ہمارے معاشرے میں صوفیائے کرام کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔ عام اَن پڑھ لوگ، جن کی تعداد آبادی کا چالیس فیصد تک ہے، بیماریوں اور پریشانیوں میں پیروں سے دم کراتے ہیں، ان کے آستانوں پر دعا کرانے جاتے ہیں، ان سے تعویذ لیتے اور جن نکلواتے ہیں۔ اس ساری مشق میں بنیادی عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ باقیوں کی نسبت پُراسرار روحانی صلاحیتوں کے مالک ہیں اور ان سے بہتر ہیں۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ سیر و سلوک انسان کو دوسروں سے افضل بنا دیتا ہے۔ یہ خیال رکھنے والی بڑی آبادی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
فروری 2024ء میں معروف صحافی اقرار الحسن نے پیر حق خطیب سرکار کے خلاف مہم چلائی تو انہیں ناکامی کا سامنا ہوا۔ بلاوڑہ شریف کے یہ پیر جب انگلستان گئے تھے تو وہاں بھی ان سے دم کروانے والوں کا مجمع اکٹھا ہو گیا تھا۔ یہ محض دیگ کا ایک چاول ہیں۔ یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا آ رہا ہے اور اسلام کی آمد سے پہلے بھی جوگی بابے انہی شکتیوں کے مالک سمجھے جاتے تھے۔ اب بھی ہندوستان میں جوگیوں کی روحانی سلطنت بہت وسیع ہے۔ اگست 2017ء میں گرمیت سنگھ نامی پیر کی گرفتاری کے خلاف اس کے پیروکاروں نے شمالی ہند میں بڑے پیمانے پر ہنگامے کئے ،جن میں چالیس کے قریب لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
جو لوگ تھوڑی زبان اور ریاضی سیکھ کر عقل کو استعمال کرنے لگتے ہیں ان کو یہ صوفیائے کرام تو جعلی پیر لگتے ہیں، لیکن ماضی کے پیروں کو وہ پھر بھی اصلی پیر مانتے ہیں۔ چنانچہ وہ تصوف کی کتابیں خرید کر پڑھنے لگتے ہیں۔ مرکزی خیال وہی ہوتا ہے کہ کچھ انسان دوسروں سے افضل ہیں، وہ ولی الله بن چکے ہیں۔ یوں پڑھےلکھے افراد میں بھی اکثریت تصوف کی قائل ہے۔ تعلیمی اداروں کے استادوں میں بھی تصوف سے لگاؤ موجود ہے۔ عرفان اور صوفیت میں اتنی ذہنی الجھنیں ہیں کہ جو کوئی ان کو سلجھانے بیٹھ جائے اس کے پاس کسی علم کو سیکھنے کا وقت ہی نہیں رہتا۔ سائنس، تاریخ، اقتصاد، وغیرہ جیسے اہم علوم کو سیکھنا ممکن نہیں رہتا اور تصوف کی بھول بھلیاں ذہن کو واقعیت سے کاٹ کر رکھ دیتی ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ عرفان اور تصوف الحاد سے بچاتا ہے۔ اوّل تو یہ کہ الحاد دنیا میں اتنا نہیں پھیل رہا جتنا بتایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں عبادت گاہیں آباد ہیں اور جن عوامل کی وجہ سے آباد ہیں وہ بھی باقی رہیں گے۔ جہاں تک تصوف کی بات ہے تو ممکن ہے اس کے ذریعے نوجوانوں کے اذہان کو کُند کر کے سوالات کو دبایا جا سکے، لیکن کسی کو زنا سے بچانے کیلئے اس کی شرمگاہ کاٹ دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ ایک موہوم خطرے کے خوف میں اپنی نسلیں برباد کر لینا دانشمندی نہیں۔
یوں تو اردو ادب اور شاعری میں تصوف کی بھول بھلیاں پہلے بھی کم نہ تھیں، لیکن گذشتہ کچھ عشروں سے اردو سمجھنے اور بولنے والی دنیا میں تصوف کی تبلیغ و اشاعت میں تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔ پاکستان میں ترکی ڈرامے ارتغرل (Ertuğrul) کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ صوفیاء کی کتب کے تراجم اور رسالوں کی نشر و اشاعت، دینی مدارس میں انکی تعلیم، یوٹیوب پر دروس، مختلف ادیبوں، کھلاڑیوں اور اداکاروں کا بڑھاپے میں تصوف کی طرف میلان اور مختلف چینلز پر ٹاک شوز اور قوالیوں وغیرہ کے ذریعے اردو میڈیا پر تصوف و عرفان کی ترویج ہوتی رہی ہے۔ متعدد ویب سائٹس بھی سامنے آ چکی ہیں-
حکومت نے بھی تصوف کو ایک اہم حکمت عملی کے طور پر اپنایا ہوا ہے۔ صوفی بزرگوں کو سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ تک رسائی تو پہلے بھی تھی لیکن 11 ستمبر 2001ء کے بعد پاکستان میں دہشتگردی میں تیزی آئی تو شدت پسندی کے شکار معاشرے کے اصلی مرض کا علاج کرنے کے بجائے تصوف کی افیون سے مریضوں کو سلانے کا فیصلہ ہوا۔ پرویز مشرف صاحب نے صوفی کونسل بنا ڈالی۔ جناب عمران خان صاحب کے دور حکومت میں بعض یونیورسٹیوں میں تصوف کی باقاعدہ تدریس کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہے۔ یہ سب اس قدرتی تیل اور گیس سے محروم خطے کی کمزور معیشت کیلئے بھی خطرہ ہے، کیونکہ ذہنی سرمائے کو ضائع کر کے ملکی صنعت کو ترقی نہیں دی جا سکتی۔ واقعیتِ اشیاء اور اصالتِ ماہیت سے انکار، جدید علوم میں پیشرفت اور دریافت کے سفر کو روک دیتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں تصوف پر علمی تنقید کی بہت کمی ہے۔
شیعہ مسلک میں بھی باوے موجود ہیں جن کے مرید ان کو نذرانے دیتے ہیں اور ان کی اطاعت اپنے لئے لازمی سمجھتے ہیں۔ ایران کے انقلاب کے بعد مُلا صدرا اور ابنِ عربی کے نظریات پر مبنی کتب بھی ترجمہ ہو چکی ہیں۔ چنانچہ جو شیعہ پڑھ لکھ کر باوے کے اثر سے نکل آئے، وہ مُلا صدرا کی دلدل کا سامنا کرتا ہے۔ عصر حاضر کے اخوانی شیعہ علما تو تصوف کے قائل ہیں، لیکن اخباری اور اصولی شیعہ علما نے ہمیشہ تصوف کے خلاف کتب لکھی ہیں۔ ”ابنِ عربی، عرفان اور تصوف پر تحقیقات“ کے عنوان سے چلنے والی ویب سائٹ میں تصوف کے بارے میں معاصر شیعہ مراجع اور محققین کے علاوہ بعض بڑے متقدمین کی تحریریں اور آراء بھی پیش کی گئی ہیں۔ یہ ویب سائٹ آٹھ زمرہ جات پر مشتمل ہے جنہیں ویب سائٹ میں اوپر موجود نشان پر کلک کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک زمرہ مقالات کا ہے۔ اس میں مفصل تحقیقی مقالات پیش کئے گئے ہیں۔ یہ مقالات مشکل زبان میں لکھے گئے ہیں اور فنی اصطلاحات کے استعمال کی وجہ سے عام آدمی کیلئے قابلِ فہم نہیں ہیں۔ اگر ان مقالہ جات کا زیادہ آسان زبان میں خلاصہ پیش کیا جاتا تو شاید عوام کی دسترس میں ہوتا۔ دوسرا زمرہ مراجع کے فتاویٰ پر مشتمل ہے۔ اس میں مختلف نام نہاد عملیات اور ریاضتوں کے بارے شیعہ فقہاء کی رائے بیان کی گئی ہے جو ان کے مقلدین کیلئے اہم ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کیلئے بھی قابلِ غور ہے۔ اس کے علاوہ وحدت الوجود، معادِ جسمانی، مکاشفے وغیرہ پر قم و نجف کے مراجع سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات موجود ہیں۔ تیسرا زمرہ مراجع کی تحریروں اور بیانات کا ہے۔ اس میں نسبتاً مفصل تحریریں شامل ہیں جو مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ زبان بھی عام فہم استعمال کی گئی ہے۔
اگلا زمرہ کتب برائے ڈاؤنلوڈ کا ہے۔ یہاں اس موضوع پر اردو میں دستیاب کتب کی پی ڈی ایف فائلیں میسر ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ اردو میں تصوف کی رد میں شیعہ علما کی جانب سے لکھی گئی کتب تعداد میں بہت کم ہیں۔ ایران اور عراق میں اس سلسلے میں جو فکری کاوشیں ہوئیں وہ بھی کم ہی ترجمہ ہو کر اردو جاننے والوں تک پہنچ سکی ہیں۔ پانچواں زمرہ ابنِ عربی کے خیالات کا ہے۔ اس زمرے میں محیی الدین ابنِ عربی کے مختلف نظریات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد آڈیوز، مضامین اور خبروں کے زمرہ جات آتے ہیں۔
اگرچہ جن علما کی آراء کو سامنے لایا گیا ہے وہ شیعہ مسلک کی بہت اہم شخصیات ہیں، لیکن اس ویب سائٹ پر ناظرین کی تعداد بہت کم ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ برصغیر کی ثقافت میں تصوف رچا بسا ہوا ہے۔ ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں کے عوام کی زندگی مشکلات میں گھری ہوئی ہے اور زوال کے زمانے میں تصوف عام ہو جایا کرتا ہے۔ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ بہت سے مقامی صوفیا نے اہلبیت ؑ کی شان میں شاعری کی ہے اور وہ ابنِ عربی وغیرہ سے اختلاف بھی رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے اکثر شیعہ مسلمان صوفیاء کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ نیز مقامی زبانوں کی بقاء میں صوفیانہ شاعری کا جو حصہ ہے، اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
اسے بھی دیکھئے: مُلا صدرا کے فلسفے کو ترک کرنے کی ضرورت
نوٹ:تحریر میں بیان کردہ خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ ویب کا ان سے اتفاق ضروری نہیں اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں