کراچی سے سکھر جانے کے لیے پی آئی اے کی فلائٹ لی۔
ایئرپورٹ پہنچے، ڈپارچر لاؤنج میں ایک فیملی بیٹھی تھی مرد کی گود میں ایک نومولود بچی تھی۔ وہ روئے جا رہی تھی ، اس کا باپ زور دار بھونڈی آواز میں کبھی لا الٰہ الا اللہ پڑھے ، کبھی قوالی گائے مگر بچی چپ ہونے کا نام نہ لے۔ مجھے قوی یقین تھا کہ بچی کے چپ نہ ہونے کا سبب اس کے ابا کی پھٹے ہوئے ڈھول جیسی آواز تھی۔ اس کی ماں فون پر کسی سے گفتگو میں مصروف تھی۔ خدا خدا کرکے اس نے فون رکھا اور بچی کو لیا ، وہ خاموش ہوئی تو سکون ہوا۔
بس کے ذریعے رَن وے پر جہاز کی طرف جاتے ہوئے دور سے ایک چھوٹا سا طیارہ جس کے دونوں طرف پنکھے لگے ہوئے تھے، نظر آیا۔ خیال آیا کہ اتنا پرانا جہاز جس کے اگلے دروازے پر جالی نما کوئی چیز لٹک رہی تھی، شاید سامان وغیرہ لے جانے کے لیے استعمال ہوتا ہوگا۔
اس وقت ہاتھوں سے طوطا مینا سب اُڑ گئے جب رن وے پر بس نے ہمیں اسی جہاز کے سامنے اتار دیا ۔ میں نے کولیگ سے پوچھا کہ کیا یہی جہاز ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں سکھر یہی آتا جاتا ہے۔ اللہ کا نام لیکر سوار ہوئے۔ بہت چھوٹا سا جہاز تھا۔ بمشکل پچاس سے ساٹھ افراد کی گنجائش ہوگی۔
جہاز میں بیٹھ گئے تو اچانک سے نعتیں بجنے لگیں ۔ آقا بلا لو، اپنے در پہ بلا لو۔۔
میں نے دل میں سوچا کہ گھر سے نکلتے ہوئے میرا آقا کے در پر حاضری دینے کا بالکل موڈ نہیں تھا لیکن جہاز دیکھ کر لگ رہا ہے کہ شاید حاضری ہوجائے۔
دائیں بائیں نگاہ دوڑائی تو دیکھا ایک آنٹی اور ایک انکل دونوں قرآن کھولے ہوئے تلاوت کر رہے ہیں۔
میں نے کہا یا اللہ رحم، کونسی فلائٹ دنیا میں ایسی ہوگی جس میں نعتیں بجتی ہونگی۔ جتنی دعائیں یاد تھیں ، سب پڑھ ڈالیں۔
ذوالقرنین حیدر کا ایک ڈرامہ میں نے بچپن میں دیکھا تھا جس میں وہ گاؤں جاتا ہے اور وہاں بیمار پڑتا ہے تو اس کو ایک طبیب کے پاس لے جاتے ہیں، جو گاؤں کا واحد حکیم ہوتا ہے۔ وہاں پہنچ کر ذوالقرنین کی نظر دواؤں کے ڈبوں اور مرتبانوں پر پڑتی ہے تو وہ ان پر لکھے نام پڑھ کر پریشان ہوجاتا ہے ۔ ایک مرتبان پر لکھا ہوتا ہے، جائفل چہار زندگانی ، دوسرے مرتبان پر لکھا ہوتا ہے، اطفل دنیا فانی
جب حکیم صاحب آتے ہیں اور اس کو دیکھتے ہیں تو ایک گانا گانے لگتے ہیں،
دو گز کفن کا ٹکڑا ، تیرا لباس ہوگا ، تیرا لباس ہوگا۔۔۔
جہاز میں نعتیں سن کر وہی بچپن کا ڈرامہ یاد آگیا۔
خیر، جہاز اڑا اور ہمارے پاکستانی پائلٹ نے کیا کمال اڑایا، باکمال لوگ لاجواب سروس نے راستے میں ہمیں ایک ہی سینڈوچ کے چار حصے کھلائے ، کولڈ ڈرنک مہیا کی اور پینتالیس منٹ میں سکھر پر اتار دیا۔ اترتے ہوئے ایک جھٹکا سا لگا لیکن جہاز سکون سے لینڈ کرگیا۔
شاید دنیا میں اس طرح کے جہاز گراؤنڈ پر بھی نظر نہیں آتے ہونگے لیکن ہمارے یہاں ان کو باقاعدہ اڑایا جاتا ہے۔
یہ وہی ائیر لائن ہے جس نے ایمیریٹس کے عملے کی تربیت کی اور آج وہ ائیر لائین دنیا کی بہترین ائیر لائن شمار ہوتی ہے، لیکن افسوس کہ ہم پیچھے رہ گئے۔
پرواز ہے دونوں کی اس ایک فضا میں
ایمرٹس کا جہاں اور ہے، پی آئی اے کا جہاں اور
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں