1۔ حنیف اخگر (مرحوم) ملیح آبادی (نیو یارک)
2۔صوفیہ انجم تاج
3۔ بشیر بدر
حنیف اخگر (مرحوم)
ڈاکٹر عبداللہ خدا جانے کیوں مجھے کھینچ کھانچ کر (کیا ”کھینچ کھانچ“ میں تابع مہمل صحیح ہے؟ نہیں جانتا، لیکن چلنے دیتا ہوں) مشاعروں میں لے جاتے ہیں۔ میں مشاعروں کا شاعر نہیں ہوں، بھائی، کئی بار ان کے گوش گذار کیا یہ امر ِ واقعی، لیکن شاید وہ مجھے اس لیے اپنے ساتھ رکھتے ہیں کہ ساتھ ساتھ چلنے سے میرا قد ان کے برابر آ جائے۔ بہر حال یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ ایک مشاعرے میں اپنی کار میں بٹھا کر نیو یارک لے گئے۔ نیو یارک کے مشاعروں میں یہ پہلی بار نہیں تھا، کہ میں حنیف اخگر صاحب (اب مرحوم و مغفور) کے رو برو ہوا۔ صنف غزل کی مخالفت کی وجہ سے مرحوم مجھے ”سر پھرا“ کہتے تھے جو بقول جوش ملیح آبادی (حنیف اخگر کے ہموطن) ملیح آباد کی ایک خاص اصطلاح تھی، جس کا مطلب کچھ اچھا نہیں نکلتا تھا۔
بہر حال اس بار بھی تپاک سے ملے، میری نئی کتابوں کی بابت دریافت کیا، پھر کہا، ”آج تو آپ سے غزل سن کر ہی رہیں گے۔“ میں نے عرض کیا، ”اپنی کوئی غزل دے دیں، میں پڑھ دوں گا، لیکن بھائی جان، غزل میں لکھتا نہیں اور نظم کو بقائمی ہوش و حواس سننے کا آپ کو چارہ نہیں، اس لیے میں خاموش رہنا ہی پسند کروں گا“۔ فرمایا، بلکہ دھمکی کے سے انداز میں دھمکایا، ”اچھا، دیکھ لیں گے۔
مشاعرے کا مہمان ِ خصوصی مَیں تھا اور حنیف اخگر اس کے صدر تھے۔ رسمیہ طور پر ضروری تھا کہ یہ بندہ ئ نا چیز سب شاعروں کے بعدپڑھے او ر اس کے بعد حنیف اخگر صاحب پڑھیں۔ اس لیے جب میں مائکروفون پر آیا، تو موصوف نے اپنی زناّٹے دار آواز میں اعلان کیا، ”آج ستیہ پال آنند ہمیں ایک غزل سے نوازیں گے۔“ اور پھر سامعین کی طرف دیکھ کر کہا، ”آپ سب بھی میری طرف سے یہی استدعا کریں۔“ جیسے بھیڑ چال ہوتی ہے، سب طرف سے غل ہوا، ”ضرور، ضرور، آج آنند صاحب غزل سنائیں گے۔“ موصوف کے ہونٹوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ جگمگا اٹھی۔میں نے مائکروفون پر کہا، ”ایک فی ا لبدیہہ شعر عرض کرتا ہوں۔“ پھر ہر طرف سے آوازیں آئیں، ”ارشاد، ارشاد، ارشاد ِ گرامی!“ ڈاکٹر عبداللہ جو مشاعرے کی نظامت کر رہے تھے، مسکرائے کہ وہ فی البدیہہ اشعار موزوں کرنے کی خدا داد قدرت کے بارے میں مجھے جانتے تھے۔ میں نے فی الفور عرض کیا:
؎ مجھے نہ پابندیء رسوم ِ غزل کی تلقین کیجیے گا
کہ میرے فن کی نزاکتیں آپ، بندہ پرور، نہیں سمجھتے!
پھر غل ہوا، لیکن اس بار ”واہ واہ“ کا، یا تحسین و تعریف کے جملوں کا۔
حنیف بھائی صاحب، کچھ جھینپے، لیکن فوراً کہا، ”سمجھتے ہیں، بھائی، خوب سمجھتے ہیں!اس بات کو کون نہیں سمجھتا؟“
میں نے فوراً ایک اور فی البدیہہ شعر موزوں کیا۔
؎ سمجھتے ہوتے تو اے مہرباں، یقیناً آپ
غزل کے اندھے کوئیں سے نکل گئے ہوتے!
اور پھر تابڑ توڑ ایک اور شعر ہوا، جو میں نے ہتھوڑے کی آخری چوٹ کی طرح جڑ دیا۔
؎ غزل و ہ اندھا کنواں ہے کہ اس میں جو بھی گرا
وہ اپنے فن کی زلیخا تلک نہیں پہنچا!
عبداللہ صاحب کے ہونٹوں پر اس معصوم قصائی کی سی مسکراہٹ تھی، جو ایک ایسے بکرے کو حلال کر کے ہوتی ہے، جس نے اسے اپنے سینگوں سے زخمی کیا ہو۔ حنیف اخگر صاحب نہیں جانتے تھے لیکن میرے سب قریبی دوست اس بات سے آگاہ ہیں کہ میں فی البدیہہ شعر کہنے میں یدّ ِ طولیٰ رکھتا ہوں۔ (بائی دی وے، یہ ید ِطولیٰ کیا ہوتا ہے، نہیں جانتا! لیکن، خیر، اصطلاح کے طور پر استعمال کرنے میں کیا قباحت ہے؟)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صوفیہ انجم تاج!
واشنگٹن ڈی سی کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی المنائی ایسوسی ایشن کے سالانہ مشاعرے پر ایک برس صوفیہ انجم تاج صاحبہ سے ملاقات ہوئی۔ موصوفہ نہ صرف شاعرہ تھیں، بلکہ آرٹسٹ بھی تھیں اور سنگیت کار بھی۔ فنکارانہ قدرت تو اللہ سے ودیعت ہوتی ہے لیکن آب ِ حیات کے اس چشمے کو تین دھاروں میں موڑ کر ہر ایک میں ٹھنڈے میٹھے پانی کی روانی برقرار رکھناکسی کسی کا کام ہوتا ہے۔میں استادی شاگردی کا سرے سے ہی قائل نہیں ہوں لیکن کسی بھی تخلیق پر مشورہ دینے کو میں برا نہیں سمجھتا۔ صوفیہ انجم میرے معیار پر کھری اترنے والی نظم کی شاعرہ تھیں، یعنی ان کے ہاں لفظوں میں مصوری کرنے کی اہلیت تھی۔ہندوستان کے صوبہ بہار میں ان کا بچپن گذرا تھا اور ناسٹیلجیا کے تحت وہاں کی اپنی یادوں کے سہارے یہ تصویریں نظم میں ڈھل کر دل میں اتر جانے والی ان کہانیوں کی یاد دلاتی تھیں، جو بچپن میں ہم بوڑھی دادیوں سے سنتے آئے ہیں۔ اس لیے انہیں رائے یا مشورہ دینے میں مجھے خوشی ہوئی اور جب ان کی پہلی کتاب چھپی تو اس کا دیباچہ بھی میں نے تحریر کیا۔لکھ کر اچھا بھی لگا۔ جب بلراج کومل صاحب کی مرتب کردہ میری تیس نظموں پر تیس معتبر اردو نقادوں کی عملی تنقید کے مضامین کی کتاب ”ستیہ پال آنند کی تیس نظمیں“ شائع ہوئی تو اس کا سر ورق بھی صوفیہ نے بنایا۔ اسی طرح جب میری ڈیڑھ گھنٹے پر مبنی نظم خوانی کا کمرشل سطح پرایک ویڈیو ریکارڈ کیا گیا تو نہ صرف اس کے بیک گراؤنڈ میں صوفیہ نے ستار کی دھنیں بکھرائیں بلکہ چھپنے پر اس کا سر ورق بھی ڈیزئن کیا۔
یہ سب مجھ پر ان کے احسانات تھے۔ اس لیے میں نے ان کی ایک نثری کتاب کا دیباچہ بھی لکھا جو اپنے قصبے کی یادوں پر مبنی وقائع نگاری کا بہترین نمونہ تھی۔ اس کے علاوہ ان کے مصور شعری مجموعہ، جو کافی ٹیبل بک سائز پر شائع ہوا تھا، اپنا پیش لفظ لکھا۔جب مجھ سے انہوں نے اپنے شعری مجموعہ کے اجرا کے سلسلے میں ان کے دولت کدے پر ڈیٹرائٹ میں آنے کی فرمائش کی اور اپنی بیگم کے ہمراہ آنے کے لیے کہا، تو ہم دونوں وہاں حاضر ہوئے۔ دیگر شعرا میں کچھ حضرات وہ بھی تھے، جو اے ایم یو المنائی ایسوسی ایشن کے سالانہ مشاعرے پر ڈیٹرائٹ آئے ہوئے تھے۔اور اس محفل میں بھی حاضر تھے۔
ایک واقعہ جو کئی حوالوں سے تحریر کی گرفت میں لانے کو جی چاہتا ہے، وہ ہندوستانی مشاعرہ پڑھنے والے شاعر بشیر بدر ؔکے بارے میں ہے۔ موصوف شاعر کیسے ہیں، اس کا ذکر تو میں نہیں کروں گا کیوں کہ صنفِ غزل کے بارے میں میرے منفی رویے سے ان کے بارے میں میری رائے متاثر ہو سکتی ہے، لیکن ان کی اس عادت کا ذکر کرنے میں مجھے کوئی عار نہیں ہے جس کی وجہ سے ہما شما کے سامنے وہ خودا پنی تعریف کر کے اس کا اشتہاردینا موزوں سمجھتے ہیں۔ اب میں اس سین کو ڈرامیٹائز کر رہا ہوں۔
بشیر بدر!
وقت: تقریب کے بعد شام کا
جگہ: صوفیہ انجم تاج کا آرٹ سٹودیو
حاضرین: سبھی شاعر(بشمولیت Mr. Know-Allبشیر بدر اور یہ ہیچمداں، ستیہ پال آنند) جو مشاعرے اور کتاب کی رونمائی کی تقریب میں موجود تھے اور کچھ دیگر مہمان جو صوفیہ صاحبہ کے ذاتی دوست تھے۔
پردہ اٹھتے ہی اسٹیج پر کچھ شعرا جن میں ڈاکٹر عبداللہ، انڈیا کے مزاحیہ شاعر پاپولر میرٹھی (یعنی بشیر بدر کے ہموطن) اور کچھ دیگر حضرات کے ساتھ بشیر بدر ایک تصویر کی طرف انگشت شہادت سے اشارہ کر کے بولتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
مونولاگ: یہ پینٹنگ دیکھ رہے ہیں آپ؟ اس میں ایک عورت پھول کی پتیوں کے ساتھ اپنے چہرے کو مس کر کے یہ محسوس کرنے کا جتن کر رہی ہے کہ اس کا چہرہ زیادہ نازک ہے یا پھول۔ یعنی میرؔ کا شعر، نازکی اس کے لب کی کیا کہیے، پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے۔ لیکن میرؔ بے چارے بھی کیا کہیں گے؟ اس مضمون سے مزین میرا شعر یہ ہے….اورتا بڑ توڑ ایک دو تین چارا شعار…وقفہ۔۔
مونولاگ پھر شروع ہوتا ہے۔ یہ تصویر جو آپ دیکھ رہے ہیں، انتظار کی شدت میں بے قرار ایک عورت کی ہے۔ انتظار تو بری بلا ہے۔ غالب نے کہا ہے۔۔لیکن غالب بھی کیا کہیں گے، میرے یہ دو اشعار دیکھیے۔۔
جب تیسری تصویر کے قریب پہنچ کر وہ اپنا لیکچر شروع کرنے لگے تومیرے اندر کے نسلی پٹھان سے نہ رہا گیا۔ میں نے انہیں پشتو میں ایک گالی دی۔ ”استا پا ۔۔“ اور گلے سے پکڑ لیا۔ کہا، ”تجھے اتنی سمجھ تو ہے نہیں کہ کون سی پینٹنگ آئیل کلر ہے یا واٹر کلر ہے، یا پیسٹل ہے، اور تو لگا ہے اپنے شعر سنانے۔ اب اپنی بکواس بند کر، بدتمیز!“
بکواس تو بند ہو گئی، لیکن اس کے گریبان پر میرے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی نہ ہوئی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی نے اسے مجھ سے چھڑانے کی کوشش بھی نہیں کی۔سبھی چپکے دیکھتے رہے، جیسے اس سین کو مزے سے دیکھ رہے ہوں۔ آخر ایک دو منٹوں کے بعد میں نے خود ہی اسے چھوڑ دیا۔ میرے منہ میں نفرت کا کڑوا لعاب بھرا ہوا تھا اور مجھے باتھ روم میں تھوکنے کے لیے جانا پڑا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں