• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • حافظ نعیم الرحمٰن-امیر کراچی سے امیر جماعت تک/محمد آصف اسلم

حافظ نعیم الرحمٰن-امیر کراچی سے امیر جماعت تک/محمد آصف اسلم

پاکستان کی واحد جمہوری مذہبی سیاسی جماعت کے الیکشن کا رزلٹ آج اناؤنس کر دیا گیا جس کے مطابق 82٪ کے قریب ممبران شوری نے اپنے جمہوری حق کا بھرپور استعمال کرتے ہوے حافظ نعیم الرحمن صاحب کو اگلے پانچ سال کے لیے جماعت کا نیا امیر منتخب کر لیا جب کہ لالہ سراج لحق کو بار امارت سے آزاد کر دیاگیا۔ حافظ نعیم الرحمن کراچی کی سیاست کا ایک مستند ترین نام ہیں جنہوں نے نامساعد حالات میں بھی جماعت کو کراچی میں سنبھالا دئیے رکھا اور پچھلے بلدیاتی الیکشن میں ان کی جماعت سب سے زیادہ کونسلروں اور ناظمین کے ساتھ پہلے نمبر پے تھی اور مییر کے سب سے فیورٹ کینڈیٹ بھی وہی تھے پر کیا کیا جائے ان نامعلوم ہاتھوں کا جنہوں نے پی ٹی آئی کے تیس ناظمین کو شمالی علاقہ جات کی سیر پے بھیجااور اور کچھ پے سٹی ہال کے دروازے ہی بند کرا کے ہماری مرحومہ بہن محترمہ فوزیہ وہاب کے صاحبزادے کو کراچی کی مئیر شپ کا تاج پہنا دیا۔

حافظ صاحب نے ہمت نہیں  ہاری اور اسی لگن کے ساتھ جماعت کو منظم کرتے رہے اور کراچی کی مٹی کے ساتھ جڑے رہے۔۔لوگوں کے مسائل کو اپنا سمجھ کے ان کے لیے بولتے رہے ۔ان کے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ حالیہ الیکشن میں سامنے آیا جب الیکشن کمیشن نے انکو صوبائی اسمبلی سے فارم 47 کے مطابق ونر قرار دیا تو انہوں نے کمال کے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوے سیٹ چھوڑنے کا اعلان کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار سے الیکشن میں ہار گئے ہیں ۔سچ میں اس دن سے ان کے لیے دل میں عزت ہزار گنا بڑھ گئی کہ یہاں کونسلر کی سیٹ کوئی نہیں چھوڑتااور یہ شخص اپنی صوبائی اسمبلی کی سیٹ پے خود کو ہارا ہوا مان کے چھوڑ رہا ہے۔

ابھی تک کہ حافظ صاحب کی کارکردگی دیکھ کے ان سے بہت امیدیں ہیں کہ شاید یہ جماعت کو اس ڈھب پہ  لے آئیں کہ جماعت آگے ملکی سیاست میں کوئی فعال کردار ادا کر سکے ورنہ نیک نامی میں تو ان سے پہلے والے بھی کوئی کم نہیں  تھے ر سہ سیاسی طور پے نااہل ترین ثابت ہوے اور نالائق مشیروں نے جماعت کو نیشنل اسمبلی اور سینیٹ سے باہر کرا دیا ہے۔جب لالہ سراج کو امیر بنایا گیا تو وہ اس وقت پی ٹی آئی کی پہلی خیبر حکومت کے وزیر خزانہ اور متحد مجلس عمل کی حکومت کے وزیر خزانہ ہونے کی وجہ سے نیک نامی کما چکے تھے۔

یادش بخیر 2002کے الیکشن میں خیبرپختونخوا سے ایسے امیدوار جو جب جیتے تو ٹوٹی ہوئی سائیکل کے مالک تھے وہ اسمبلی ختم ہونے تک لینڈ کروزروں کے مالک بن چکے تھے پر اپنے لالہ جیسے آئے تھے ویسے ہی رپے اور ویسی ہی نیک نامی کے ساتھ گئے۔۔وزیر خزانہ ہونے کے باوجود کئی بار پشاور سے منصورہ لاہور عام مسافر کی طرح بس میں آتے اور اسی طرح واپس جاتے کہ کسی کو خبر نہ  ہوتی کہ یہ بس میں سوار مولوی خیبرپختونخوا کا وزیر خزانہ ہے۔پر لالہ سیاسی حرکیات سے مکمل نابلد تھے یا پھر لاہور آنے کے بعد جماعت کا لاہوری گروپ ان کے اعصاب پر سوار ہو گیا تھا۔اچھا خاصا پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد تھا پر جماعت کو اس وقت وہ اتحاد توڑنا پسند آیا جب صرف سات سیٹوں کے ساتھ لالہ پی ٹی ائی کی حمایت سے سینٹ کے ممبر تھے اور اس اتحاد کا مستقبل روشن تھا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پرویز خٹک کی حکومت کے بعد سب کو نظر آ رہا تھا کہ اگلی حکومت پی ٹی آئی کی ہو گی کیوں کہ پرویز خٹک نے اپنی کارکردگی سے لوگوں میں یہ احساس راسخ کر دیا تھا کہ ان کی حکومت میں عوام کی بات سنی جائے گی۔اس کے علاوہ خیبر والے عمران کے عاشق تگے اور ابھی تک ہیں اور اس کی حکومت کو اپنی حکومت سمجھتے ہیں۔پر لالہ کے کندھوں پر سوار لاہوری گروپ نے ان سے اس اتحاد کے خاتمے کا اعلان کرایا جس کا نتیجہ تب ملا جب لالہ خود پی ٹی ائی کے ایک عام کارکن بشیر خان سے دیر جیسے گڑھ سے سولہ ہزار سے زیادہ ووٹس سے ہار گئے کیوں کہ ان کے حلقے کے لوگ ان کو دھوکے باز سمجھ رہے تھے کہ سینیٹ میں جانے کے لیے پی ٹی آئی کا کندھا استعمال کیا گیا اور بعد میں الگ ہو گئے ۔ویسے جماعتی احباب سے معذرت کے ساتھ پر جب تک منصورہ کو چند ایسے اذہان سےآزاد نہیں کرایا جاتا جو آج بھی دو ہزار دو میں جی رہے ہیں تب تک جماعت کا مستقبل تاریک تر ہی ہے۔دو ہزار دو میں ن لیگ کی گئی وہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ جس کی وجہ سے لاہور سے حافظ سلمان بٹ،فرید پراچہ اور لیاقت بلوچ اسمبلی میں پہنچ گئے تھے آج تک لاہوری گروپ کے ذہن پہ  نشے کی طرح سوار ہے جس کا خماران کوکہیں اور جانے ہی نہیں  دیتا۔حافظ صاحب کے آنے سے یہ امید کم سے کم لگی ہے کہ کراچی کی طرح یہاں بھی معروضی حالات کو دیکھ کے سیاست کی جائے گی اور جماعت درست فیصلے لے سکے گی ورنہ صالحین کی جماعت کے پاس اس وقت بلوچستان اسمبلی کی ایک سیٹ کے علاوہ کہیں کچھ نہیں  ہے اور نہ  ہی ملنے کی توقع ہے۔ہماری توقعات جماعت کے ساتھ کچھ زیادہ اس لیے ہیں کہ اس کے کارکن نمک کی کان میں نمک نہیں  ہوتے ہیں اور اب دیکھنا یہ ہے کہ کہیں لاہور کا نمک کراچی کے حافظ صاحب کو بھی اپنے جیسا بنا لے گا یا حافظ صاحب اپنا ذائقہ الگ ہی رکھیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply