فیس بُک پر شائستہ شہزاد کی ایک پوسٹ پڑھی کہ مُردہ عورت کی بچہ دانی کی ٹرانسپلانٹیشن سے دُوسری عورت کے ہاں بچے کی پیدائش ہُوئی۔اِس پر اپنے ایک دوست کا قِصہ یاد آیا، پاکستان میں شادی کے کئی سال بعد بھی اُن کے ہاں اولاد نہ ہوسکی، حالانکہ دونوں میاں بیوی میڈیکلی بالکل ٹھیک تھے۔ کئی سالوں کے انتظار کے بعد آئی وی ایف IVF ICSI جیسے ماڈرن فرٹیلیٹی کے طریقہ عِلاج بھی کرکے دیکھ لئے لیکن مقصد پُورا نہ ہوسکا۔ میڈیکلی رپورٹس کے مُطابق اگر ڈونر ایگز donor eggs کہیں سے وُہ مُہیا کرسکیں تو اُن کے ہاں اولاد ہوسکتی تھی۔ برطانیہ ، یورپ میں تو یہ عِلاج بُہت عام سی بات ہے کیونکہ پیدا ہونے والا بچہ بھی صرف ڈونر خاتون کے ایگز سے ہی متعلقہ نہیں ہوتا بلکہ اُس کی پیدائش میں ظاہر ہے جنم دینے والی عورت کا بھی حِصہ ہوتا ہے یعنی جذباتی طور پر بھی وُہ بچہ اُس عورت کے ہی جسم اور خُون کا حصہ ہوتا ہے جبکہ مرد یا شوہر کے لئے بڑی بات نہیں کیونکہ سپرم اُسی کے استعمال ہوتے ہیں۔
ایران اور انڈیا میں یہ طریقہ عِلاج بڑا کامن ہے، یاد رہے ایران ایک اِسلامی مُلک ہے۔ پاکستان میں اولاد نہ ہونے پر دُوسری شادی، تیسری یا چوتھی بڑی کامن سی بات ہے، اِسلام میں اِس کی اجازت بھی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ شاید ہر بندے کے اپنے حالات ہوتے ہیں کئی لوگوں کے اپنے خاندانی مسئلے مسائل ہوتے ہیں۔ مثلاً میرے دوست کی وٹے سٹے کی شادی تھی، اب اگر وُہ دُوسری شادی کرتا تو لامحالہ اُس کی بہن کو بھی طلاق مِل جاتی۔ خیر صاحبِ ثروت آدمی تھا اُس نے اپنے اور اپنی بیوی کے عِلاج کی کوشش جاری رکھی، یاد رہے کہ آئی وی ایف IVF اڑھائی سے تین لاکھ، ICSI کوئی پانچ سے سات لاکھ اور PGD (جس میں آپ اپنی مرضی کی جنس بیٹی یا بیٹا پسند کرسکتے ہیں) چھے سے دس گیارہ لاکھ تک کا خرچہ ہے۔ ویسے ICSI اور PGD میں زیادہ فرق نہیں ہے کیونکہ ICSI میں مرد کے صحت مند جرثومے سے ovum کو بارآور کرایا جاتا ہے جبکہ اِسی میں ایک ایڈوانس تکنیک استعمال کرکے Y کروموسومز جرثوموں سے اووم کو بارآور کروا کر بیٹا پیدا کیا جاتا ہے یا بیٹی کے لئے X کروموسز والے جرثومے سیلکیٹ کئے جاتے ہیں۔
اب پاکستان میں ڈاکٹرز آپ کو PGD یعنی جینیڈر سیلیکشن ٹریٹمینٹ مُہیا کررہے ہیں کیونکہ اِس میں پیسہ زیادہ ہے حالانکہ میرے دوست کے نزدیک بیٹی یا بیٹا دونوں ایک برابر تھے کیونکہ اُس کی تو اولاد تھی ہی نہیں۔ اُس نے جب اِن کلینکس میں IVF اور ICSI کے کئی سائیکلز فیل ہونے کے بعد اپنے ایک دوست ڈاکٹر سے آخری عِلاج پُوچھا تو اُس نے اُس کو کہا کہ دُوسری شادی کرلو یا ایسی عورت جو صحت مند ہو، ضرورت مند ہو اُس کو egg donation کے لئے تیار کرلو۔ چوہدری صاحب نے یہ بندوبست بھی کرلیا لیکن اب حیرت اُن کی مُنتظر کہ وُہی ڈاکٹرز جو پیسے لے کر بچے کی جنس تک تعین کررہے تھے، یہاں اُن کو یاد آگیا کہ یہ غیر شرعی اور غیر اِسلامی ہے وُہ ایسا نہیں کریں گے۔ کِسی بھی صُورت میں وُہ ایک عورت کے ovum کو دُوسری عورت میں ٹرانسفر نہیں کریں گے۔ اُس نے اُن کو بہتیرا کہا کہ بھئی آپ ڈاکٹر ہیں، ڈاکٹر رہیں مُبلغ نہ بنیں لیکن کہاں؟ ڈاکٹرز بھی ایک مخصوص سوچ میں بندھے ہیں اور شاید پاکستان میں اِس کی اجازت ایسے ہے کہ دُوسری عورت بھی نکاح میں ہو، لیکن بہرحال اُس کا کام تو اُنھوں نے کیا کرنا تھا وُہ اُس کو آیات اور احادیث سنانے لگے۔ تنگ آکر دوست کہنے پر مجبور ہوگیا کہ وُہ اُن سے اپنا عِلاج کرانے آیا ہے جُمعے کا خطبہ سُننے نہیں۔
قصہ مختصر، اُس کا کام نہیں ہُوا۔ مُجھ سے کئی بار اِس بابت بات ہُوئی۔ میں اُس کو یہی کہتا رہا کہ یہاں یورپ میں آجاؤ لیکن ظاہر ہے تین بندوں کے ویزے وغیرہ کے مسائل بھی کافی ہوتے ہیں۔ خیر اُس کو ایران یا انڈیا کا مشورہ دیا، اُس نے ایران کا ویزا لیا، اپنی بیوی اور ڈونر عورت کو وہاں لے کر گیا، اپنا کام ناصرف پُورا کروایا بلکہ جڑواں بچوں کی اُمید بھی رکھوائی۔ آج بندہ دو بچوں کا باپ ہے اور خُوش ہے۔
اب میں یہ سوچ رہا ہُوں کہ اِسلام پاکستان والا ٹھیک ہے یا ایران والا؟ یا اُس سے بھی بڑھ کر یہ جو تصویر میں نے پوسٹ میں لگائی ہے کیا کبھی وطنِ عزیز میں ایسا مُمکن ہوسکے گا؟ میرے خیال سے نہیں۔
ماڈرن سائنس اور میڈیکل ٹریٹمینٹس میں اِس قدر کنفیوژن بھی پاکستانی مائینڈ سیٹ کا ہی خاصہ ہوسکتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں