پاکستان کے لا پتا نوجوان ووٹرز/سیّد بدر سعید

اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کا مستقبل نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے لیکن دوسری جانب یہی نوجوان ملکی سیاست سے بدظن ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کی طرح میرا بھی یہی خیال تھا کہ تحریک انصاف نے نوجوانوں کو سیاست میں متحرک کیا ہے اور خاص طور پر 2018 کے الیکشن میں نوجوانوں کی بدولت تحریک انصاف کی حکومت بنی تھی۔ پلڈاٹ کی تحقیق نے مجھے غلط ثابت کر دیا۔ اگلے روز پلڈاٹ کی جانب سے دانشوروں کی ایک نشست کا اہتمام ہوا جس میں مجیب الرحمن شامی، سلمان غنی اور نعیم مصطفی سمیت سینئر صحافی شریک ہوئے۔ اس نشست میں جو اعداد و شمار سامنے رکھے گئے انہوں نے مزید پریشان کر دیا۔

پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور 2023 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 24 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نوجوانوں کی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ اب بزرگوں کو اقتدار اور انتظام نوجوانوں کے سپرد کرنا ہوگا۔ ماضی کی طرح چند “انکلز” سے کام چلانا مشکل ہو جائے گا۔

دوسری جانب اسے ہماری بدقسمتی سمجھیں کہ پاکستان کی سیاسی ایکٹیوٹی میں نوجوانوں کی شرکت کم ہوتی جا رہی ہے۔ پلڈاٹ نے ایک بریفنگ پیپر سامنے رکھا جو نیشنل انڈومنٹ فار ڈیموکریسی (NED) کے پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ اس میں انتخابی عمل میں نوجوانوں کی کم نمائندگی کے اہم مسئلہ کو اٹھایا گیا ہے۔ اس نشست میں اعداد و شمار اور حقائق ہمارے سامنے رکھے گئے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2018 میں نوجوان یعنی 18 سے 35 سال کے ووٹر کی شرکت کم تھی۔

اعداد و شمار کے مطابق مجموعی ووٹر ٹرن آؤٹ اور نوجوانوں کے ووٹر ٹرن آؤٹ کے درمیان فرق 1993 میں 7 فیصد پوائنٹ سے 2013 میں 27 فیصد پوائنٹ تک رہا یعنی کہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا لیکن اس کے برعکس صرف 2018 کے عام انتخابات میں یہ فرق کم ہو کر ساڑھے 16 فیصد پوائنٹ پر رہ گیا تھا۔ اندازہ لگائیں نوجوان ووٹرز کا اوسط ٹرن آؤٹ خواتین ووٹرز سے بھی کم ہوگیا تھا۔ نوجوانوں کا اوسط ووٹر ٹرن آؤٹ ساڑھے 31 فیصد جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2018 کے عام انتخابات میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آوٹ 40 فیصد رہا۔

اگر ہم 2024 کے عام انتخابات کی بات کریں تو الیکشن کمیشن کے مطابق رجسٹر ووٹرز کی کل تعداد 12 کروڑ 85 لاکھ، 85 ہزار 760 ہے جن میں سے 5 کروڑ 59 لاکھ 25 ہزار 940 ووٹرز کی عمر 18 سے 35 سال کے درمیان ہے جو کل رجسٹرڈ ووٹرز کا 43.85 فیصد بنتے ہیں۔ مزید تفصیل میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بھی 1 کروڑ 22 لاکھ 43 ہزار 477 ووٹرز کی عمر 18 سے 22 سال کے درمیان ہے یعنی یہ وہ نوجوان ہیں جو 2024 میں پہلی بار ووٹ دینگے۔ ان میں سب سے زیادہ نیا ووٹر پنجاب میں ہے اور ان کی تعداد 63 لاکھ 75 ہزار 484 ہے۔

پلڈاٹ کے دانشور اس پریشانی کا شکار ہیں کہ پاکستان کا نوجوان ووٹرز کہاں غائب ہو رہا ہے؟ نوجوانوں کی جمہوری عمل میں دلچسپی کم کیوں ہو رہی ہے؟ پلڈاٹ نے بتایا کہ یہ صورت حال سیاسی جماعتوں کے بھی سامنے رکھی گئی لیکن ایک سال سے کسی سیاسی جماعت نے بھی دلچسپی تو دور کی بات اس کا جواب تک دینا پسند نہیں کیا۔ اس حوالے سے میں نے کہا کہ نوجوانوں کو عملی طور پر سیاسی عمل سے دور کر دیا گیا ہے اس لیے ان کی دلچسپی بھی ختم ہو رہی ہے۔

تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین ہمارے نوجوانوں کی سیاسی تربیت کرتی تھیں جن پر پابندی لگا کر تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے یوتھ ونگ بنا رکھے ہیں۔ ان یوتھ ونگ میں ڈگری یا تعلیم یافتہ ہونے کی پابندی بھی ختم ہوگئی اور تعلیمی اداروں کا ڈسپلن بھی نہ مل سکا۔ اسی طرح ہمارے یہاں پیپلز پارٹی کے علاوہ لگ بھگ سبھی جماعتوں میں”نوجوانوں کے لیڈر” کے طور پر متعارف کرائے گئے افراد خود ریٹائرمنٹ کی عمر سے بھی تجاوز کر چکے ہیں یعنی ہمارے پاس نوجوانوں کا حقیقی لیڈر ہی نہیں ہے۔

المیہ یہ ہے کہ نوجوان قیادت کے طور پر جو نوجوان سامنے لائے جاتے ہیں وہ بھی کسی سیاسی راہنما کا بچہ، بھائی یا رشتے دار ہی ہوتا ہے۔ میرا سوال تھا کہ ایسے نوجوان راہنماؤں میں ہم جیسے مڈل کلاس طبقہ کے نوجوانوں کی کیا دلچسپی ہوگی؟ ہمارے نزدیک تو باپ کے بعد آنے والا بیٹا بھی ویسا ہی ہے۔ اس سے نوجوانوں کے مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں۔ ہمیں الیکشن سے پہلے کہا جاتا ہے کہ نوجوانوں کو ملازمتیں دیں گے لیکن الیکشن جیتنے کے بعد کہا گیا کہ حکومت کا کام ملازمت دینا نہیں بلکہ ملازمت کے مواقع پیدا کرنا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ملازمت کے مواقع بھی پیدا نہیں کیے گئے۔ کہیں وعدے قرآن حدیث نہیں ہوتے تو کہیں 35 پنکچر محض سیاسی بیان ہوتا ہے۔

ہم سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا جھوٹ کو سیاسی بیان کا لبادہ پہنا کر صداقت کا سرٹیفکیٹ لیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انتخابات جتنے مہنگے ہو چکے ہیں اس میں مڈل کلاس نوجوان کیسے سامنے آ سکتا ہے۔ کیا ایک محنت کش قومی اسمبلی کی الیکشن کمپین پر ایک کروڑ روپے خرچ کر سکتا ہے؟ اس سسٹم کو بدلنا ہوگا ورنہ پاکستان کا عام نوجوان اسے ڈرامہ ہی سمجھے گا اور اس کی دلچسپی ختم ہو جائے گی۔ ارباب اختیار کو سوچنا ہوگا کہ الیکشن کے اس سارے عمل میں نوجوانوں کا کیا حصہ ہے؟

اگر نوجوان اس میں سے مائنس ہیں اور ان کا کوئی شیئر ہی نہیں تو پھر پھر محض ووٹ ڈالنے کوئی نوجوان کیوں آئے گا؟ پاکستان کا نوجوان ووٹر تیزی سے لاپتا ہوتا جا رہا ہے جسے بازیاب کرانے کے لیے ریاست کو اپنی پالیسی اور سسٹم بدلنا ہوگا۔ ان نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ملکی قیادت میں حصہ سمیت پالیسیز میں اہمیت دینا ہوگی ورنہ یہ نوجوان سیاسی اور جمہوری عمل سے بدظن ہو کر بیرون ملک جاتے رہیں گے اور ملک ریٹائرڈ بزرگوں سے بھر جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

نئی بات

Facebook Comments

سيد بدر سعید
سب ایڈیٹر/فیچر رائیٹر: نوائے وقت گروپ ، سکرپٹ رائیٹر ، جوائنٹ سیکرٹری: پنجاب یونین آف جرنلسٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply