رضا لائبریری کا المیہ/معصوم مرادآبادی

رامپور رضا لائبریری کے ڈائریکٹر کے طورپر حکمراں بی جے پی کے ایک کارکن کی نامزدگی نے علمی وثقافتی حلقوں میں تشویش کی لہردوڑا دی ہے۔ڈائریکٹر کا عہدہ گزشتہ چار سال سے خالی پڑا ہوا تھا اور حال ہی میں تقرری کی شرائط میں سنسکرت جاننا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ جبکہ ایشیا ء کی اس عظیم لائبریری میں عربی، فارسی، اردواور ترکی زبانوں کے نادرونایاب مخطوطات اور کتابیں پائی جاتی ہیں۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزراکہ لکھنؤ میں قایم کی گئی خواجہ معین الدین چشتی عربی، فارسی، اردو یونیورسٹی کا کردار تبدیل کرکے اسے لینگویج یونیورسٹی میں بدلاگیا تھا اور وہاں سے اردو کے بورڈ بھی ہٹادئیے گئے تھے۔ اسی قسم کے خدشات اب رضالائبریری کے تعلق سے بھی ظاہر کئے جارہے ہیں، کیونکہ جس لائبریری میں مولانا امتیازعلی خاں عرشی، ڈاکٹر عابد رضا بیدار اور ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی جیسے ماہرین علم وفن ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہوں، وہاں ایک سیاسی شخص کی تقرری کیا معنی رکھتی ہے۔نئے ڈائریکٹر کی واحد خوبی یہ ہے کہ وہ بی جے پی کی اترپردیش یونٹ کے ممبر رہ چکے ہیں اور انھیں حاکمان وقت کا اعتماد حاصل ہے۔ان کی ایک ایسی تصویر وائرل ہورہی ہے جس میں وہ زعفرانی رنگ کا انگوچھا گلے میں ڈالے ہوئے ہیں۔

سبھی جانتے ہیں کہ رامپور رضا لائبریری ایشیاء کے کتب خانوں میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ اس لائبریری کی خصوصیت یہی نہیں ہے کہ یہاں نادرونایاب کتابیں،قلمی نسخے اور پینٹنگز موجود ہیں بلکہ جس دل آویز عمارت میں یہ قایم ہے، وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی لائبریری ہو جو ایک ایسے محل میں قایم کی گئی ہے جس کے ستون وگنبد پر سونے کی ملمع کاری ہے اور جہاں سو سال پہلے آویزاں کئے گئے قمقمے آج بھی ویسے ہی روشن ہیں۔اس لائبریری کی کمان ہمیشہ ایسے ہاتھوں میں رہی ہے جنھوں نے اس کی تاریخی اہمیت کوملحوظ رکھا ہے، لیکن چار سال کے وقفہ کے بعد حال ہی میں اس لائبریری میں ڈائریکٹر کے طور پر ڈاکٹر پشکر سنگھ کی تقرری نے لائبریری کے مستقبل پر ہی سوالیہ نشان قایم کردیا ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ آزادی سے قبل ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں جو شخصی حکومتیں قایم تھیں اور جن کی قیادت نوابین کرتے تھے، ان میں کئی ریاستیں ایسی بھی تھیں جنھوں نے اپنے وسائل کا بڑا حصہ علم وفن کی توسیع و ترقی پر صرف کیا۔ ان میں اولین ریاست حیدرآباد دکن کی تھی جہاں کا سالارجنگ میوزیم اور لائبریری اس کے گواہ ہیں، جبکہ دوسرا نام ریاست رامپور کا ہے، جہاں کی رضا لائبریری اپنے نادر ونایاب مخطوطوں اور نوادرات کی وجہ سے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔رامپور رضا لائبریری کی بنیادریاست کے بانی نواب فیض اللہ خاں (1774تا 1794)نے رکھی تھی، جو علم وفن کے سرپرست اور علم دوست انسان تھے، لیکن اس کتب خانے کی ترقی کا اصل دور نواب محمدسعید خاں کی مسند نشینی (1840)سے شروع ہوتا ہے۔ انھوں نے دیگر محکموں کی اصلاح کے ساتھ کتب خانے کی طرف توجہ دی۔قلمی کتابوں کی فراہمی کے ساتھ نادر ونایاب کتابوں کی نقلیں بھی کرائیں۔بعدازاں نواب کلب علی خاں نے 1865میں اپنی مسند نشینی کے بعد اس کتب خانے کو چارچاند لگائے۔نواب حامد علی خاں کی 1889میں تخت نشینی کے بعد مسیح الملک حکیم اجمل خاں اس لائبریری کے افسراعلیٰ مقرر ہوئے اور انھوں نے عربی کتب کی طرف خاص توجہ دی۔نواب حامد علی خاں کے انتقال کے بعد 1930نواب رضا علی خاں نے زمام حکومت سنبھالی تو مولوی نجم الغنی خاں (مولف’اخبار الصنادید‘)کو لائبریری کا ناظم مقرر کیا۔ 1932میں ان کے انتقال کے بعد مولانا امتیازعلی خاں عرشی کو کتب خانہ کا ناظم بنایا گیا، جو رضا لائبریری کے سب سے مشہور ناظم کہلاتے ہیں۔ عرشی صاحب نامور محقق اور ماہر غالبیات تھے۔ انھوں نے اپنے گراں قدرعلمی وتحقیقی کارناموں کی چھاپ چھوڑی۔
ملک کی آزادی کے بعد 1949میں ریاست رامپور صوبہ اترپردیش میں ضم ہوگئی تو نواب رضا علی خاں نے یہ کتب خانہ قوم کے نام وقف کردیا اور اس کا نام اسٹیٹ لائبریری سے بدل کر رامپور رضا لائبریری رکھا گیا۔1951میں اس کے انتظام کے لیے ایک ٹرسٹ بناکر تمام مصارف یوپی حکومت نے اپنے ذمہ لے لیے۔1957میں لائبریری قدیم عمارت سے ’حامدمنزل‘ میں منتقل ہوگئی، جسے نواب حامد علی خاں نے 1905میں ایک محل کی طرز پر تعمیر کرایا تھا۔ یہ خوبصورت عمارت انڈو یوروپین طرز کا بہترین نمونہ ہے۔عمارت کے اندر انتہائی حسین گیلری، جس سے متصل کشادہ کمرے میں گیلری کی بلند محرابوں میں سنگ مرمر کے خوبصورت مجسمے ہیں۔کمروں کی چھتیں اور دیواریں رنگ وروغن سے سجی ہوئی ہیں۔ اس عمارت کا سب سے خوبصورت حصہ دربار ہال ہے جس کی چھتیں سونے سے سجائی گئی ہیں۔ہال میں نادر اور بیش قیمت جھاڑفانوس اس کی خوبصورتی کو چارچاند لگاتے ہیں۔
1975میں سابق وزیرتعلیم پروفیسر نورالحسن کی کوششوں سے مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں ایکٹ پاس کرکے اس لائبریری کو اپنی تحویل میں لے کر قومی ادارہ بنادیا۔اس وقت یہ لائبریری مرکزی وزارت ثقافت کے زیرانتظام ہے۔یہاں ایک لاکھ مطبوعہ کتابوں کے علاوہ اردو، عربی، فارسی، سنسکرت اور ہندی کے ہزاروں نادر ونایاب قلمی نسخے موجود ہیں۔یہ عظیم الشان کتب خانہ نادر مخطوطات، نایاب قلمی تصویروں، نہایت اہم کتابوں اور قیمتی وصلیوں اور نوادرات کی وجہ سے ہندوستان ہی نہیں چہاردانگ عالم میں شہرت رکھتا ہے۔یہاں عربی، فارسی، سنسکرت، اردو،ترکی اور پشتو وغیرہ کے 17ہزار مخطوطات، تاڑ کے پتوں پر تمل، تلگو، کنڑاور سنہالی کے 200 مخطوطات کے ساتھ ساتھ پانچ ہزار قلمی تصویریں اوراسلامی خطاطی کے تین ہزار نمونے محفوظ ہیں۔ ایک لاکھ مطبوعہ کتب میں ہزاروں کتابیں نہایت اہم اور نادر ہیں، جن کے نسخے اب ناپید یا کمیاب ہیں۔ 1914 میں علامہ شبلی نعمانی نے اس لائبریری کو دیکھ کر کہا تھا کہ ”میں نے روم اور مصر کے کتب خانے بھی دیکھے ہیں، لیکن کسی کتب خانے کو مجموعی اعتبار سے اس سے افضل نہیں دیکھا۔“اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے 1952میں اس لائبریری کی وزیٹر بک میں لکھا تھا کہ ”ہندوستان میں جو گنتی کے قیمتی علمی ذخائر ہیں، ان میں ایک گراں مایہ ذخیرہ یہ ہے۔“
مجموعی اعتبار سے یہ ہندوستان میں اپنی طرز کا واحد کتب خانہ ہے، جہاں عربی اور فارسی کی قلمی کتابیں بڑی حفاظت سے رکھی ہوئی ہیں۔کئی قدیم نسخے خود مصنّفین کے لکھے ہوئے ہیں۔347 عربی اور 523 فارسی نسخے ایسے ہیں جو نہایت خوش خط خود مصنّفین اور مشہور خطاطوں کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مشہور ومعروف مصوروں کی تصاویر اس کتب خانے میں بکثرت موجود ہیں، جن میں چند پر ان کے دستخط بھی ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ لائبریری کتنی اہمیت کی حامل ہے۔ ایسے عظیم الشان ادارے میں مشرقی علوم اور ہند اسلامی تہذیب سے قطعی نابلد ڈائریکٹر کی تقرری سے یہ پیغام جاتا ہے کہ ملک میں اردو، عربی، فارسی اور سنسکرت کے ماہرین کا کال پڑگیا ہے جبکہ ایسا ہرگزنہیں ہے۔ ملک میں آج بھی ان علوم کے ماہرین کثرت سے پائے جاتے ہیں، لیکن ان کی خامی یہ ہے کہ وہ علم وسیاست کو خلط ملط نہیں کرتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیسبک وال

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply