خالد سہیل ملک کی افسانوی شعریات (مون سون کے تناظر میں)-منصور ساحل

اکیسویں صدی کے آغاز میں بے قلعی منفیت ، ثنویت ،بے سمتی، یک منزلہ سفر کی تکرار ، ذہنی نارسائی ، شناختی بحران اور مختلف نفسیاتی کمپلیکس  انسانی ساخت کا مرکز بن کر تمام علمیاتی انقباض کی از سر نو تشکیلات کے حصّہ دار بن گئے ۔ اس ترمیم و تعمیر نو سے فرد واحد نا صرف نسلی و صنفی امتیازات کا شکار ہوا بلکہ علاقائی و عالمی تنظیمات سے بھی بے زاری کا اظہار کیا۔ تخلیق کار نے اس اظہار کو اندرونی انتشار و افتراق اور حسیاتی تجربے کی اتھارٹی بخش کر قاری کے سامنے پیش کیا۔ ان تخلیق کاروں میں ایک خالد سہیل ملک ہیں ۔خالد سہیل ملک کی ہر کہانی بقول نطشے (اندرونی ہلچل و انتشار ہی بہترین تخلیقات کو جنم دیتا ہے) اندرونی ہلچل و انتشار کا نتیجہ ہے ۔ مون سون میں کُل 21افسانے شامل ہیں ۔ مجنوں  گورکھپوری افسانے کے حوالے سے کہتے ہیں “اس (افسانے) میں جو حالات و واردات بیان کیے جائیں خواہ وہ فرضی ہوں یا واقعی ان کے اندر یہ خوبی یقینی طور پر ہونی چاہیے کہ وہ قاری یا سامع کو بے ساختہ اپنی طرف متوجہ کرلیں” ۔

مون سون کے افسانوں میں یہ خوبی موجود ہے کہ وہ نہ صرف قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں بلکہ قاری کو اپنی سر گزشت معلوم ہوتی ہے ۔ افسانہ کے بارے یہ رائے عام ہے کہ افسانہ زندگی کے ایک پہلو کا احاطہ کرتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ خالد سہیل ملک کے افسانوں میں پوری زندگی امڈ آئی ہے۔ اس سٹیٹمنٹ کی تائید ڈاکٹر رشید امجد یوں کرتے ہیں “خالد سہیل ملک کے موضوعات میں تنوع ہے ۔ زندگی سے لبالب ان کی کہانیاں سماج کے مختلف رویوں کی رنگا رنگی کی متحرک تصاویر ہیں”۔ان افسانوں میں روایتی حسن و عشق ، عاشق و معشوق کا وصال ، عاشق کی بے قراری و محبوب کی بے وفائی ، حاکم کے ظلم اور محکوم کی بے بسی کی کہانی ، سے گریز کرکے خالد سہیل ملک کائنات ،زندگی اور تیسری دنیا پر ایک فلسفیانہ نظر ڈالتے ہیں اور الہامی صورت میں ان تلازمات کا اظہار کرتے ہیں۔ افسانہ “مون سون سے مون سون تک” کے واقعات شفاف ہیں اس افسانے کی پڑھت قاری کو اس فضا کی سیر کراتی ہے جو ساحل سمندر پر آباد لوگوں کی حساس و بے بس آتماؤں کا مونس ہے۔ اس افسانے میں رام اوتار کی کہانی ہے جس کو اپنی خوشیاں بھی نصیب نہیں ہوتیں۔ موسم جب بدلتا ہے ” کا آغاز “غلام عباس کے اورکوٹ”کی یاد دلاتا ہے ۔

خالد سہیل ملک اس کردار کا تعارف کچھ یوں کرتے ہیں ” اس نے اپنا سرخ رنگ کا Cerruti کا مفلر اپنے چہرے سے ہٹاکر y s l کے مسٹرڈ کلر کے اورکوٹ کے بٹن کو کھول دیے تھے ۔ اوور کوٹ کے نیچے اس نے Raulflauren کے ٹو پیس سوٹ کے کوٹ کی اندرونی جیب میں سے سگار باکس نکال کر اس میں سے ایک ہوانا سگار نکالا اور سگار کو ایک طرف سے دانتوں میں چباکر منہ میں رکھ لیا تھا”(ص ۔24) ۔اس افسانے کا کردار بالکل نیا اور جدید انسان کا کردار ہے ۔بار میں ادھیڑ عمر شخص اور ریسٹورنٹ میں کمار سے ملاقات تک یہ کہانی سادہ اور آسان معلوم ہوتی ہے لیکن درمیان اور آخر میں فکریاتی پہلوؤں کا نا مکمل نتیجہ قاری کو تجسس میں رکھتا ہے ۔”چاند سے ایک وعدہ” عام سے گھر کی کہانی ہے لیکن خالد سہیل ملک کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ عام رویوں کو خاص بنانے کے ماہر ہیں ۔ خالد سہیل ملک کی عورتوں کی نفسیات پر گرفت مضبوط ہے ایک عورت (رام دائی) بیٹا جن کر کہانی کا اختتام ہوتا ہے تو دوسری عورت چاند کو گواہ بنا کر چیخ کر “میں بچہ ضرور جنوں گی” کی تکرار کرتی ہے ۔اسی طرح نسوانی نفسیات کا حامل افسانہ “اعتراف ذات”میں بھی مارگریٹ سرور و مستی کی تلاش میں گم ہے ۔

خالد سہیل ملک کا افسانوی ارتقاء دو سطحوں پر مشتمل ہے ایک سطح ظاہری ہے جو عام ہے یعنی اینٹ پر اینٹ رکھنا دوسری سطح انسانی لاشعور میں جانے اور کھوج لگانے سے متعلق ہے۔ افسانہ “آئینہ در آئینہ” لاشعوری کیفیات کا طلسم خانہ ہے اس میں کردار اپنے لاشعوری محرکات سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے لیکن بے سود۔ اس فہرست میں جنوں کو فاصلہ ہی کتنا ہے، کوانٹم کہانی بھی شامل ہیں۔

فطری تلازمات سے کہانی کی جڑت بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے لیکن مون سون میں شامل افسانہ ” خوشبو کا لمس” میں تمام مظاہرات بالکل فطری معلوم ہوتے ہیں ۔ اس افسانے میں دو کرداروں کے مکالموں سے کہانی آگے بڑھتی ہے یہ مکالمہ انسانی فطرت ، پسند و ناپسند ، ہار جیت، چاند کی مخبری ، رات کے مناظر کے ساتھ ساتھ فرد کے وجودیاتی کرب کا آئینہ ہے افسانہ “عنوان سے عاری ایک کہانی ” کی معنویت انسان حیوانیت کی حدیں پار کر کھلتی ہے ۔ یہ افسانہ بغیر عنواں کی کہانی ہوتے ہوئے بے شمار عنوانات لیے ہوئے ہے ۔ لالی (پاگل، معصوم، دماغی بے ترتیبی)” کا کردار انسانی المیاتی کردار کا تخلیقی استعارہ ہے ۔ ملک مقصود الہٰی مصروفیت کے باوجود لالی کی معصومیت کو ہمیشہ کے لیے داغدار (جنسی زیادتی)کرتا ہے ۔ اور آخر میں چندہ اکٹھا کرکے میونسپلٹی والوں کو لالی اور بچے کی لاشیں ٹھکانے لگانے کا کام سونپ دیا جاتا ہے ۔ آخری اقتباس ملاحظہ کیجیے ” اس رات کے گزر جانے کے بعد جب سورج روشن ہوا تو ہونی ہوچکی تھی لالی گزری ہوئی رات میں چیخ چیخ کر اپنی ماں کا پکارتی رہی تھی ۔ اس کی ماں تو اس کی چیخوں کو سن نہ پائی تھی لیکن خود لالی مرنے سے پہلے ماں بننے کا شرف حاصل کرچکی تھی “۔

خالد سہیل ملک کا اسلوب ان کی تخلیقات سے وفادار نظر آتا ہے اسلوب کی تمام جہتیں ( اظہاری ، بیانیہ، مکالماتی ، معنیاتی ، جمالیاتی) خالد سہیل ملک کے افسانوں کی زینت ہیں ۔ ان افسانوں میں روایتی اسلوبیات (پریم ، یلدرم، منٹو، کرشن چندر، قاسمی ، غلام عباس) اور نئے افسانے کا اسلوبیاتی کرافٹ (رمزیہ انداز ) اشتراک ملتا ہے جو خالد سہیل ملک کی اسلوبیاتی انفرادیت پر دال ہے ۔
مجموعی طور پر خالد سہیل ملک کے افسانے مخصوص استعاروں کے ساتھ ہمیں عمل اور رد عمل کی ایک نئی زیست سے ملاتے ہیں ۔ وہ دنیا جہاں واقعات کی لامنتاہی پرتیں کھولنے کے لیے بے تاب ہیں ، جہاں کہانی سے خیال ، خیال سے معنی ، معنی سے قبولیت ، قبولیت سے انسانی تحرک و تشکیک ، تشکیک و تحریک سے سوال ، سوال سے اگلا سوال۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اگلا سوال۔۔۔۔۔ جنم لیتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

منصور ساحل
اردو لیکچرر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چارسدہ ایم فل اردو (ادب اور سماجیات) مدیر برگ ادب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply