انسانیت کی بقا۔۔محمد وقاص رشید

کالا باغ سے اسکندرآباد کی سڑک اتنی مصروف نہیں تھی نہ ہی کوئی ٹریفک سگنل کہ ٹریفک جام ہو۔ ۔ یہ یقیناً کوئی حادثہ ہوا ہے ۔میں نے کہا، لگتا ہے کوئی ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور اسکے بعد ہمیشہ کی طرح کوئی جھگڑاوغیرہ ہو گا۔ یہ بات عمومی مشاہدے میں آتی ہے، کیونکہ ایک تو ہم اپنی غلطی تسلیم کرنے کے لیے تربیت یافتہ نہیں ہوتے دوسرا سڑک پر حادثے کی صورت میں بڑے شہروں یا شاہراہوں پر کوئی ہو تو ہو ،کم ازکم چھوٹے شہروں قصبوں میں تو بس”جسکی بھینس اسی کی لاٹھی ” ۔جی ہاں الٹ ہو گیا سب کچھ۔۔

خیر میں نے گاڑی روکی اور انتظار کرنے لگا۔ جب گھڑی کی سوئیاں چلتے چلتے میرے سر میں چبھنے لگیں تو اُتر کر آگے دیکھنے کے لیے گیا ۔ چند قدم چلا تھا تو بھیڑ چھٹنے لگی، اپنی طرف آتے دو لوگوں سے میرا کچھ یوں مکالمہ ہوا۔
میں: کیا تھیا ہائی بھرا ؟ (کیا ہوا تھا بھائی )
اجنبی: چلدے رکشے توں ہک زنانہ تلے ونج ڈھٹھی ہائی ۔ہک بال وی چاتی پئی ہائی شوہدی(چلتے رکشے سے ایک عورت سڑک پر گر گئی تھی ایک بچہ بھی اٹھا رکھا تھا)۔

میں: اوہو اللہ خیر کرے بچت تھئی اے
اجنبی: بچہ تاں بچ گئے پر زنانہ کافی سیریس دکھلیندی ہائی وچاری (بچہ تو بچ بالکل بچ گیا تھا لیکن خاتون کافی سیریس نظر آ رہی تھی)

میں: اوہو ولا کیا بنڑیں (اوہو پھر کیا ہوا) ؟
اجنبی:  اصل اچ ناں کلی ہائی تے نال رکشے وچ دوئیاں زناناں ہتھ نان لیندیاں ۔ ہک کار آلا رکیا ۔آدا ہائی ایکوں چا کے گڈی اچ پاؤ میں گھن وینداں ہسپتال۔۔  پر زنانہ ہتھ نان لیندیاں  (اصل میں خاتون اکیلی تھی اور رکشے میں موجود دوسری خواتین ہاتھ نہیں لگاتی تھیں ایک کار والا آکر رکا اس نے کہا اسکو اٹھا کر گاڑی میں ڈالو میں ہسپتال لے جاتا ہوں لیکن خواتین ہاتھ نہیں لگاتی تھیں) ۔

میں:  تساں کیوں نہ وے چیندے جے او اتنی سیریس ہائی ڈیکھدے وتے ہاؤ (آپ لوگوں نے  کیوں نہیں اٹھایا جب دیکھ رہے تھے کہ اتنی سیریس ہے بے چاری) ۔
دوسرا اجنبی:  ہنڑ کوئی مرد ہتھ کیویں لا سکدا ہائی صاحب۔ کوئی ہور مسئلہ بنڑا کھلا ہووے تا ول۔ ۔اساں بھئی ہتھ نہ ہم لا سکدے (کوئی مرد کیسے ہاتھ لگا سکتا تھا کوئی اور مسئلہ بن جاتا تو۔۔۔ہم ہاتھ نہیں لگا سکتے تھے بھائی ؟)

میں: ولا (پھر) ؟
پہلا اجنبی: ولا کافی دیر سڑک تے ای وتی رہی اے ۔۔  ولا کج گڈی آلے آپ ہمت کیتی کج اوندے نال جیہڑی زنانہ ہائی (بس پھر کافی دیر سڑک پر پڑی رہی۔ پھر اس گاڑی والے نے اور اسکے ساتھ ایک خاتون نے ہمت کی اور گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گئے)۔

میں شرم و حیا اور غیرتِ ایمانی سے بھرپور بلکہ لبریز ان عظیم مردوں میں اس گاڑی والے بے شرم اور بے غیرت آدمی کو ملنا چاہتا تھا ۔ دیکھنا چاہتا تھا کہ کہاں سے آیا ہے کس دنیا کا باسی ہے اسکی شکل کیسی ہے۔  یہ کیسا دکھتا ہے ۔ خلا سے سیدھا ضلع میانوالی میں آ گیا کیا؟  یا شرم و حیا سے عاری مریخ سے سیدھا کسی مشن پر اس حمیت و غیرت کے شاہکار علاقے میں آ نکلا؟

میں ان دونوں سے کہنا چاہتا تھا کہ مردانہ وقار کے ان عظیم سفیروں نے اسے گریبان سے پکڑ کر پوچھا کیوں نہیں کہ اسے یہ جرات رندانہ ہوئی کیسے کہ ہمارے علاقے کی ایک غیر محرم عورت کو ہاتھ لگائے۔ ۔بلکہ یہاں کی روایت کے مطابق اسے سیدھی گولی کیوں نہیں ماری اپنے علاقے میں غیرت مند کہلانے کے لیے کہ اس کو شرم نہیں آئی ایسا کرتے ہوئے؟ ۔ زندگی موت تو خدا کے ہاتھ ہے۔  ہمارے ہاتھ میں ہے اپنی خود ساختہ مردانہ غیرت اور ہم اس پر حرف آنے کی صورت میں خدا کا اختیار چھین لیتے ہیں۔  میں ان سے یہ بھی کہنا چاہتا تھا انہوں نے اس سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ وہ انکی طرح محتاط کیوں نہیں کہ اگر تو وہ مر گئی پھر تو ٹھیک ہے لیکن اگر مری نہ اور زندہ ہو کر اس نے یا اسکے کسی غیور مرد نے اس پر کوئی کیس کر دیا۔ ؟
یقیناً  اسکے ساتھ جو عورت تھی وہ بھی کوئی بے شرم سی عورت تھی۔۔۔ہو گی کوئی ماڈرن سی کوئی جینز پہننے والی ۔ کوئی پڑھ لکھ کر مادر پدر آزادی کا شکار جس نے اتنے مردوں کے سامنے پردہ داری جیسی ضروری ترین چیز کو نظر انداز کر دیا اور زندگی جیسی چھوٹی چیز کو بچانے کی کوشش کی۔۔ ۔زندگی۔۔۔۔ ہونہہ!

یہ سوچتے ہوئے میں گاڑی کی طرف بڑھا  اور اسے سٹارٹ کرتے ہوئے سڑک پر پڑے انسانی خون کے اوپر سے گاڑی گزارتے ہوئے واپس آ گیا۔ اس سر زمین پر جس نے ہماری جہالت کے داغ مٹانے کے لئے شاید ازل سے ابد تک بہتے رہنا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پسِ تحریر: پچھلے دنوں سائیکل پر سکول جاتی ایک بچی کی تصویر ستائشی کلمات کے ساتھ اپنی فیس بک پر شیئر کی  تو ایک صاحب نے کہا ہمارے معاشرے میں یہ معیوب سمجھا جاتا ہے۔  جب ان سے عرض کیا ہمارا معاشرہ کوئی معیار تو نہیں ۔ تو کہنے لگے ہمارا معیار اسلام ہے ۔ گزارش کی کہ فیصلہ کر لیجیے کہ اسلام معیار ہے یا ہمارا معاشرہ۔ اسلام نے تو ایک جان بچانے کو پوری انسانیت کی بقا قرار دیا ہے جبکہ یہاں اپنی جہالت بچانے کے لیے روز جانیں قربان کی اور کرائی جاتی ہیں ۔
خدا کرے وہ جان بچ گئی ہو اور اس انسانیت کی بقا پر منزلت عطا ہو اس گاڑی والے کو۔ واقعی یہاں بچی کھچی انسانیت ایسے ہی لوگوں کے دم سے ہے۔  اس سماج کے معیوب لوگ!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply