• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اسلام میں جسم وروح کی ہم آہنگی اور ” لیوپولڈویس” کا قبول اسلام

اسلام میں جسم وروح کی ہم آہنگی اور ” لیوپولڈویس” کا قبول اسلام

::اسلام میں جسم وروح کی ہم آہنگی::
دنیا کے بہت سے مذاہب اور فلسفے جب ابدی کامیابی کی تصویر کھینچتے ہیں تو اس میں ایک بنیادی چیز انسان کا اپنی مادی وجود سے پاک ہو کر اس کائنات کی “ابدی روح” – ان کے خیال کے مطابق – میں شامل ہو جانا ہے اور یہی انسان کی معراج ہے۔ ان کے ہاں انسان کے مادی وروحانی وجود کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی جنگ ہے اس لئے انسان کے کامیاب انجام کے لئے ضروری ہے کہ وہ جسم سے اپنی جان چھڑا لے اور محض روح بن کر رہ جائے۔

لیکن اسلام جب اس دنیا کے ختم ہو جانے کے بعد دوسری زندگی کی کامیابی کی تصویر کشی کرتا ہے تو اس میں “روح” اور “جسم” کے درمیان جنگ نہیں بلکہ ہم آہنگی ملتی ہے۔ چناچہ قرآن جہاں جنت میں انسانی کی روحانی اور نفسانی نعمتوں، یعنی خوشی واطمینان کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے:

۱: [[[ يَاعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ (سورة الزخرف، ۶۸)]]]
“اے میرے بندو، آج تمہیں نہ کوئی اندیشہ لاحق ہو گا اور نہ تم رنج زدہ ہو گے”

۲: [[[ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنْتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ (سورة الزخرف، ۷۰)]]]
(جنت والوں سے کہا جائے گا) تم اور تمہاری بیویاں جنت میں خوش وخرم داخل ہو جائیں

۳: [[[ وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ (سورة الحجر، ۴۷)]]]
“ان کے سینوں میں جو کچھ رنجش ہو گی اسے ہم نکال پھینکیں گے، وہ بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے اونچی نشتوں پر بیٹھے ہوں گے”
وہاں یہ بھی کہتا ہے:
۱: [[[ فِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ (سورة الزخرف، ۷۱)]]]
“جنت میں ہر وہ چیز ہو گی جو دل چاہیں گے اور آنکھیں ان سے حظ اٹھائیں گی”

۲: [[[ وَأَصْحَابُ الْيَمِينِ مَا أَصْحَابُ الْيَمِينِ فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ وَظِلٍّ مَمْدُودٍ وَمَاءٍ مَسْكُوبٍ وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ لَا مَقْطُوعَةٍ وَلَا مَمْنُوعَةٍ وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا عُرُبًا أَتْرَابًا لِأَصْحَابِ الْيَمِينِ ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَّةٌ مِنَ الْآخِرِينَ (سورة الواقعة، ۲۷-۴۰)]]]
“اور جو دائیں ہاتھ والے ہوں گے، کیا کہنا ان دائیں ہاتھ والوں کا، (وہ عیش کریں گے) کانٹوں سے پاک بیریوں میں، اور کیلوں کے لدے ہوئے درختوں میں، اور دور تک پھیلے ہوئے سائے میں، اور بہتے ہوئے پانی میں، اور ڈھیر سارے پھلوں میں جو نہ کبھی ختم ہوں گے اور نہ ان پر کوئی روک ٹوک ہو گی، اور اونچوں رکھے ہوئے فرشوں میں، یقین جانو ہم نے ان (جنت کی)عورتوں کو نئی اٹھان دی ہے، چناچہ انہیں کنواریاں بنایا ہے (شوہروں کے لئے) محبت سے بھری ہوئی، عمر میں برابر! سب کچھ دائیں ہاتھ والوں کے لئے، (جن میں سے) بہت سے شروع کے (زمانے کے)لوگوں میں سے بھی ہوں گے اور بہت سے بعد کے (زمانے کے) لوگوں میں سے بھی ہوں گے”

چناچہ ان دونوں سورتوں کی آیتوں میں جن نعمتوں کا ذکر ہے وہ ایک جسم اور مادی وجود رکھنے والے انسان ہی کے لئے ہیں ورنہ ایک محض روحانی وجود کا “نفس کی اشتہا” اور “آنکھوں کی لذت” سے کیا لینا دینا۔

جس طرح قرآن جب انسان کی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی کامیابی کا ذکر کرتا ہے، تو اس میں “روح” اور “جسم” کا سنجوک، مادی لذتوں اور نفسانی حظ کا سنگم ہے۔ جسے وہ ایک لمحے کے لئے بھی جدا جدا نہیں کرتا، اسی طرح قرآن جب آخرت کے عذاب اور مجرموں کی ناکامی کی تصویر کھینچتا ہے تو اس میں اگر نفسانی وروحانی کرب ہے وہاں جسمانی ومادی اذیت بھی ہے۔ چناچہ قرآن ان کے نفسانی کرب، یعنی حسرت کے احساحس، کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے:

۱: [[[ كذلك يريهم الله أعمالهم حسرات عليهم وما هم بخارجين من النار (سورة البقرة، ۱۶۶)]]]
اس طرح اللہ انہیں دکھا دے گا کہ (آج، یعنی قیامت کے دن) ان کے اعمال ان کے لئے حسرت ہی حسرت بن چکے ہیں، اور اب وہ کسی صورت دوزخ سے نکلنے والے نہیں ہیں۔

۲: [[[ حتى إذا جاءتهم الساعة بغتة قالوا ياحسرتنا على ما فرطنا فيها (سورة الأنعام،، ۳۱) ]]]
یہاں تک کہ جب قیامت اچانک ان کے سامنے آ کھڑی ہو گی تو وہ کہیں گے: “وائے افسوس، کہ ہم نے اس (قیامت) کے بارے میں بڑی کوتاہی کی”

وہاں قرآن ان کے جسمانی درد کا حال سناتا ہوئے کہتا ہے:

۱: [[[ وَأَصْحَابُ الشِّمَالِ مَا أَصْحَابُ الشِّمَالِ فِي سَمُومٍ وَحَمِيمٍ وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ لَا بَارِدٍ وَلَا كَرِيمٍ (سورة الواقعة، ۴۱-۴۴) ]]]
“اور جو بائیں ہاتھ والے ہیں، کیا بتائیں بائیں ہاتھ والے کیا ہے! وہ دھکتی ہوئی لو، کھولتے پانی اور سیاہ دھویں میں ہوں گے (وہ سیاہ دھواں) نہ ٹھنڈا ہو گا نہ کوئی فائدہ دینے والا”

۲: [[[ إن الذين كفروا بآياتنا سوف نصليهم نارا كلما نضجت جلودهم بدلناهم جلودا غيرها ليذوقوا العذاب إن الله كان عزيزا حكيما (سورة النساء، ۵۶) ]]]
بلا شبہ جن لوگوں نے ہمارے آیتوں سے انکار کیا ہم انہیں آگ میں ڈال کر رہیں گے، (چناچہ آگ میں ڈالے جانے کے بعد) جب بھی ان کی کھالیں جل جل کر پک جائیں گی، تو ہم انہیں ان کے بدلے دوسری کھالیں دے دیں گے تا کہ وہ عذاب کا مزہ چکھیں۔ بلاشبہ اللہ غلبے والا، حکمت والا ہے۔

۳: [[[ لهم فيها زفير وشهيق (سورة هود، ۱۰۶) ]]]
جھنم میں ان کے چیخنے چلانے کی آوازیں ہوں گی

۴: [[[ وأولئك الأغلال في أعناقهم (سورة الرعد، ۵) ]]]
اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے گلے میں طوق پڑے ہوں گے *

۵: [[[ فالذين كفروا قطعت لهم ثياب من نار يصب من فوق رءوسهم الحميم يصهر به ما في بطونهم والجلود ولهم مقامع من حديد (سورة الحج، ۱۹-۲۱) ]]]
جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے آتشیں کپڑے تراشے جائیں گے، ان کے سر پر کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا جس سے ان کے پیٹ کے اندر چیزیں اور کھالیں گل کر رہ جائیں گی، انہیں (مارنے کے لئے) آہنی گرز ہوں گے

جب اسلامی اخروی اور ہمیشہ کی زندگی کی ناکامی اور کامیابی میں روح اور جسم کو ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے تو اس دنیا کی عارضی اور وقتی زندگی کے بارے میں اس کی تعلیمات کا کیا کہنا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اسلام یہ اعلان کرتا ہے:
[[[أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (سورة الرعد، ۲۸)]]]
ترجمہ: یاد رکھو کہ اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے،

وہاں یہ حقیقت بھی بیان کرتا ہے کہ:
[[[هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا (سورة الأعراف، ۱۸۹)]]]
ترجمہ: اللہ وہ ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی بنائی، تا کہ وہ اس کے پاس آ کر تسکین حاصل کرے۔

اور یہ کہہ کر زن وشو کے رشتے کو ایک دینی تقدس عطا کر دیا اور پاگیزگی اور طہارت کے ایک مقدس ہالے سے اسے ڈھانپ لیا، اب اگر نماز، روزہ، زکاۃ اور حج اللہ سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے، تو ایک انسان کا اپنے جیون ساتھی کے ساتھ قرب (Intimacy) بھی دراصل اس کے اپنے رب سے نزدیک ہونے کا ذریعہ ہے، شاید کہ زمین وآسمان اس پر دنگ رہ گئے ہوں کہ ایک انسان اپنی نفسانی خوائش پوری کر رہا ہے اور اپنے رب سے قریب ہو رہا ہے۔

بعض صحابہ نے پیغمبر خدا سے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی، نیکیاں تو مالدار لے گئے (اور ہم سے آگے بڑھ گئے) نماز وہ بھی پڑھتے ہیں اور ہم بھی، روزہ وہ بھی رکھتے ہیں اور ہم بھی، (لیکن) وہ اپنا ضرورت سے زائد مال صدقہ کرتے ہیں (جبکہ ہم وہ نہیں کرتے)۔
رسول خدا نے فرمایا: کیا اللہ تعالی نے تم لوگوں کے لئے صدقہ کرنے (کے مواقع) نہیں رکھے:
ایک مرتبہ “سبحان اللہ” کہنے پر صدقے (کی طرح نیکی ہے)
ایک مرتبہ “اللہ اکبر” کہنے میں صدقے (کی طرح نیکی ہے)
ایک مرتبہ اللہ کی حمد بیان کرنے پر صدقے (کی طرح نیکی ہے)
ایک مرتبہ “لاإله إلا الله” کہنے پر صدقے (کی طرح نیکی ہے)
(کسی کو) نیکی کی تلقین کر دینے میں صدقے (کی طرح نیکی ہے)
(کسی کو) بری ونازیبا بات سے منع کر دینے میں صدقے (کی طرح نیکی ہے)
(اور تو اور جب) تم میں سے کوئی زن وشو کا تعلق کرتا ہے تو اس میں بھی صدقے (کی طرح نیکی ہے)
صحابہ نے (تعجب سے) عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی، ایک بندہ اپنی نفسانی خواہش (پوری کرنے) آتا ہے اس پر بھی اس کے لئے نیکی ہے؟!
اللہ کے نبی نے فرمایا: یہ بتاو کہ اگر وہ اپنی خواہش حرام جگہ پر پوری کرے، تو کیا اسے گناہ نہیں ہو گا؟ (ہو گا اور یقینا ہو گا) اسی طرح جب اپنی یہ خواہش حلال جگہ پر پوری کرے، تو اس کے لئے اجر وثواب ہے۔ اہ

نیز یہی حال اسلام کی شریعت کا ہے کہ اس کے ہاں جہاں انسانی کی روحانی ضروریات کی پاسداری ہے وہاں اس کی مادی تقاضوں کا بھی خیال ہے، اسلام کی نزدیک مادہ وروح میں ابدی ازلی جنگ نہیں، بلکہ یہ دونوں اللہ تعالی کی مخلوق اور اس کے کلمہ “کن” کا مظہر ہیں۔

:: لیوپولڈویس” کا قبول اسلام::
اسلام کی اسی پکار نے جو سرود فطرت سے ہم آہنگ ہے “لیوپولڈویس” کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی اور وہ اب اسلامی دنیا میں “محمد اسد” کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ” لیوپولڈویس” ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے اور ان کے دادا اپنے علاقے کے ایک یہوی عالم (ربی) تھے البتہ ان کے والد کو ان کے دادا نےاسی ڈگر پر چلانے کی بھر کوشش کی جس پر وہ خود چلے تھے، یعنی انہیں ربی بنانا چاہا اور انہیں ایک یہودی مدرسے سے وابستہ بھی کر دیا، لیکن ان کے والد کی دلچسپی سائنسی علوم سے تھی اور چھپ کر یہ علوم پڑھتے رہے حتی کہ انہوں نے خفیہ بی اے کا امتحان پاس کر لیا، ان کے دادا کو اس بات کا اس وقت پتہ لگا جب وہ اپنی سند لے کر ان کے پاس آئے، اس حقیقت کا انکشاف ان پر بجلی بن کر گرا کہ “بیٹا کفار کے علوم سیکھ رہا ہے” (یہاں کفار سے ان کے الفاظ میں عیسائی مراد ہیں) لیکن بوڑھے باپ کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ اپنے جوان بیٹے کی مرضی کے سامنے ہتھیار ڈال دے اور انہوں نے رسمی طور پر بھی اس کی اجازت دے دی کہ وہ دینی تعلیم کے بجائے دنیاوی تعلیم حاصل کرے۔ چناچہ انہوں نے دنیاوی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی، گردش روزگار نے انہیں وکالت کے در پر پہنچا دیا اور انہوں نے اپنا معاشی سفر ایک وکیل کے طور پر شروع کیا۔
“لیوپولڈویس” اپنے والد کے دوسرے لڑکے تھے جن کے بچپن کا ابتدائی دور پولینڈ میں گزرا جو اس وقت آسٹریا کے قبضے میں تھا۔ انہوں نے عبرانی کی تعلیم حاصل کی لیکن باقاعدہ یہودی عالم کے طور پر نہیں بلکہ رسمی طور سے۔ اس کے بعد جب اپنی زندگی کے لئے راہ چننے کا وقت آیا تو تاریخ نے ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دہرایا۔ “لیوپولڈویس” کے والد انہیں سائنس کی تعلیم سے وابستہ کرنا چاہتے تھے اس لئے انہیں ریاضیات اور طبیعیات سے متعلقہ شعبوں میں آگے بڑھانا چاہا، لیکن ان کی دلپسپی ان علوم کی طرف بلکہ نہ تھی، ان کا رجحان ادب، تاریخ و شعر وغیرہ کے طرف تھا اور مصنف کی زندگی کا دھارا اسی طرف کوچلنے لگا کہ تقدیر کو ان کے لئے کچھ اور ہی منظور تھا۔
ہمارے موصوف “لیوپولڈویس”کا دل رسمی تعلیم میں نہ لگ سکا، ایک عجب بے چینی اور بے کلی، کسی پل چین نہ آتا تھا، کسی رسمی چیز میں دل جمتا نہ تھا۔ چناچہ انہوں نے رسمی تعلیم کو خیرباد کہہ کر صحافت کے کوچے میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے والد نے اس کی بہت مخالفت کی، لیکن یہاں بھی بوڑھی ہڈیاں “تلاطم خیز جوان خون” کے ارادے کا رخ نہ موڑ سکیں اور ہمارے موصوف بے خطر اپنے ارادے کی آتش میں کود پڑے، انہوں نے کسی کو بتائے بغیر اپنا شہر چھوڑ دیا اور ہوتے ہوتے جرمنی کے شہر “برلن” پہنچ گئے۔ صحافت کے میدان میں اپنی قسمت آزمائی کی، خوب دھکے کھائے، اخباروں کے دفتروں میں مارے مارے پھرے لیکن خوش بختی ابھی بہت دور تھی، حالت فاقوں تک آگئے اور وہ نان جویں کے بھی محتاج ہو گئے۔ البتہ کچھ ماہ کے بعد فلمی دنیا کے ایک مشہور نام کے ساتھ ان کی راہ روسم ہوئی اور انہیں ایک فلم کی شوٹنگ میں کام مل گیا اور معاشی اطمینان کا دروازہ کھل گیا۔
“لیوپولڈویس” نے اس کے بعد مختلف حالات میں ہچکولے کھائے، کبھی عرش پر پہنچ جاتے تو کبھی فرش پر۔ لیکن وہ ایک حساس طبیعت کے مالک تھے جو چیزوں کو ان کی گہرائی میں اتر کر محسوس کرتے تھے، انہیں اپنی ذات میں اور مغربی تہذیب میں ایک بہت عمیق روحانی خلا محسوس ہوا جس کا احساس ہر دن کے ساتھ بڑھتا گیا چناچہ وہ اپنی اس کیفیت کے بارے میں لکھتے ہیں اور ان کا ایک ایک لفظ اس بیچینی اور داخلی تضاد کی زندہ تصویر کشی کر رہا ہے:

“۔۔۔ زندگی میری نگاہ میں بہت حسین اور دلفریب تھی، میں قطعا مایوس اور دل شکستہ نہ تھا۔ لیکن ہاں اپنے دل کی گہرائیوں کے اعتبار سے بالکل غیر مطمئن تھا اور مجھے اپنی زندگی کا صحیح مقصد معلوم نہ تھا، البتہ جوانی کے زعم باطل میں مجھے اس کا یقین تھا کہ اپنے مقصد کو معلوم کرنے میں کسی دن ضرور کامیاب ہونگا، الغرض اسی طرح میں اطمینان اور بے اطمینانی، سکون اور انتشار کے درمیان جھولا جھالتا رہا، ان عجیب وغریب برسوں میں یہی حال اور دوسرے نوجوانوں کا بھی تھا، ان میں سے کوئی بھی بد قسمت یا مصیبت زدہ نہ تھا، لیکن مشکل ہی سے کوئی ایسا ملتا تھا جو حقیقت میں مطمئن اور مسرور ہو، اور اس کی اپنی اس مسرت اور اطمینان کا احساس بھی ہو، ٹھیک ہے میں غیر مطمئن نہیں تھا لیکن اپنے ساتھیوں اور رفیقوں کی اقتصادی وسیاسی امیدوں اور تمناوں کا ساتھ نہ دے سکنے کی وجہ سے مجھ میں امتداد زمانہ کے ساتھ یہ احساس ترقی پاتا گیا کہ میں ان میں کا ایک فرد نہیں ہوں، اس کے ساتھ یہ مبہم خوائش بھی شامل تھی کہ کاش میں فرد ہوتا، لیکن کس جماعت کا؟ کس سوسائٹی کا؟”

اسی دوران میں، اچانک موصوف کی زندگی میں ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے آگے جا کر ان کی زندگی کی کایہ ہی پلٹ گئی اور ان کے اندر کی رت ہی دل گئی۔ انہیں مشرقی وسطی کا سفر پیش آ گیا اور اسلامی دنیا کو پہلی بار دیکھنے کا موقع ملا۔ موصوف نے رخت سفر باندھ، سمندر کے دوش پر سوار ہو کر “مشرق” کا رخ کیا اور “روح” اور “جسم” کی باہمی جنگ کی آگ ان کے اندر بھڑک رہی ہے۔ یہ سن ۱۹۲۲ کی بات تھی۔

موصوف نے نیا نیا اسلامی دنیا، یعنی فلسطین میں قدم رکھا تو ان کے لئے سب کچھ نیا اور اجنبی تھا۔ جن چیزوں نے موصوف کی توجہ اپنی طرف کھینچی ان میں سے ایک اس علاقے کے لوگوں کی باجماعت نماز تھی کہ لوگ ایک قائد (امام) کے پیچھے صف بصف کھڑے ہوتے اور نظم وضبط کا ایک عجیب منظر پیش کرتے، ان سب کے ہاتھ سینے پر سمائے ہوئے، قائد اپنی زبان سے کچھ پڑھ رہا ہے جبکہ پیچھے کھڑے ہوئے لوگ ہمہ تن گوش ہیں۔ موصوف کے فکر اور ذہن کے لئے، جو ایک مخصوص ماحول میں ڈھلے تھے، اس نماز کے روحانی گوشے کا سمجھنا آسان تھا، لیکن اس کے ساتھ جسمانی حرکات وسکنات کا امتزاج ایک ناقبل فہم چیز تھی، وہ جس دینی پس منظر سے یہاں آئے تھے اس میں خدا کی پوجا پاٹ میں روحانی رابطے کے ساتھ جسمانی حرکات وسکنات کوئی معنے نہیں رکھتے، بلکہ شاید کہ یہ اس کے تقدس کے بھی خلاف سمجھا جاتا تھا چناچہ موصوف کو خدا سے تعلق کے بارے میں اس “روح” و”جسم” کے سنگم کا پہلے بار مشاہدہ ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو روک نہیں پاتے کہ آگے بڑھ کر مسلمانوں کے “قائد” (جسے موصوف ‘حاجی’ کے نام سے یاد کرتے ہیں) کے سامنے اپنے اس تعجب کا اظہار کریں۔ موصوف کے اپنے الفاظ میں سنیں:

“۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا جیسے وہ (یعنی نمازی) کسی خیال میں بالکل مستغرق ہیں، آپ ان کو دیکھ کر پورا اندازہ کر سکتے تھے کہ وہ اپنی روح کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ اس گہری اور جاندار نماز میں مجھے ان حرکات وسکنات کی موجودگی کچھ سمجھ نہ آئی، میں نے ‘حاجی’ سے جو تھوڑی بہت انگریزی سمجھتے تھے ایک بار پوچھا:
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خدا اس کا منتظر رہتا ہے کہ آپ بار بار اس کے سامنے رکوع وسجود کریں، کیا یہ بہتر نہیں کہ آدمی تنہائی میں بیٹھ کر سکون اور حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھے اور دعا کرے، آخر یہ جسمانی حرکات کس غرض سے ہوتی ہیں؟
میں نے یہ بات کہنے کو تو کہہ دی، لیکن فورا ہی مجھے ندامت ہوئی اور میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگا، میں نہیں چاہتا تھا کہ اس بوڑھے مذہبی آدمی کے شعور واحساس کو کوئی اذیت پہنچے، لیکن حاجی کے چہرہ پر ناگواری کے مطلق آثار نہ تھے، وہ مسکرائے اور کہنے لگے:
پھر آپ ہی بتائیے کس طریقہ پر ہم خدا کی عبادت کریں؟ کیا اس نے جسم وروح کو ایک ساتھ پیدا نہیں کیا؟ اگر یہ بات ہے تو کیا یہ ضروری نہ ہو گا کہ آدمی جس طرح اپنی روح کے ساتھ نماز پڑھتا ہے، اسی طرح اپنے جسم کے ساتھ بھی پڑھے، دیکھئے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہم مسلمان اس طرح کیوں نماز پڑھتے ہیں؟ ۔۔۔۔۔ ”
“حاجی” نے اس کے بعد جو تفصیلات بیان کیں انہیں لکھنے کے بعد موصوف کہتے ہیں:
“اس واقعہ پر چند سال گزرنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ حاجی کی اسی گفتگو نے میرے لئے اسلام قبول کرنے کا پہلا دروازہ کھولا تھا”

کچھ عرصہ مسلمانوں کی تہذیب وتمدن اور ان کی بود وباش کے مشاہدہ کے بعد، موصوف کی حساس اور جلد متاثر ہونے والی طبیعت نے فطری طور سے یورپ کی، تمام مادی ترقی کے باوجود، بیچینی اور عرب مسلمانوں کے تنزل کے باوجود، اطمینان کو موازنے کے باٹ میں رکھا موصوف کے اس موازنے کو ان ہی کی الفاظ میں پڑھتے ہیں چناچہ موصوف یورپ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں:

“میں عربوں میں وہ چیز پانے لگا جس کی غیر شعوری طور پر مجھےعرصے سے تلاش تھی، جس کو ہم زندگی کے تمام مسائل میں ایک خاص قسم کی جذباتی لطافت اور بلند شعوری احساس سے تعبیر کر سکتے ہیں۔
زمانہ کے گزرنے کے ساتھ اب میرے سامنے سب سے مقدم کام یہ تھا کہ میں ان مسلمانوں کی اسپرٹ کو سمجھ سکوں، اس لئے نہیں کہ ان کے دین کی طرف میرا کچھ میلان تھا (میں اس کے متعلق بہت کم معلومات رکھتا تھا) بلکہ اس لئے کہ میں نے ان میں عقل واحساسات کا وہ عضوی اور حیاتیای اتحاد اور ہم آہنگی دیکھی تھی جس کو ہم اہل یورپ نے کھو دیا ہے، ہمیں شخصی ہم آہنگی کے فقدان سے جو کچھ بھگتنا پڑا ہے کیا ہم عربوں کی زندگی کے صحیح مطالعے سے اس کے اور اس کے اسباب کی درمیانی کڑی کا پتہ نہیں لگا سکتے؟ کیا ہم وہ چیز حاصل نہیں کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے اہل یورپ اس مقدس زندگی کی حریت سے بھاگ رہے ہیں جو ابھی عربوں کے اندر ان کے اس انحطاط اور اجتماعی وسیاسی زوال کے باوجود موجود ہے اور جو گذشتہ ادوار میں ضرور ہم اہل یورپ کے یہاں بھی پائی جاتی تھی ورنہ ہمارے شاندار ماضی کے فن اور آرٹ کے عظیم ورثہ کی توجیہ کیا ہو گی؟”

آگے چل کر موصوف کہنے لگے:

“ہماری مشینیں اور آلات اور آسمانوں سے سرگوشیاں کرنے والی عمارتیں ہماری پاش پاش اور ریزہ ریزہ روح کو پھر سے جوڑنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں، اس کے باوجود میں اپنے میں کہتا تھا کہ کیا یورپ کی روحانی عظمت کی حقیقت ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکی ہے، کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ غلطی کا پتہ لگا کر تھوڑی بہت کھوئی ہوئی عظمت اور قیمت کو واپس لایا جا سکے۔”

چناچہ موصوف ایک عرصے سے اپنی ذات اور یورپ کے اجتماعی شعور میں عام طور سے ایک خلا محسوس کر رہے تھے، لیکن ذہن اس سوال میں الجھا ہوا تھا کہ “اس کی وجہ کیا ہے؟”، عرب دنیا میں آنے کے بعد اور یہاں کی بود وباش اور روزمرہ زندگی بہت قریب سے دیکھنے اور اسے اس کی گہرایوں میں اتر کر محسوس کرنے کے بعد ڈور کا سرا ہاتھ آ گیا اور وہ جگہ جہاں مصنف نے اس سوال کا جواب پایا وہ عرب کے بازار تھے۔ جس چیز نے موصوف کی توجہ اپنی طرف کھینچی وہ یہ کہ لوگ سارا دن اور پورا ہفتہ بازاروں میں کام کرتے ہیں، لیکن ان کے اندر اپنے کام سے وہ اکتاہٹ اور جھنجھلاہٹ نہیں ہے جو موصوف نے یورپ کے باسیوں میں پائی جس میں وہ خود بھی شامل تھے، عرب دنیا میں، موصوف نے ملاحظہ کیا، لوگ کے جسمانی افعال اور روحانی پکار میں ایک عجیب سی ہم آہنگی تھی، ان کے ظاہر اور باطن ایک ہی لڑی میں پروئے گئے تھے، ایسا نہیں تھا کہ ذہن اعضا وجوارح کو ایک طرف گھسیٹ رہا ہو جبکہ دل اس سے روٹھا ہوا منہ موڑ کر دوسری طرف بلا رہا ہو۔ موصوف کہتے ہیں:

“جمعہ کے دن دمشق میں زندگی کا نقشہ خاصا بدلا ہوا نظر آتا تھا، خوشی اور مسرت اور رعب ووقار کی ایک ملی جلی فضا شہر پر چھا جاتی تھی، میں نے یورپ میں اپنے اتوار کو یاد کرنا شروع کیا، وہ خالی دکانیں، اور تنگی اور انقباض مجھے یاد آ گیا جو تعطل کی وجہ سے وہاں پیدا ہو جاتا تھا، لیکن ایسا ہونا کیوں ضروری تھا؟ جب میں نے اس پر غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ روزمرہ کی زندگی یورپ میں لوگوں کے لئے ایک بھاری بوجھ بن چکی ہے جس سے چھٹکارا ان کو صرف اتوار کے روز حاصل ہوتا ہے، وہ ان کے لئے صرف راحت ہی کا دن نہیں ہے، بلکہ ایک مجہول شے کی طرف فرار کا بھی دن ہے، ایک پرفریب بھول، جس کے پیچھے ہفتے کے اور دن مزید بوجھ لئے ہوئے ان کے انتظار میں موجود رہتے ہیں۔
جہاں تک عربوں کا تعلق ہے ان کے لئے جمعہ کاموں سے فرار کا دن نہیں، اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان کو زندگی کا پھل بلا کسی محنت ومشقت اور جدوجہد کے مل جاتا ہے، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے مشکل سے مشکل کام بھی ان کے شخصی رجحانات اور خواہشات کے خلاف نہیں ہوتے، روٹین برائے روٹین کے فلسفہ کا ان کے یہاں کوئی وجود نہیں، یہاں کام اور کام کرنے والے درمیان ایک باطنی تعلق پایا جاتا ہے، جس نے راحت وآرام بشرطیکہ آدمی تھکا ہوا نہ ہو غیر ضروری سا بنا دیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اسلام نے بھی اس تعلق اور ہم آہنگی کو ایک فطری حالت قرار دیا ہو گا، یہی وجہ ہے کہ اس نے جمعہ کے روز کسی جبری چھٹی کا قانون نہیں بنایا، کاریگر اور چھوٹے دکاندار کچھ گھنٹے کے لئے اپنی دکانیں کھول لیتے تھے، پھر بند کر کے نماز کے لئے چلے جاتے تھے، نماز کے بعد قہوہ خانوں میں کچھ وقت گزاری کے بعد پھر کچھ گھنٹوں کے لئے دکانیں کھول لیتے، بہت کم دکانیں جمعہ کے روز بند نظر آتی تھیں، شہر کی سڑکیں ہفتہ کے اور دنوں کی طرح پرشور اور آباد رہتی تھیں، صرف جمعہ کی نماز کے وقت یہ کیفیت نہ ہوتی تھی”
یوں “لیوپولڈویس” کو اپنے سوال کا جواب مل گیا، ان کی گتھی سلجھ گئی جس کے نتیجے میں، انہیں نے آگے بڑھ کر اسلام کے دامن میں پناہ لے لی اور وہ “لیوپولڈویس” سے “محمد اسد” بن گئے۔
اسلام روح وجسم کو دو الگ حقیقتیں مان لینے کے بعد انہیں باہم دست وگریبان نہیں قرار دیتا بلکہ یہ ایک سوار وسواری کی طرح ایک دوسرے میں پیوست ہیں، پھل اور اس کے رس کی طرح ایک دوسرے میں سرایت کیا ہوا ہے۔ اور یہی چیز ہے جو آج کے انسان کو اس زمانے اعصاب شکن مصروفیت اور پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دینے والے دباو کے باوجود اس دینا میں اطمینان کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دے سکتی ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم مغرب کی مادی ترقی سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ان کے روحانی تجربے سے بھی گزرنا چاہتے ہیں، وہی روحانی تجربہ جس سے “محمد اسد” مرحوم گزرے اور انہیں اس کی ناکامی کا احساس ہو گیا اور مغربی کی تمام تر مادی ترقیوں کے باوجود اور مسلمانوں کے تمام تر تنزل کے ساتھ “اسلام” کی ناو میں سوار ہو گئے.

Advertisements
julia rana solicitors london

/////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////
* (في البيضاوي: وأولئك الأغلال في أعناقهم مقيدون بالضلال لا يرجى خلاصهم أو يغلون يوم القيامة.)
۱: عن أبي ذر، أن ناسا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، ذهب أهل الدثور بالأجور، يصلون كما نصلي، ويصومون كما نصوم، ويتصدقون بفضول أموالهم، قال: ” أوليس قد جعل الله لكم ما تصدقون؟ إن بكل تسبيحة صدقة، وكل تكبيرة صدقة، وكل تحميدة صدقة، وكل تهليلة صدقة، وأمر بالمعروف صدقة، ونهي عن منكر صدقة، وفي بضع أحدكم صدقة، قالوا: يا رسول الله، أيأتي أحدنا شهوته ويكون له فيها أجر؟ قال: «أرأيتم لو وضعها في حرام أكان عليه فيها وزر؟ فكذلك إذا وضعها في الحلال كان له أجر» (مشكاة المصابيح)

Facebook Comments

مشرف بیگ اشرف
اسلامیات کا طالب علم اور کمپیوٹر پروگرامر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply