ایک گھریلو ملازمہ کا ریاست کے نام خط/محمد وقاص رشید

میں ایک بیوہ عورت ہوں۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے ۔ یہ چھوٹا سا تھا کہ اسکا باپ ایک حادثے میں چل بسا۔ وہ اپنی آئی سے مر گیا اور میں جیتے جی۔ تب سے زندگی کچی چھت کی طرح اوپر آ گری۔ ضرورتوں کے ملبے تلے زندہ درگور ہوں۔ خدا نے میرے بیٹے کو یتیمی دی تو میں نے اسکے فیصلے کا بھرم رکھا اپنی ممتا کو باپ بنا کر بیٹے کے سر پر رکھ دیا۔ سوچا خدا پر ایمان نہ جاتا رہے اسکا۔
دھان پان سی عورت ایک مرد بن گئی۔ اسکا باپ کہتا تھا میرا بیٹا بابو بنے گا۔ وہ چلا گیا۔ اسکا خواب میں نے دل میں بسا لیا کہ اسے پڑھاؤں گی مگر کیا پتا تھا کہ غریب کا دل اس خواب کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔

صبح سویرے ماں بن کر بچے کو سکول بھیجتی۔ پھر اسکا باپ بن کر نکل جاتی کالونی میں گھروں کا کام کرنے۔ اپنی اپنی طرز کے لوگ ہوتے۔ پانچ گھروں میں کام کر کے ٹوٹ جاتی۔ کہیں برتن دھوئے ، کہیں کپڑے تو کہیں صفائی ستھرائی۔ جب ان کوارٹروں اور بنگلوں کی مالکنیں بیٹھی بیٹھی کہتیں کہ میں آج تھک گئی ہوں ذرا دبا دو تو میں ان سے یہ نہ کہہ سکتی کہ ان بھوکے ہاتھوں میں جان نہیں۔ بھئی یہ رازق ہیں ناراض ہو کر نکال دیا تو یہ والا سرخ نوٹ شام کو کہاں سے آئے گا۔ بیٹا کاپی کتاب کہاں سے لے گا۔ روٹی کیسے کھائیں گے۔ یہ سوچتے میں جان بوجھ کر آسمان کی طرف نہیں دیکھتی تھی۔
پانچ گھروں میں کہیں سے اڑھائی ہزار ملتے کہیں سے تین ۔ یہ نہیں کہ اڑھائی دینے والے اوپر والا پانچ سو نہیں دے سکتے تھے بس وہ روک اس لیے لیتے تھے کہ انکا اور میرا ایمان اور مضبوط ہو کہ اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔

بخت کا بھرم رکھے ہوئے زندگی جیسے تیسے آگے بڑھتی رہی۔ میں نے بتایا نہ گھروں کے کام کر کر کے میں روز ٹوٹتی رہی۔ اپنے بکھرنے والے ٹکڑے بیٹے کو کھلاتی رہی۔ امیر لوگ اپنی اولاد کو دیکھ دیکھ کے جیتے ہیں میں اندر ہی اندر مرتی رہی۔ میرا بیٹا مجھ سے اونچا ہو گیا آٹھویں جماعت میں پہنچ گیا۔ ایک شام دل نے اسکا خواب جھیلنے سے انکار کر دیا۔ میں نے بڑی منت کی ۔ خدا کا واسطہ دیا تو معدوم سی دھڑکنوں میں سرگوشی کرتے کہنے لگا۔ اسی نے تو مجھے کہا ہے۔ میں جو پہلے دعاؤں پر تھی اب دواؤں پر آ گئی اور دوائیں بھی وہ جو میری بساط ہی سے باہر تھیں۔ غریب کو بیماری بھی غریب کے مطابق لگنی چاہیے مگر۔۔۔

چلو میں نے کہا دواؤں پر ہی سہی۔۔۔ کام کرتے کرتے اب زیادہ تھکنے لگی ۔ جلدی جلدی سانس چڑھنے لگا۔ مگر وہ ایک سرخ نوٹ۔ بحرحال اب جس دن انتخابات تھے تو ایک بنگلے والی باجی نے مجھے بتایا کہ اب ملک میں مہنگائی کم ہو جائے گی۔ لوگوں کے ووٹوں سے کوئی پکی حکومت آ جائے گی۔ میں بڑی خوش تھی۔ غریب کو اتنا خوش بھی نہیں ہونا چاہیے شاید۔

رات کے پچھلے پہر کوئی درد تھا۔ الامان۔ زندہ تو میں شاید پہلے ہی نہ تھی مگر اب موت کو بالکل سامنے دیکھ لیا ۔ ٹانگوں میں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ سانسیں تھیں کہ بخت کی اندھیری راہ پر جلتے دیے کی پھڑپھڑاتی ہوئی لو۔ اٹھا کرہسپتال لے گئے۔ مہینے بھر کی تنخواہ سے دو گنا پیسے لے کر انہوں نے کہا RIC۔

خدا بھلا کرے RIC پہنچانے والوں کا۔ پورے راستے جو اذیت سے میں کلبلائی۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ اندر کی تکلیف زیادہ ہے یا باہر کی۔ میں اسکے ننھے ننھے ہاتھوں میں مرنا نہیں چاہتی تھی ۔ میں اسکا خدا تھی۔ خدا نہیں مر سکتا۔ زبردستی آنکھیں کھولتی کہ اسے پتا چلے زندہ ہوں۔ وقت سے پہلے بڑا آدمی بن گیا میرا لعل۔

ہسپتال کی ایمرجنسی میں وہ اپنے خدا کو لیے لیے پھرا۔ مجھے تو ڈرپیں لگ گئیں۔ وہ بھوکا تھا۔ میں ہسپتال کے عملے کو چیخ چیخ کر بتانا چاہتی تھی کہ میں اسے خود کو توڑ توڑ کر کھلاتی ہوں۔ یہ صبح سے بھوکا ہے۔ یہ ابھی بڑا آدمی نہیں بنا۔ یہ بچہ ہے۔ میرا گود والا کاکا۔

ہسپتال کے بینچ پر پتلی سی ایک جرسی میں اسے سکڑا ہوا لوگوں کی طرف خالی خالی نظروں سے دیکھتا تکتی تو دل اور بجھنے لگتا۔ جی چاہتا خدا سے کہوں تو نے فرشتوں سے کہا تھا میں انسان کو پیدا کرنے لگا ہوں زمین میں اختیار کی طاقت کے ساتھ۔ کہاں ہے ہم غریبوں کا اختیار۔ کبھی زبردستی دھڑکتا دل چاہتا کہ وقت کو پر لگ جائیں میرا بیٹا ایسے کسی ہسپتال میں ڈاکٹر ہو اور اپنے جیسے کسی بینچ پہ بیٹھے بچے کی ماں کو بچا لے تو کسی گمنام قبر میں میرا دل دھڑکنے لگے۔

ڈاکٹرز نے کہا چند دن پہلے کیوں نہ آئیں فلاں دوا دینی تھی فلاں روکنی تھی۔ میں نے بتایا دھندیں تھیں۔ حالانکہ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے۔ میری زندگی کے راستے سے دھند چھٹی کب۔
اور پھر وہی ہوا۔ اسکی ماں بچ گئی باپ نہ بچا۔ ماں کا دل ایک بار پھر بچ گیا میری ممتا کی حرکتِ قلب بند ہو گئی۔ میں بسترِ مرگ پر ہوں۔ پانچ گھروں میں کام کرتی کرتی اپنے گھر کے کام سے بھی گئی۔ ایک سرخ نوٹ نے بدن سے لہو کی سرخی چاٹ لی۔ میرے بیٹے کا ایمان بچ گیا۔ مگر کتنے دن۔۔۔۔اور کتنے دن

Advertisements
julia rana solicitors london

تھوڑی سانسیں بحال ہوتی ہیں آواز نکالنے کے قابل ہو جاؤں تو باجی سے فون کر کے پوچھوں گی کہ انتخابات ہو گئے کوئی پکی حکومت آ گئی جو مجھے پانچ گھروں میں کام کے پیسے دے دے۔ جو میرے بچے کو پڑھا دے ، دشمن کا بچہ سمجھ کر ہی پڑھا دے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply