بڑا ڈپلومیٹک سا جواب آتا ہے کہ ہم سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کیسز اور سزا سے آگاہ ہیں اور اس کا جائزہ بھی لے رہے ہیں لیکن عدالت کی سنائی گئی سزا پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ ہر سیاسی جماعت کا اپنا مؤقف ہوتا ہے تو ہم اس جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتے۔ ہم پاکستان میں قانونی عمل میں مداخلت یا کسی ایک امیدوار کی حمایت نہیں کرتے۔
نجم سیٹھی نے مزید کہا کہ جیسے 2018 کے انتخابات میں جو کچھ ہوا تھا وہ سب کو پتا تھا، اسی طرح آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے البتہ جوتا اب دوسرے پاؤں میں ہے۔ پہلے کسی کو پڑ رہا تھا، اب کسی اور کو پڑ رہا ہے۔ اسی لیے دنیا کی پاکستان میں دلچسپی یہ ہے کہ یہاں استحکام آئے۔ انسانی حقوق کی کچھ تنظیمیں ضرور کہتی ہیں کہ ملک میں جمہوریت ہو اور قانون کی حکمرانی ہو۔ سب کو علم ہے کہ سپریم کورٹ جس حد تک آزاد ہو سکتی تھی اتنی ہے۔ تو ایسے میں اگر سپریم کورٹ کوئی متنازعہ فیصلے کر رہی ہے تو زیادہ لوگ اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ پاکستان کا مسئلہ ہے اور پاکستان اسے خود حل کرے۔ اسی لیے بین الاقوامی میڈیا میں اس پر زیادہ تبصرہ نہیں ہو گا۔ البتہ جو بین الاقوامی مبصرین پاکستان آئے ہوئے ہیں وہ اپنی رپورٹ ضرور لکھیں گے۔ انہوں نے تو بینظیر بھٹو کے قتل پر بھی بڑی جامع رپورٹ دی تھی کہ ان کا خدشہ کیا تھا اور انہیں شک کس پر تھا۔ وہ رپورٹ شائع بھی ہوئی تھی لیکن اس پر کچھ نہیں ہو پایا۔ تو ایسے ہی ہوتا ہے۔ الیکشن جیسے بھی ہوں گے انہیں قبول کر لیا جائے گا۔
پی ٹی آئی کے لیے امریکی حکومت کی حمایت حاصل کرنے کے لیے لابنگ فرم کی جانب سے کیے گئے کام کے اثرات کے حوالے سے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں لگتا کہ امریکی حکومت کی جانب سے پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی ہو۔ امریکی کانگریس کے اکا دکا ارکان کا پاکستانی حلقوں میں رابطہ ہے جو ان کے زیر اثر آ جاتے ہیں اور مختلف بیانات دے دیتے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ امریکی کانگریس کے اراکین یا سینیٹرز کی طرف سے کوئی بیان سامنے آ جائے تاہم اس کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں