا آغاز ہوا تو موصوف چہرے پر معصومیت طاری کر کے بولے ”سر! اب سمجھ میں آیا کہ فائر کے لئے صرف بکرے کی قربانی ہی کافی نہیں بلکہ سائٹس کو ٹیسٹ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔”

ایسا کیوں ہوتا ہے؟
تنخواہ کچھوے کی رفتار سے رینگتی ہے جبکہ مہنگائی خرگوش کی ماننددوڑ لگاتی ہے۔ تنخواہ ملنے سے پہلے ہی بل موصول ہو جاتے ہیں۔ لنگر گپ ہمیشہ سچ نکلتی ہے۔ چھٹی کا وقت قریب آتے ہی آپ کا نام کسی کورس، کمپیٹیشن یا ایکسرسائز کے لئے سیلیکٹ ہو جاتا ہے۔کوئی گیٹ ٹو گیدر ہو تو مناسب کپڑوں کا انتخاب ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔جس شخص سے کام پڑے اس کا نمبر موبائل سے ڈیلیٹ ہو جاتا ہے۔ جو کاغذ برسوں سینت سینت کر رکھے جاتے ہیں ضرورت پڑنے پر چراغ لے کر ڈھونڈے سے بھی نہیں مل پاتے۔گیسٹ روم کا پوچھنے پر ہمیشہ جواب ملتا ہے کہ اگلے چار ماہ تک سب گیسٹ روم بک ہیں جبکہ بغیر بکنگ کے پہنچنے پر پتہ چلتا ہے کہ سب کے سب خالی پڑے ہیں۔جس پراجیکٹ سے آپ جان چھڑانا چاہیں وہ آپ کو مل کر رہتا ہے اور جب آپ کو اس کی سمجھ آنے لگتی ہے تو وہ کسی اور کے حوالے کردیا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عزیز از جان دوست بھی دوبارہ کسی سٹیشن پر اکٹھے نہیں ہو پاتے۔آپ جس یونٹ میں پوسٹ ہوں تمام کینٹ کی ذمہ داریاں اسے ہی سونپ دی جاتی ہیں۔ کسی اہم ترین وزٹ سے قبل بیٹ مین وردی پر ڈیو سائن الٹا ٹانک دیتا ہے۔ بریفنگ سے ذرا دیر پہلے کمپیوٹر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔بریفنگ ، وزٹ اور ٹیسٹ کے دوران وہی سوال پوچھے جاتے ہیں جن کے جواب آپ کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں ہوتے۔جس دن آپ کا موڈ اچھا ہو اس روز باس کا موڈ نا خوشگوار ہو جاتا ہے۔ جس روز مرغی کھانے کو دل چاہے تو گھر میں ٹینڈے پکے ملتے ہیں ۔ جو اسائنمنٹ آپ اپنے تئیں سخت محنت سے تیار کرتے ہیں اس پر آپ کو جھاڑ پلا دی جاتی ہے جبکہ کئی بار واجبی سی کارروائی پر تعریفوں کے پل باندھ دیئے جاتے ہیں۔ آپ بیگم کی برتھ ڈے، شادی کی سالگرہ کا دن اور بچوں کی کلاسز ہمیشہ بھول جاتے ہیں۔ بیگم میکے جانے کا ارادہ کریں تو ٹرین میں سیٹ ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ سب تو ہوتا ہے لیکن اس کے بعد جو ہوتا ہے وہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔

Facebook Comments

کرنل ضیا شہزاد
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply