رواداری، ہم آہنگی اور اسلامی تعلیمات

رواداری، ہم آہنگی اور اسلامی تعلیمات
تحریر: نعیم الدین جمالی

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کائنات پر ہم نظر ڈالیں تو ہمیں قدم قدم پر ہر چیر میں اختلاف اور اشیاء کا جا بجا ضدنظر آتا ہے، مثال دن کے ساتھ رات، روشنی کے ساتھ اندھیرا، زمیں کے ساتھ آسمان، تری کے ساتھ خشکی، زرخیز کے ساتھ بنجر، اسی طرح انسان کو بھی دیکھا جائے تو وہ بھی ایک دوسرے سے مختلف نظر آئیں گے، مثلا گورا ، کالا، خوبصورت بد صورت، بچہ بوڑھا، مرد عورت وغیرہ ٹھیک اسی طرح طبعی تقاضون کے مطابق انسان کی خصوصیات، دلچسپیان، اور خیالات بھی ایک دوسرے سے جدا جدا اور الگ الگ ہوتے ہیں،
بلکہ دنیا کے بھترین نظام کے لیے یہ امر لازمی ہے، اور اسی انسان کی شکل وصورت خواہشات اور مزاجوں کے فرق سے ہی کائنات کا حسن باقی ہے،
لیکن ہم نے اس طبعی اختلاف کو تنازعات کا ذریعہ بنا لیا، معاشرے کے دیگر لوگوں کو تو چھوڑیے! ایک ہی باپ کی اولاد باہمی دست وگریباں ہے،
یہ یقینی اور اصولی بات ہے کہ مزاج ہمیشہ ایک دوسرے سے مختلف ہی ہونگے، حتی کہ ایک ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے جڑواں بچوں کا مزاج بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے،بلکہ دنیا کا حسن ہی اسی رنگ وبو کے اختلاف سے ہی، ایک ہی ہاتھ کی پانچ انگلیاں بھی برابر نہیں ہیں،
اسی وجہ سے ہم گلی، محلے،میل، ملاقات، معاملات، معاشرت میں ایک دوسرے سے سے تنگ ہوتے ہیں، لڑتے دشمنی مول لیتے ہیں، بلکہ بعض دفعہ حد سے بھی گذر جاتےہیں، اس وجہ سے ہمیں بہت سی پریشانیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے.
اب سوال یہ ہے کہ معاشرے کو پر امن اور پر سکون بنانے کے لے ہمیں کیا کرنا کرنا ہوگا؟؟
ہم ایک دوسرے کو کیسے برداشت کرسکتےہیں؟
اسی لیے ہمیں رواداری اورہم آہنگی کو فروغ دینا ہوگا،
آئیے دیکھتے ہیں رواردای اور ہم آہنگی کے معنی کیا ہیں؟ شرعی تعلیمات اور اسوہ حسنہ میں اس کی حیثیت کیا ہے؟
رواداری اور ہم آہنگی کے معنی ہیں رکھ رکھاؤ، درگذر اور معاف کرنا،ایک دوسرے کو برداشت کرنا، یعنی جن لوگوں کے عقائد واعمال ہم سے جدا ہیں ان کو برداشت کریں، ان کے جذبات کا لحاظ کریں، ان پر نکتہ چینی اور بے سروپا الزام تراشی سے گریز کریں، ان کو ان کے عقائد سے پھیرنے اور ان کو عمل سے روکنے میں زبردستی کا طریقہ کبھی اختیار نہ کریں،
قران کی تعلیمات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس حوالے سے اسکے پیغامات کس قدر واضح اور روشن ہیں،
سورہ الانعام میں ارشاد باری تعالی ہے:
“وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ “(108 الأنعام)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے کیا ہی خوبصورت اور زرین اصول ارشاد فرمایا ہے، بے شک تم حق پر ہو توحید پرست ہو، ایک ہی اللہ کو معبود مانتے ہو اسی کی عبادت کرتے ہو شرک سے بیزار ہو لیکن امن اور شانتی ضمانت یہ کہ “تم لوگ ان کو برا نہ کہو جن کی وہ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا پس وہ برا کہیں گے اللہ کو بے ادبی اور بدون سمجھے، یعنی ان کے جھوٹے معبودوں کو برا بھلا نہ کہنا امن وسلامتی کی ہی ضمانت ہے،
آپ علیہ السلام کی صفات مبارکہ میں سے ایک صفت رواداری اور نرم دلی تھی، آپ عرب کے بدؤون اور جاھل لوگون کے ساتھ بھی رواداری اور نرمی سے پیش آتے تھے، سخت سے سخت دشمن سے بھی انتقام لینا گوارا نہیں کیا، فتح مکہ کے تاریخی کلمات پر نظر دوڑائیں “لاتثریب علیکم الیوم ” آج تم پر کوئی گناہ نہیں، آپ علیہ السلام یہ ان لوگوں سے فرما رہے ہیں جنہوں نے مکہ سے آپ کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا، تکلیف، مصیبت، سنگ باری، دشنام طرازی اور دشمنی کا ہر طریقہ اپ پر آزمایا، لیکن آپ نے سب کو معاف فرما دیا، نیز اس طرح کے واقعات سے تاریخ کے اوقات بھرے پڑے ہیں، کالم کی تنگ دامنی تفصیل کی اجازت نہیں دیتی،
آپ کے تربیت یافتہ خلفائے راشدین نے رواداری اورہم آہنگی کی وہ یادگار مثالیں چھوڑیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں،
خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کفار کے مذہبی معاملات کے متعلق جو معاہدہ لکھوایا اس کے تاریخی الفاظ یہ تھے:
“ان کے چرچ اور کنیسے منہدم نہیں کیے جائیں گے، وہ قلعے اور محل نہیں گراٰئے جائیں گے جس میں وہ دشمنوں سے مقابلےاور حفاظت کے وقت پناہ لیتے ہیں، تہوار کے موقعے پر صلیب نکالنے کی کوئی پابندی نہیں ہوگی، ”
اس کے علاوہ عہد عثمانی، فاروقی اور حیدری میں غیر مسلم اور اقلیتوں تک کے حقوق کی رعایت رکھی گئی،
لیکن افسوس! آج ہم روادری ہم آہنگی سے یکسر عاری ہیں، غیر مسلم تو دور ہم مسلمان،اور بھائی بھائی آپس میں دست وگریباں ہیں، معمولی معمولی باتوں پر ایک دوسرے کے دشمن بن جانا اور گردنیں تک اتار دینا رواج بن چکا ہے، لمحہ فکریہ یہ ہے کہ معاشرے میں اپنے سوا کسی کو برداشت نہیں کر سکتے،
کیا اسلامی تعلیمات یہ ہیں؟ ہمارے معاشرتی اقدار یہ تھے؟ یقینا جواب نفی میں ہوگا، تو سوچیے معاشرے میں امن وسکوں اور راحت کیسے پیدا ہوگی،؟ باہمی الفت ومودت کے پہول کیسے کھلیں گے،؟ یہ سب معاشرے میں رواداری اور ہم آہنگی سے پیدا ہونگے،
اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگی میں اپنانا ہوگا، اسوہ رسول اکرم کی عملی مشق کرنی ہوگی،
اگر ہم نے معاشرے میں رواداری اور ہم آہنگی کو فروغ دیا تو ان نفرتوں اور رنجشوں کے عذاب سے ہم چھٹکارا حاصل کر لیں گے، بھترین پر امن اور مثالی معاشرے باہمی پیار اور محبت سے پیدا ہوتے ہیں،
تو آئیے! ہم ملکر وطن عزیز کو امن اور خوشحالی کا گہوارا بنائیں،
پیار، محبت اور خوشیوں کو بانٹیں،

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply