جنونِ رخِ وفا ۔۔افتخار مجاز

قیام پاکستان کا مقصد محض ایک الگ تھلگ خطہ ارض کا حصول نہیں تھا بلکہ ایسی نظریاتی مملکت کو وجود میں لانا تھا جہاں کے رہنے والے نہ صرف اپنے عقائد و نظریات اور مذہب کے مطابق اپنی ترقی و خوشحالی کے خواب دیکھ سکیں بلکہ ان خوابوں کی عملی تعبیر بھی پائیں۔ یہی وہ نصب العین تھا جس کے لئے قوم نے لاکھوں جانوں اور لاتعداد عصمتوں کی قربانیاں دی تھیں مگر ہماری بدقسمتی کہ قیام پاکستان کے بعد اس پاک سرزمین پر خود غرضی نفسانفسی اور لوٹ گھسوٹ کا ایسا سلسلہ شروع ہو گیا کہ برائی برائی نہ رہی۔ نیک و بد، خیروشر، آدم و ابلیس، حق وباطل اور حلال و حرام کی تمیز ختم ہو گئی۔ یہ صورت حال کسی حساس محب وطن ذی شعوراور دردمند دل رکھنے والے پاکستانی کے لئے قابلِ قبول تھی نہ ہے اور نہ وہ اسے نظرانداز کر سکتا ہے۔ ایک زیادہ حساس، کھرے اور جذبہ ملک و ملت سے سرشار پاکستانی پر اس صورت حال کے باعث کیا کیا گزر جاتی ہے، اس کا اندازہ آپ کو اس واقعے سے ضرور ہو جائے گا جو پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام پروڈیوسر کی حیثیت سے میرے ساتھ پیش آیا۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

یہ غالباً نومبر 1982 کی بات ہے میں راولپنڈی اسلام آبادسنٹر سے تبدیل ہو کر نیا نیا لاہور ٹی وی سنٹر پر تعینات ہوا تھا۔ انہی دنوں مجھے نفسیاتی امراض کے ماہر ڈاکٹر رشید چوہدری (اب مرحوم) کے زیراہتمام چلنے والے ذہنی طور پر معذور افراد کی بحالی کے ادارے ”فائونٹین ہائوس” لاہور کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اپنے اس فرض کی بجاآوری کے دوران مجھے تین چار روز تک مسلسل پاگل اور ذہنی طور پر نیم بیمار و پسماندہ افراد کے ساتھ بہت سا وقت گزارنے اور انہیں قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا۔ اس موقع پر کچھ تلخ مگر دل ہلا دینے اور ضمیر کو جگا دینے والے واقعات بھی دیکھنے کو ملے اور بعض ذہنی بیمار و پاگل افراد کی ہوش مندانہ گفتگو بھی سننے کا اتفاق ہوا۔
فائونٹین ہائوس میں تین چار روزہ شوٹنگ کے دوران میں نے اکثر ممبران (یہاں مریضوں کو ممبر کہا جاتا ہے) کو اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے دیکھا اور ان کی بے معنی و لایعنی گفتگو سنی لیکن اس سارے عرصے کے دوران اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے والوں کے مابین صرف ایک رکن ایسا تھا جسے میں نے مسلسل گم صم سنجیدہ اور نارمل Behaveکرتے ہوئے پایا۔ میں نے نوٹ کیا کہ ہماری شوٹنگ کے دوران وہ کیمرے کے سامنے آنے سے مسلسل گریز کرتا رہا۔ بلکہ اس دوران وہ اس کوشش میں رہا کہ اس کا چہرہ فلم اور کیمرے کی زد میں نہ آئے۔ جبکہ باقی ممبران کا طرز عمل بالکل مختلف تھا وہ آگے بڑھ بڑھ کر اپنی تصویریں اور فلم بنواتے اور ذہنی مریض ہوتے ہوئے بھی مسلسل کیمرے کے سامنے ہی رہنے کی کوشش کرتے۔ یہاں اپنی دستاویزی فلم بنانے کے دوران روز اول سے ہی یہ گم صم اور چپ چاپ رہنے والا سنجیدہ شخص مجھے سب سے مختلف لگا اور میرے قلب و ذہن پر سوار ہو گیا کہ آخر یہ ممبر سب سے منفرد کیوں ہے؟ فائونٹین ہاؤ س میں زیرعلاج ان مریضوں کو بطور علاج سیروتفریح کے لئے بھی لے جایا جاتا ہے۔

چنانچہ ہماری شوٹنگ کے دوران اسSequence کی فلمنگ کے لئے انہیں ایک روز باغِ جناح لاہور لے جایا گیا۔ یہاں بھی جب ہم شوٹنگ کر رہے تو   تقریباً سب ممبران بے معنی اچھل کود اور الٹی سیدھی حرکتیں کرتے رہے مگر واحد شخص جو آرام کے ساتھ الگ تھلگ چپ چاپ بیٹھا فلک کج رفتار کی جانب معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھے جا رہا تھا، وہی تھا جو پہلے روز ہی سے اپنے اسی سنجیدہ انداز کی بنا پر میری چشم حیرت میں ٹھہر چکا تھا۔ یہاں میں اسے چپ چاپ اور اکیلا پا کر اس کی جانب بڑھا اور وہ مجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر احتراماً کھڑا ہو گیا۔

”آئیے” میں نے کہا۔ ”آپ کی بھی تھوڑی سی فلم بنائیں۔” اس نے پوچھا ”یہ فلم کہاں چلے گی؟”پیشتر اس کے کہ میں اُس کے سوال کا جواب دیتا، میرے کیمرہ مین نے کہا ”پاکستان……” ابھی میرا کیمرہ مین پاکستان کہہ کر ساتھ ٹیلی ویژن کے الفاظ بھی نہیں کہہ پایا تھا کہ متذکرہ ممبر جسے میں کئی دن سے مسلسل خاموش اور سنجیدہ دیکھ رہا تھا نے پاکستان کا نام لے کر گالیاں دینا شروع کر دیں۔ اگرچہ میں نے فوری طور پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے سمجھایا کہ مادرِوطن کو گالی نہیں دینی چاہئے۔تاہم جب وہ ذرا ٹھنڈا ہوا تو میں نے زیادہ سنجیدگی اور تحمل سے ایک مرتبہ پھر اسی موضوع کو چھیڑا کہ اسے وطن کی اہمیت اور مقام و مرتبہ بتا کر سمجھانا شروع کیا کہ یہ وطن تو ہماری ماں کی طرح مقدس اور قابل احترام ہے۔ اسے ہم نے لاتعداد قربانیاں اور بے شمار مائوں بہنوں کی عزتیں قربان کر کے حاصل کیا ہے۔

لہٰذا اسے گالیاں نہیں دینی چاہئیں۔” وہ میری یہ جذباتی اور روائتی گفتگو معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ چپ چاپ سنتا رہا پھر یکدم اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔ قہرآلود نظروں کے ساتھ اس نے غصے سے اپنے ہونٹ بھینچتے ہوئے میری طرف دیکھا اور یوں گویا ہوا۔ ”یقینا یہ جدوجہد اور قربانیاں قیام پاکستان کے لئے تھیں۔ مگر مجھے بتائیں کہ وہ پاکستان ہے کہاں، جس کے لئے اتنی ڈھیر ساری قربانیاں دی گئی تھیں اور بے شمار عصمتیں قربان کر دی گئیں تھیں؟ کیا یہ کہیں گمان بھی تھا کہ نئے خطہ ارض میں جہاں ہم آزاد ہوں گے کوئی ہمارا استحصال کر سکے گا۔ کسی کی حق تلفی ہو گی۔ ہر شخص بلاامتیاز انصاف حاصل کر سکے گا ہم آزاد بھی ہوں گے اور خودمختار بھی” مجھے ہمہ تن گوش دیکھ کر اس کے لہجے میں ٹھہرائو اور گفتگو میں زیادہ سنجیدگی در آئی۔ اُس نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ”ہم کہتے ہیں یہ وطن قربانیوں اور جدوجہد سے بنا ہے اور آج جب میں اپنے اردگرد دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ وہ سب قربانیاں رائیگاں گئیں۔” میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ”برادر عزیز! مجھے آپ سے اختلاف ہے۔” میں نے بہت ہی ملائمت اور نرم لہجے میں کہا، بھائی اگر ایسے ہی ہے تو یہ قصور پاکستان کا نہیں……

میرا فقرہ مکمل ہونے سے پہلے ہی اس نے میری بات کاٹ دی اور بولا ”آپ اختلاف کریں یہ آپ کا حق ہے بلکہ میں تو آپ سے یہ کہوں گا کہ مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے یہ نہ بھولئے گا کہ آپ ایک پاگل اور ذہنی طور پر پسماندہ و معذور شخص سے محو گفتگو ہیں۔” وہ زور دے کر گویا ہوا۔ برادرم !” اگر میری باتیں آپ کو بری لگیں تو انہیں پاگل کی گفتگو سمجھ کر نظر انداز کر دیں۔ ”اس کا یہ جملہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں تقریباً سکتے میں آ گیا۔ تاہم اس کے متوجہ کرنے پر میں اس کیفیت سے باہر نکلا۔ وہ کہنے لگا، ”آپ دیکھ نہیں رہے کہ یہاں اکثریت لوٹ مار میں لگی ہوئی ہے اور اگر کوئی اس دوڑ میں شریک نہ ہو تو اس کا حال مجھ جیسا ہو جاتا ہے، اسے پاگل خانے داخل کرا دیا جاتا ہے۔” میں نے چونک کر کہا۔ ”میں آپ کی بات نہیں سمجھ سکا؟” اُس نے گفتگو تسلسل سے جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ”جب تک مجھے پاگل قرار دے کر مینٹل ہسپتال میں داخل نہیں کرا دیا گیا تھا میں بھی لاکھوں حساس اور آپ جیسے درد مند پاکستانیوں کی طرح پاکستان کے حوالے سے بڑی جذباتی سوچ رکھتا تھا۔ مگر جب میں اپنے معاشرے خصوصاً اپنے گھر والوں کے لئے اپنی اسی حب الوطنی اور پاکستان سے وابستہ بے حد جذباتی سوچ کی وجہ سے ناقابل برداشت ہو گیا تو انہوں نے مجھے پاگل قرار دے کر مینٹل ہسپتال میں داخل کرا دیا۔ یوں میں اب باقاعدہ ڈکلیئرڈ اورBonafied
رجسٹرڈ پاگل ہوں۔ گویا میں اگر پاگل کے اعزاز سے بہرہ مند ہوں تو یہ اعزاز مجھے پاکستان کی محبت ہی میں ملا ہے۔ میں پاکستان کی محبت ہی میں پاگل ہوا ہوں۔”

اُس نے ماضی کے اوراق پلٹتے ہوئے کہا۔ کوئی پندرہ برس پہلے کی بات ہے کہ میں ایک بہت ایماندار، دیانت دار، راست گو اور بے باک سچا محب وطن، جذباتی پاکستانی نوجوان تھا۔ معاشرے میں موجود بدعنوانیاں، بے ایمانیاں، بدعہدیاں، جھوٹ، فراڈ اور سب سے بڑھ کر منفی انداز نظر رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی مجھے چین نہیں لینے دیتی تھی۔میں اس صورت حال پر کڑھتا، لڑتا، احتجاج کرتا کیونکہ حصول پاکستان کی جدوجہد کے دوران بتایا گیا تھا کہ جب ہم آزاد ہوں گے تو ہمارے اپنے وطن میں یہ سب منفی رویے اور برائیاں نہیں ہوں گی۔ وہاں انصاف بھی ہو گا اور دیانت بھی ہو گی۔ مگر مروج قدریں اور صورت حال میرے لئے ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھیں۔ میری ہر صبح کا آغاز ہی اس صورت حال پر میرے احتجاج سے ہوتا۔ اُن دنوں میں ایک سرکاری ادارے میں ذمہ دار پوسٹ پر تعینات تھا۔ صبح اٹھ کر سب  پہلے میں بازار سے دودھ لینے جاتا تو دودھ فروش سے ہر روز جھگڑا ہوتا سبب یہ ہوتا کہ دودھ فروش پانی ملا ملاوٹ شدہ دودھ دیتا۔ میں احتجاج کرتا کہ بھلے میاں! جب تم نے دودھ کا ایک ریٹ مقرر کر رکھاہے، دعویٰ بھی خالص دودھ بیچنے کا کرتے ہو تو پھر پورے پیسے لے کر خالص کے بجائے پانی والادودھ کیوں دیتے ہو۔

المیہ یہ تھا کہ ہر روز میں اکیلا ہی احتجاج کرتا۔ چنانچہ وہ بدتمیزی پر اتر آتا مگر کوئی اسے نہ روکتا نہ ٹوکتا۔ سب مجھے ہی صبر اور برداشت خصوصاً ٹھنڈا رہنے کی تلقین کرتے۔ سبھی غلط کام کرنے والے ہی کی طرف داری اور حمایت کرتے۔ جبکہ وہ خود بھی اس کی زیادتی کا نشانہ بن رہے ہوتے بہرطور اس صورت حال میں جلتا بھنتا اورکڑھتا گھر آتا اور ناشتہ زہرمار کر کے تیار ہو کر دفتر کے لئے روانہ ہو جاتا۔ یہاں میرا جھگڑا بس کنڈیکٹر سے ہوتا۔ جو ٹکٹ کے پورے پیسے لینے کے باوجود اکثر مسافروں کو ٹکٹ جاری نہ کرتا۔ چنانچہ میں حسب عادت یہاں بھی احتجاج کرتا۔ مگر ستم یہ کہ یہاںبھی ساتھی مسافر میرے ہمنوا ہونے کے بجائے عام طور پر اسی کا ساتھ دیتے اور کہتے چلو یار جانے دو بے چارہ غریب آدمی ہے۔ حالانکہ وہ اپنے اس کام کے عوض محکمے سے تنخواہ وصول کرتا تھا۔ مگر وہ اسی ادارے کی جڑیں کاٹنے میں مصروف نظر آتا تھا جو اس کے اور اس کے اہل خانہ کے رزق کا باعث تھا۔

چنانچہ جب میں اسے دیانت داری سے فرائض ادا کرنے کی تلقین کرتا تو لوگ یعنی ساتھی مسافر مجھے اس فعل سے روکتے ٹوکتے اور میری دیانتداری کا تمسخر اڑاتے۔یوں میں بھی غصے میں آ جاتا اور ناخوشگوار صورت حال پیدا ہو جاتی بعض اوقات باقاعدہ لڑائی، جھگڑا اور مار کٹائی کی صورت بھی پیدا ہو جاتی اور ہمیشہ مجھے ہی سرنڈر کرنے پر مجبور کیا جاتا۔ بہرطور اس دلدل میں لتھڑنے کے بعد جب میں اپنے دفتر میں داخل ہوتا تو یہاں بھی مجھے ایک ایسی ہی دنیا سے واسطہ پڑتا جو اُن خوابوں کی تعبیر نہیں تھی جن کی خاطر ہم نے یہ الگ تھلگ خطہ ارض یعنی پاک سرزمین حاصل کی تھی۔قصہ مختصر میرے دفتر میں جب سائل اپنے کام کی غرض سے میرے پاس آتے تو میں ان کے کام نمٹانے کو اپنا اولین فرض سمجھتے ہوئے دفتری اوقات کار کے بعد بھی اپنے ضمیر کی آواز پر دیر تک بیٹھ کر کام کرتا تو میرے رفقاء کو میرا یہ رویہ برا لگتا۔ وہ مجھے سائلوں سے فیس اور نذرانہ وصول کئے بغیر انہیں فارغ نہ کرنے کے مشورے دیتے۔

گویا بدعنوانیوں اور بے ایمانیوں کے حصار میں مجھے جکڑنے کے لئے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے۔ مگر جب میں یہاں بھی قابو میں نہ آتا اور اس رویے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا تو افسرانِ بالا سے میری شکایات لگا کر مجھے تنگ ا ور پریشان کیا جاتا حتیٰ کہ دو مرتبہ میری جواب طلبی تک کرا دی گئی۔ چنانچہ یہاں بھی میرا جھگڑا ہوتا رہتا۔ تاہم میں اپنے ضمیر کے مطابق ہر جگہ دیانتداری کے لئے سرگرم عمل رہا اور جہاں بھی کوئی ناانصافی یا بددیانتی دیکھتا سراپا احتجاج بن جاتا۔ کیونکہ میرے نزدیک پاکستان کا قیام اس خطے کے رہنے والوں کے لئے دارالامان اور دارالرحمت کے طور پر حاصل کیا گیا تھا۔ میرے اس طرز عمل کی وجہ سے رفتہ رفتہ گھر میں میری مشکلات بڑھنے لگیں۔ افسوس یہ کہ ہر شخص مجھے ہی اپنا رویہ اور طریقہ کار تبدیل کرنے پر مجبور کرتا کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ میں نیکی، دیانت اور انصاف کے راستے پر چل رہا ہوں اور یہ درست ہے اور ہمیں اس کا ساتھ دینا چاہئے۔ کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جو قیام پاکستان کی اس حقیقی منزل کی طرف جاتا ہے۔ جو ظلم، استحصال، ناانصافیوں، بداعمالیوں اور بدعنوانیوں سے بہت دور ہے۔ بہرطور قصہ مختصر جب گھر میں میری شکایات کی تعداد بڑھنے لگی تو میں جو پہلے معاشرے کے لئے ناقابلِ قبول تھا۔

اب گھر والوں کے لئے بھی ناقابلِ برداشت ہو گیا تو لوگوں کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد انہوں نے اس مسئلہ کا فوری حل بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ مستقل حل ڈھونڈ لیا تو غلط نہ ہو گا چنانچہ ایک روز ایک ہسپتال کی انتظامیہ کو کچھ دے دلا کر انہوں نے مجھے پاگل خانے جسے مہذب زبان میں مینٹل ہسپتال کہتے ہیں، میں داخل کرا دیا۔ پہلے چند سال میں وہاں پاگل خانہ میں رہا، اب کچھ برسوں سے یہاں مڈوے ہائوس فائونٹین ہائوس میں ہوں۔آپ یقین کریں کہ جب مجھے پاگل ڈکلیئر کر کے مینٹل ہسپتال میں داخل کرایا گیا اس وقت میں واقعتا پاگل نہیں تھا لیکن اب میں پاگلوں کے ساتھ اتنے برس گزارنے کے بعد حقیقتاً پاگل ہو چکا ہوں۔ آپ بتائیں مجھے پاگل کس نے کیا۔ کیا پاکستان کی محبت مجھے لے نہیں ڈوبی؟ کیا میں پاکستان اور اہل پاکستان کے ہاتھوں لٹ نہیں چکا؟

وہ دلیل اور دکھ کے ساتھ بات کر رہا تھا اور مجھے اس کی باتوں میں ترشی نہیں کڑواہٹ محسوس ہو رہی تھی کہ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ فرض کرو اگر اپنی ماں اچھی نہ ہو تو کیا ہم الزبتھ ٹیلر کو اپنی ماں کہہ اور بنا سکتے ہیں۔ وطن تو ماں کا ہی ایک دوسرا روپ ہے۔ دلیل سے بات کرنے والا وہ پاگل اس لمحے مجھے تھوڑا سا لاجواب نظر آیا۔ تاہم اس کی آنکھوں میں اختلاف کے ڈورے اب بھی دیکھے جا سکتے تھے۔ اگلے کچھ دنوں میں، میں فائوٹین ہائوس میں اپنی شوٹنگ مکمل کر کے دیگر مصروفیات میں لگ گیا۔اس کے کچھ عرصے بعد مجھے فائونٹین ہائوس ہی میں یوم پاکستان کی ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ مجھے یہ دیکھ کر شدید حیرت اور خوشی ہوئی کہ وہ جو کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان کا نام سننا تک گوارا نہ کرتا تھا، سینے پر پاکستان کا بیج آویزاں کئے بار بار پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوا رہا تھا۔ اس کے طرز عمل میں ایسی تبدیلی سے مجھے ایک عجیب سا سرور اور شادمانی کا تاثر ملا۔

تقریب ختم ہوئی تو میں آگے بڑھ کر اس سے ملا۔ اس نے فوراً مجھے پہچان لیا اور بولا۔ ”الزبتھ ٹیلر وی تے کسے دی ماں وے نا، تے ماں کدے بھیڑی نہیں ہوندی” (الزبتھ ٹیلر بھی تو کسی کی ماں ہے اور ماں کبھی بری نہیں ہوتی) اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ”آپ نے احساس دلایا تو میرے اندر سے یہ آواز اٹھی کہ اولاد میں سے اگر کچھ بچے ماں کی خواہشوں کی تکمیل نہیں کر رہے تو فرمانبردار بچوں کو نافرمان بچوں کے رویہ کی گالی ماں کو تو نہیں دینی چاہئے۔ بلکہ انہیں تو ماں کی اور بھی زیادہ خدمت اور فرمانبرداری کرنی چاہئے تاکہ ایک تو نافرمانوں کے رویہ اور عدم توجہ کی بھی تلافی ہو اور دوسرے ممکن ہے کہ اچھے بچوں کا رویہ اور طرز عمل دیکھ کرنا فرمان خود یا ان کی آئندہ نسل اپنا طرز عمل بدل لے اور اچھے اور مثبت رویے کا اظہار شروع کر دے۔”

وہ کہنے لگا۔” سر میں پاگل ہوں نا! ڈکلیئرڈ پاگل، اس لئے اگر آپ کو میری باتیں اچھی نہ لگیں تو نظر انداز کر دیں۔” وہ بظاہر تو پاگل تھا کہ اسے ڈاکٹری سرٹیفکیٹ میں یہ اعزز مل چکا تھا۔ مگر اس کی باتوں میں بلا کی سنجیدگی اور ذہانت تھی۔ کہنے لگا برسوں پہلے جب کبھی میں نارمل لوگوں میں رہتا تھا تو میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اگر کوئی نماز پڑھنے نہیں آتا تو موذن کا یہ کام نہیں کہ وہ اذان دینا چھوڑ دے۔ آپ نے فائونٹین ہائوس میں مجھ سے ہونے والی گفتگو کو ایک پاگل کی گفتگو سمجھ کر نظر انداز کر دیا ہوتا تو شاید آج کی تقریب میں پاکستان زندہ باد کے نعرے اتنے جوش و خروش سے سنائی نہ دیتے۔ آپ یقین کریں یہاں بظاہر سب پاگل ہیں مگر آپ کی دی ہوئی روشنی میں میں نے انہیں پاکستان کی جو اصل تصویر دکھائی ہے اس کی بنا پر اب یہ آپ سے زیادہ اور پہلے سے بہتر پاکستانی ہیں۔ میرے ساتھ آواز ملا کر دیکھ لیجئے چنانچہ ہم دونوں نے باآواز بلند کہا ”پاکستان” ادھر سے پرجوش جواب آیا، ”زندہ باد”

قارئین محترم! سطور بالا کا مرکزی کردار اب بھی گاہے بگاہے مجھے ملتا رہتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ اگر خدا نے مجھے موقع اور وسائل دیئے تو میں آنے والے وقت میں ایک ایسی دستاویزی فلم بنائوں گا جسے دیکھ کر آئندہ نسلوں میں سے ہر بچہ اس فلاحی اور استحصال سے پاک معاشرے کا اہم کردار ہو گا۔ جس کی نوید بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر قائدین نے قیام پاکستان کے وقت دی تھی۔ ان شاء اﷲ ہم اس کو ویسا ہی پاکستان بنا کر دم لیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ  ہلال میگزین!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply