• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انتہا پسندی کی نئی تعریف ، مسلمانوں کے حق میں یا خلاف؟-فرزانہ افضل

انتہا پسندی کی نئی تعریف ، مسلمانوں کے حق میں یا خلاف؟-فرزانہ افضل

برطانیہ کے ہاؤزنگ اور کمیونٹی منسٹر مائیکل گوو نے چند روز قبل انتہا پسندی کی نئی سرکاری تعریف جاری کی ہے۔جس کے مطابق انتہا پسندی تشدد ، نفرت یا عدم برداشت پر مبنی نظریے کی ترویج یا ترقی ہے ۔ جس کا مقصد یہ ہے۔

1-دوسروں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کی نفی یا ان کو ختم کرنا ہے۔
2-  یہاں برطانیہ کے لبرل پارلیمانی نظام کو کمزور کرنا، الٹ دینا یا جمہوری نظام پر اثر انداز ہونا
3  -جان بوجھ کر دوسروں کے لیے اس طرح کا رویہ اختیار کرنا یا ماحول پیدا کرنا کہ اپنے خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جا سکیں۔

انتہا پسندی کی یہ تعریف 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد غور و فکر کر کے بنائی گئی ہے۔ اس حملے کے نتیجے میں اسرائیل نے فلسطین کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی جنگ چھیڑ دی۔ فلسطینیوں پر جنگ میں کیے جانے والے مظالم اور نسل کشی کے خلاف اور جنگ بندی کے مطالبے کے لیے برطانیہ بھر میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے جہاں اسلاموفوبیا میں بھی اضافہ ہو رہا ہے وہاں یہودیوں کے خلاف بھی غصے اور نفرت کے جذبات پنپ رہے ہیں۔ انتہا پسندی کی اس نئی تعریف کا مقصد مذہبی اور نسلی تفریق کے باعث ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور تقسیم پر قابو پانا ہے۔ اس سے پہلے 2011 میں انتہاپسندی کی ڈیفینیشن کے مطابق ایکشن پر بنیاد تھی یعنی اگر کسی نے عملی طور پر برطانوی اقتدار، جمہوریت، قانون کی حکمرانی، انفرادی آزادی اور مختلف عقائد اور ان کے احترام کی خلاف ورزی کی تو وہ انتہا پسندی کے زمرے میں آئے گا۔ جب کہ مارچ 2024 میں تبدیل کی گئی ایکسٹریمزم یا انتہا پسندی کی ڈیفینیشن کے مطابق اس قسم کے خیالات ، نظریات یا آئیڈولوجی رکھنے والے افراد یا تنظیمیں انتہا پسندی کے دائرے میں آئیں گے۔ اور اس میں ایسا طرز عمل بھی شامل کیا جائے گا جو بھلے جرائم سے کم مگر ناقابل قبول تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے گروپوں کو گورنمنٹ فنڈنگ مہیا نہیں کی جائے گی بلکہ سول آفیسرز اور منسٹرز پر پابندی ہوگی کہ ان تنظیموں سے کسی قسم کی ملاقات یا کسی بھی ذریعے سے بات چیت نہ کی جائے ۔ برطانیہ میں کام کرنے والی تمام تنظیموں کی لسٹ تیار ہو رہی ہے جو دو تین ہفتوں میں ڈاؤننگ سٹریٹ سے جاری کردی جاۓ گی۔

مگر اس سے پہلے پانچ تنظیمیں جو انتہا پسندی کے کرائٹیریا پر پوری اُترتی ہیں جن کے بارے میں ہاؤسنگ منسٹر مائیکل گوو نے اعلان کر دیا ہے ان پانچ تنظیموں میں دو سفید فارم ہیں جو انتہائی دائیں بازو کے گروپ ہیں۔ جبکہ تین اسلامی تنظیمیں ہیں۔ ان کی فہرست یہ ہے۔

1- برٹش نیشنل سوشلسٹ موومنٹ۔ جو سفید فام نسلی ریاست اور نو نازی نظریے کو فروغ دیتے ہیں اور اقلیتوں کو جبری وطن واپسی اور دھمکیوں کے ذریعے نشانہ بناتے ہیں۔
2 – پیٹریوٹک آلٹرنیٹو۔ جو انتہائی دائیں بازو کا وہ قوم پرست گروپ ہے جو 2019 کے بعد بی این پی پارٹی میں تقسیم کے بعد پروان چڑھا ہے۔ چند روز پہلے مارچ میں ہی ان کے ایک لیڈر سیم میلیا کو نسل پرستی کے سٹیکر بنانے پر گرفتار کر لیا گیا ہے اس کے گھر پر چھاپے کے دوران کچھ کتابیں اور انتہا پسندی کا لٹریچر بھی برآمد ہوا ہے۔
3- مسلم ایسوسی ایشن آف برطانیہ ۔ جو ایک برطانوی سنی مسلم گروپ ہے۔ اس کا مقصد نچلے سطح کی مسلمانوں کی صلاح و بہبود اور سماجی ترقی ہے۔ مائیکل گوو کے مطابق عراق جنگ کے خلاف مظاہروں میں یہ تنظیم شامل تھی اور اس کے روابط حماس اور مسلم برادر ہوڈ سے بتائے جاتے ہیں۔ حکومت کے اس بیانیہ پر بدھ کے روز اس تنظیم نے بیان دیا کہ ان کا گروپ شہری آزادی کے  خاتمے اور انتہا پسندی کے خلاف سیاست کرنے پر مذمت کرتا ہے اور یہ کہ تمام سیاسی جماعتوں کو حکومت کے اس بیانیۓ کی مخالفت کرنی چاہیے۔
4 – کیج ۔ ( سی اے جی ای)۔ یہ تنظیم دہشت گردی کے خلاف اور جنگ سے متاثر ہونے والی کمیونٹیز کو با اختیار بنانے کے لیے ایک آزاد تنظیم کے طور پر کام کرتی ہے۔ انہوں نے برطانیہ کے انسداد دہشت گردی قوانین پر کافی تنقید کی ہے۔ انہوں نے رد عمل دیا کہ تمام حکمت عملی کا مقصد مسلمانوں کے خلاف خوف کو بھڑکانا اور ایک جابرانہ اور آمرانہ پالیسی بنانا ہے۔ اور اس کا مقصد مسلمانوں کا استحصال ہے۔
5- مسلم انگیجمنٹ اینڈ ڈویلپمنٹ جو مینڈ کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ اس کا مقصد برٹش مسلمز کو برطانوی میڈیا اور سیاست میں نمائندگی کے لیے فعال بنانے میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ 2017 میں مینڈ کے ہاؤس آف کامنز کے ساتھ ایک پروگرام سے چار ارکان پارلیمنٹ نے دستبرداری اختیار کر لی کیونکہ انہیں محسوس ہوا کہ تنظیم کے انتہا پسندانہ خیالات ہیں۔ اس گروپ کے سینیئر مینجمنٹ نے اس بارے میں کہا کہ ہم جمہوریت میں ہیں اور ہمیں اپنی رائے دینے کا پورا حق ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

انتہا پسندی کی یہ نئی پالیسی لگتا ہے صرف مسلمانوں کا گھیراؤ کرنے کے لیے ہے کیونکہ دوسری جانب ٹوری پارٹی کے اپنے ارکان پارلیمنٹ کھلم کھلا نسل پرستی کے بیانات دے رہے ہیں۔ چند ہفتے پہلے لندن کے میئر صادق خان کے بارے میں ٹوری پارٹی کے ایم پی لی اینڈرسن نے کمنٹ کیا جب برطانیہ کا کیپیٹل اسلامیوں کے ہاتھ میں ہے لندن میں فلسطین پر جنگ بندی کے مظاہروں کے بارے میں لی اینڈرسن نے کہا کہ صادق خان نے لندن کو اپنے ساتھیوں کے حوالے کر دیا ہے۔ اس بات کا شدید رد عمل پارلیمنٹ اور میڈیا میں آیا۔ ٹوری پارٹی کے اپنے ایم پیز نے اس بات کی مذمت کی اور کہا کہ یہ غلط بات کی گئی ہے۔ مگر جب جرنلسٹ نے پوچھا کہ یہ نسل پرستی کا کمنٹ ہے تو اس پر کسی نے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔ لی انڈرسن جو ٹوری پارٹی کے وہپ تھے ان کو صرف وہاں سے معطل کر دیا گیا، مگر اس کے علاوہ رشی سناک نے کوئی ایکشن نہیں لیا بلکہ اس کو ریسزم بھی قرار نہیں دیا۔ اس کے بعد لیبر پارٹی کی ایم پی ڈایان ایبٹ جو افریقی نژاد ہیں ان کو خاتون ہونے کی وجہ سے بدگمانی اور تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ گھٹیا طرز عمل ٹوری پارٹی کو ریگولر طور پر بھاری بھرکم فنڈ اور چندہ دینے والے فرینک ہیسٹر کی طرف سے آیا۔ لیبر پارٹی کے لیڈر سر کیئر اسٹارمر نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں رشی سناک پر سوال داغ اور تنقید کی کہ ان کو اس شخص سے لیے گئے تمام فنڈ واپس کر دینے چاہیے۔ مگر افسوس ناک امر یہ ہے رشی سناک اپنی پارٹی کے ایم پیز اور منسٹرز کو ناراض کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ۔ کنزرویٹوز خود سب سے بڑھ کر نسل پرست اور تعصب پرست ہیں۔ سب سے پہلے رشی سناک کو اپنی پارٹی کو سدھارنا ہوگا ان کے نظریات درست کرنے ہوں گے۔ اور اگر وہ غلط بات کریں تو ان پر پورا ایکشن لیا جانا چاہیے نا کہ بات کو گھول کر پی جانا چاہیے۔ جبکہ دوسری طرف انتہا پسندی کی نئی پالیسی صرف اور صرف مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ کے لیے بنائی گئی ہے ۔ حالات ایسے پیدا کیے جا رہے ہیں کہ مسلمان خود بخود تنگ آ کر واپس اپنے آبائی ملک کو لوٹ جائیں۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ لوگ احتیاط سے کام لیں اور اگر اس ملک میں رہنا ہے تو درمیانہ رویہ اپنائیں۔ اور اب تو برملا اپنی رائے کا اظہار کرنے سے بھی پرہیز کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply