اقبال کا المیہ/محمود اصغر چوہدری

قدرت اللہ شہاب نے ایک مضمون لکھا تھا “اقبال کی فریاد” ۔یہ مضمون فکاہیہ طرز تحریر کا بہترین نمونہ ہے جس میں اقبال عالم بالا سے یہ فریاد کرتے نظر آتے ہیں کہ خدا کیلئے مجھے مرنے کے بعد تو آرام کرنے دو ۔ مسجد کا منبر ہو یا کسی جلسے میں مقرر ، قوالوں کی محفل ہو یا ریڈیو ٹی وی کی نشریات ، تحریر میں اثر لانا ہویا تقریر میں دم بھر کو سانس لینا ہوتو اقبال کے شعر کو بے موقع و بے محل نتھی کر دیا جاتا ہے ۔ شہاب نے یہ مضمون اس وقت لکھا جب سوشل میڈیا کا عفریت نہیں پھیلا تھا اگر آج کی تاریخ میں وہ یہ مضمون لکھتے تو اس کا عنوان اقبال کی فریاد نہیں ہوتا بلکہ اقبال کاغصہ، اقبال کی شکایت یا اقبال کا المیہ ہوتا کیونکہ جدید دور میں غلط العام اس عروج پر پہنچاہے کہ اب کم حافظہ رکھنے والا بڑے سے بڑے شاعر بھی کہیں اقبال کی تصویر کے ساتھ لکھا ہوا کوئی شعر دیکھ کر سوچ میں پڑجاتے ہیں کہ اتنا بے وزن بے تکا شعر اقبال کا کیسے ہوسکتا ہے ؟

مجھے کچھ سال پہلے یوم اقبال کی ایک ادبی تقریب میں جانے کا موقع ملا ۔ یوم اقبال کی مناسبت سے بڑے سے پینا فلیکس پر اقبال کی تصویر کے ساتھ بڑے بڑے بڑے الفاظ میں یہ شعر لکھا ہوا تھا

اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ

اور میں وہیں بیٹھ کر سوچ میں پڑگیا کہ اقبال نے شعر کب ، کس کو اور کیسے کہا ؟ اور اگر یوم اقبال منانے والوں کی یہ حالت ہے تو عام مندوبین آج کی اس محفل میں کیا سیکھ کر جائیں گے ۔ اسی طرح ایک دفعہ ایک ریڈیو پروگرام میں حصہ لینے کا موقع ملا ۔ پروگرام کا موضوع ہی یہی تھا کہ اقبال کے نام پر غلط شاعری کیوں شیئر ہورہی ہے ۔ میں نے بھی کچھ شعروں کی نشاندہی کی اور شرکاء کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ اس ظلم کا راستہ روکا جائے لیکن مجھے حیرانی اس وقت ہوئی جب پروگرام کے دوران خود اینکر صاحب نے نہایت ہی پُر اعتماد طریقے سے اقبال کے شعر سنانا شروع کئے ان اشعار میں سے بھی کوئی شعر اقبال کا نہیں تھا

مثلاً بڑے ہی پُرجوش میوزک کے  حصار میں فرمانے لگے ۔

منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
ہر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے
پتھر ہی ٹوٹ جائے وہ شیشہ تلاش کر

ہم نے ان کو واٹس ایپ میسج کیا جناب ذرا دھیان دیں یہ شعر بھی اقبال کے نہیں ہیں ۔ وہ اس رو میں بہہ کر پھر فرمانے لگے

عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

ہم نے دست بستہ گذارش کی کہ اپنا واٹس ایپ اسٹیٹس چیک کریں جناب یہ شعر اقبال کے نہیں ہیں ۔ پھر اس کے بعد پروگرام میں لائیو کالزلینے کا سلسلہ شروع ہوا تو فون کرنے والوں نے  تو اقبال کی شاعری کے ساتھ وہ ظلم شروع  کیا کہ ہمارے تو آنسو آتے آتے رکے ایک کالر کہنے لگا اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
تِری رحمتوں پہ ہے منحصر میرے ہر عمل کی قبولیت
نہ مجھے سلیقہِ التجا، نہ مجھے شعورِ نماز ہے
ایک ادبی تنظیم کے صدر نے اقبال کا یہ شعر لکھ کر بھیجا

سجدوں کے عوض فردوس مِلے، یہ بات مجھے منظور نہیں
بے لوث عبادت کرتا ہوں، بندہ ہُوں تِرا، مزدور نہیں
ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ یہ مزدوری والا شعر اقبال نے شاید موصوف کو عالم ارواح سے لکھ کر بھیجا ہو۔ اسی طرح پھر اسے ریڈیو کے سوشل میڈیا پیچ پر وہ وہ شعر لکھے گئے کہ اقبال پر ظلم نہیں بلکہ اقبال کے شعروں کے ساتھ ظلم عظیم والی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے کچھ نمونے ایسے ہی کہ وہ فیس بک پر اتنی دفعہ اقبال کی تصویر کے ساتھ شیئر ہوئے کہ خود اقبال بھی پڑھ لے تو یقین کر لے کہ اسی کے ہیں کیونکہ اتنی زیادہ کثیر تعداد جاہل کیسے ہوسکتی ہے مثلاً
کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبال
وہ کون سا کام ہے جو ہوتا نہیں تیرے پروردگار سے؟

ایک اور نمونہ عرض ہے

تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کردیں اقبال

تو جھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور ہے

ایک اور گھٹیا سا بے وزن شعر اقبال کی تصویر کے ساتھ دیکھنے کو ملتا ہے

دل پاک نہیں ہے تو پاک ہو سکتا نہیں انساں
ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت

یہ نیچے والا شعر تو شاید کسی اقبال نے کسی شرابی کے لئے لکھا ہے
مسجد خدا کا گھر ہے، پینے کی جگہ نہیں
کافر کے دل میں جا، وہاں خدا نہیں

سوال یہ ہے کہ اقبال کی شاعری کے ساتھ یہ مذاق کیوں ہورہا ہے ۔ اصل میں جب سے سوشل میڈیا پر مختلف دن منانے کا رواج شروع ہوا ہے تو مختلف اشتہارات تیار کرنے والے پروگرامرز نے تماشائے ذات کی تسکین کے مرض میں مبتلا لوگوں کو معمولی رقم کے عوض پوسٹ تیار کرکے دینا شروع کر دئیے ہیں ۔ وہ معمولی سی رقم کے عوض آپ سے آپ کی تصویر لیتے ہیں اور اس دن کی مناسبت سے مبارکباد کا اشتہار تیار کر دیتے ہیں ۔ ان اشتہار تیار کرنے والے نابغوں کی تعلیم اتنی ہی ہوتی ہے جتنی ٹرک آرٹ یا ٹریکٹر ٹرالیوں کے پیچے اپنی آرٹ اور ڈیزائننگ کرنے والے ہنرمندوں کی ہوتی ہے یعنی جو لوگ ماں کی دعا جنت کی ہوا جیسے شعروں کی خطاطی کرنے والے ہوتے ہیں وہ اقبال کے شعر کہاں سے لائیں گے یا اس کی سند کہاں سے تلاش کریں گے ۔ اسی لئے وہ ایسے شعر پوسٹر ز میں لکھتے ہیں جن میں سے کچھ نمونے درج ذیل ہے

کرتے ہیں لوگ مال جمع کس لئے یہاں اقبال
سلتا ہے آدمی کا کفن جیب کے بغیر

میرے بچپن کے دِن بھی کیا خوب تھے اقبال
بے نمازی بھی تھا، بے گناہ بھی

وہ سو رہا ہے تو اُسے سونے دو اقبال
ہو سکتا ہے غلامی کی نیند میں وہ خواب آزادی کے دیکھ رہا ہو

نیچے والا شعر تو بہت زیادہ دفعہ شیئر ہوا ہے ۔ مجھے بھی شک ہوگیا تھا کہیں اقبال نے یہ شعر خطاط کو عالم رویا میں لکھ کربھیجا ہو
گونگی ہو گئی آج زباں کچھ کہتے کہتے
ہچکچا گیا میں خود کو مسلماں کہتے کہتے
یہ سن کہ چپ سادھ لی اقبال اس نے
یوں لگا جیسے رک گیا ہو مجھے حیواں کہتے کہتے

اقبال کی شاعری پر حقیقی ظلم محرم کے دنوں میں فرقہ پرست لوگ کرتے ہیں اور اقبال سے منسوب جعلی شعروں میں اس حکیم الامت کو اپنا ہم مسلک ثابت کرنے میں محنت کرتے ہیں ۔ مثلاً ایک گروپ شیئر کرتا ہے

پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال
یہ گنہگار بو ترابی ہے

پھر جواب میں دوسرا گروپ ایک دوسرا اشتہار تیار کرتا ہے
وہ روئیں جو منکر ہیں شہادتِ حسین کے
ہم زندہ وجاوید کا ماتم نہیں کرتے

پھر پہلے والا فرقہ جواب دیتا ہے
بیاں سِرِ شہادت کی اگر تفسیر ہو جائے
مسلمانوں کا کعبہ روضہء شبیر ہو جائے

پھر دوسرا مسلک اقبال کی تصویر والا یہ غلط شعر شیئر کرتا ہے
نہ عشقِ حُسین، نہ ذوقِ شہادت
غافل سمجھ بیٹھا ہے ماتم کو عبادت

اقبال کے شعر کسی اور نام سے منسوب ہونے کا سلسلہ نیا نہیں ۔ ماضی میں ایسے اشعار اقبال سے منسوب ہوتے رہے ہیں جن میں خودی، شاہین ، یااسرار جیسے مہمل الفاظ استعمال ہوتے تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ پانچویں جماعت میں ہمارے سکول کے ہیڈ ماسٹرسید صادق حسین شاہ صاحب ہماری جماعت میں داخل ہوئے اور تختہ سیاہ پر یہ شعر لکھا
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے

ہم سے پوچھنے لگے کس کا شعر ہے ۔ ان دنوں کلاس میں بیت بازی کا مقابلہ ہوتا تھا ۔ ہم سب نے سوچا کہ عقاب کا ذکر آگیا ہے تو ضرور اقبال کا ہوگا ۔ لیکن ہیڈ ماسٹر صاحب نے بڑے فخر سے بتایا کہ یہ شعر ان کے ہم نام سید صادق حسین شاہ کا ہے ۔ ہماری اچھی یاداشت نے ہمیں ہمیشہ خوا ر کیا ہے ۔ ہماری بدقسمتی کہ ہم نے پانچویں جماعت سے ہی شاعر کا نام یا د کر لیا لیکن اس کا خمیازہ ہمیں یہ بھتگنا پڑا کہ جب بھی کسی محفل میں ہم نے اقبال سے منسوب اس شعر کو پڑھنے والے کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ شعر اقبال کا نہیں ہے تو سب لوگوں نے ہمیں کم علم اور جاہل ہی سمجھا ۔ ایک مذہبی محفل میں ایک مقرر نے دوران خطاب بڑے جوش سے کہا اقبال نے کیا خوب کہا ہے
اسلام کے دامن میں اور اِس کے سِوا کیا ہے
اک ضرب یَدّ اللہی، اک سجدہِ شبیری

ہم نے عرض کی جناب یہ شعر اقبال کا نہیں ہے ۔ اچھا بھلا مسئلہ بن گیا ۔ لوگ کہنے لگے تمہیں علامہ صاحب سے زیادہ علم ہے ۔ اس دن سمجھ آئی کہ جب جہالت عروج پکڑ جائے تو علم کی باتیں بس دل میں ہی محفوظ کر لینی چاہئے ان کا اظہار نہیں کرنا چاہئے ۔

اس المیے سے بچنے کا حل کیا ہے ۔ اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ یوم اقبال نہ منایا جائے کیونکہ جعلی شعروں کی تشہیر سے جتنا دکھ اس دن اقبال کی روح کو ہوتا ہوگا ۔ وہ نا قابل بیان ہے اس کا دوسرا حل یہ ہے کہ اس مقدمے کو سنجیدہ لیا جائے اور ادبی تنظیمات ایسے اشعار والی پوسٹ کو فیک پوسٹ کہہ کر رپورٹ کریں تاکہ انٹرنیٹ پر اردو ادب کے ساتھ اس جبر مسلسل کا سلسلہ رک سکے ورنہ بقول ظفر علی خان

Advertisements
julia rana solicitors london

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
نوٹ ۔ یاد رہے کہ یہ آخری شعر بھی بدقسمتی سے اقبال کے ساتھ منسوب کر کے مسلسل شیئر کیا جاتا ہے شکر ہے ظفر

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply