نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں / مختار پارس

ایک تھے شیخ جی اور قسمت نے چھکا مارا اور وہ ہو گئے مالا مال ۔ دن ان کے ایسے پھرے کہ یکایک ریٹائر ہو گئے۔ یکایک اس طرح کہ شیخ جی پائلٹ تھے اور پٹرول مہنگا ہو گیا۔ شیخ جی افراط زر کے اضطراب میں کچھ اور تو نہیں کر سکتے تھے البتہ جب جہاز اوپر جاتا تھا تو اگنیشن آف کر دیتے اور جب طیارہ نیچے آنے لگتا تو انجن پھر چلا دیتے۔ حکام بالا نےآپس میں مشورہ کیا، کچھ پلاٹ اور بنگلے دے کر ہاتھ بھی ساتھ جوڑے اور گھر تک چھوڑ آئے ۔

اب کوئی اور کام تو تھا نہیں ، سر پر ٹوپی پہننے کی ویسے ہی عادت تھی، خشخشی سی داڑھی بھی رکھ لی اور نماز شروع کر دی۔ جمعہ پڑھنے گئے تو مولوی صاحب نے مالدار لوگوں کی جہنم میں آزمائش کا ایسا منظر باندھا کہ شیخ جی کو نماز بھول گئی ۔ واپسی پر اپنی نہ ملی تو کسی اور کی جوتی پہنے بھاگتے بھاگتے سڑک پار کی اور گھر آ کر بیگم کی گود میں سر رکھ کر ہانپنے لگے۔ بیگم نے بھی کانپتے کانپتے پوچھا کہ سرتاج آج خیر تو ہے، کہیں کسی فقیر نے آج کچھ زیادہ پیسے تو نہیں مانگ لیے؟ کہنے لگے، بیگم تم تو مجھے مدت سے جانتی ہو، میں تو کسی کو اپنا بخار بھی نہ دوں۔ کسی فقیر کی کیا مجال کہ صدا دے کر عصا لے ۔ بیگم بولی کہ پھر ایسا کیا ہوا ہے کہ آپ کے دل کی دھڑکن میری زبان کی طرح تیز چل رہی ہے۔ شیخ جی ہکلاتے ہوئے بولے کہ ‘مولوی صاحب مجھے بار بار دیکھ کر قبر کے عذاب کی تفصیلات بتا رہے تھے۔ آخر انہیں کس نے خبر کی کہ مجھے پنشن کی ٹیکس فری رقم مل گئی ہے؟’

بیگم بولی، صاحب! موت بر حق ہے اور امکانات یہ ہیں کہ خاک و خون میں لتھڑے ہوئے کارہائے نمایاں جو اس جہان بے ثبات میں آپ کے ساتھ لاحق رہے ہیں، وہی عدم آباد میں بھی جاری رہیں گے۔ مانا کہ آپ کے محکمے کے بیشتر افسران اور ماتحتان عرش بریں کے سب سے گرم حصوں میں موجود ہوں گے مگر کس کو خبر کہ وہاں کوئی ارض پاک بھی ہو گی یا نہیں۔ اگر وہاں آپ کو گارڈ آف آنر نہ ملا تو خدا جانے آپ کیا کریں گے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس دنیا میں آپ اپنی سب سے پیاری چیز قربان کرکےکوئی ایسا پورا یا ادھورا کام کر ڈالیں کہ جنت کے کسی حسین برزخ کے سامنے کوئی کارنر پلاٹ بک ہو جائے۔ شیخ صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد بذلہ سنج بھی ہو گئے تھے۔ بول اٹھے کہ ‘خدا جھوٹ نہ بلوائے بیگم، میری سب سے پیاری چیز تو تم ہی ہو۔’ بیگم جل کر بولی،’ اس ڈیفینس والے پلاٹ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس کو بیچ کر زلزلہ زدگان کے فنڈ میں دے دیتے ہیں اور دونوں میاں بیوی ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر جنت میں داخل ہوں گے انشاءاللہ ۔’

شیخ جی کو ساری بات سمجھ میں آئی یا نہیں مگر فٹ سے پوچھا، ‘زہے نصیب ! تو کیا اگلے پڑاؤ میں بھی میرے ہمراہ اقامت کا ارادہ رکھتی ہیں؟’ بیگم نے بھی جواب پہلے سے سوچ کر رکھا تھا۔ کہنے لگیں، حضور! میں نے رب سے گزارش کی ہے کہ ‘حور المقصورات فی الخیام’ کی سہولت آپ کو وہاں میسر نہیں ہو گی، آپ بھلا بہتر حوروں کے اخراجات کہاں برداشت کرتے پھریں گے۔ میں اس خیمے میں آپ کے ساتھ اکیلے رہوں گی۔’

شیخ جی کو پلاٹ بیچ کر نیکی کرنے کا مشورہ تو زہر لگا لیکن ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ کچھ کار خیر ایسا کرنا ہے کہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے ۔ بیگم نے بہت مشورہ جات دیے مگر مرد آخر مرد ہوتا ہے چاہے ریٹائرڈ ہی کیوں نہ ہو، وہ کسی زنانہ تجویز کو خاطر میں نہ لائے۔ خاتون نے کہا کہ عمرہ کر کے آتے ہیں تو شیخ جی ہنس ہنس کر دوہرے ہو گئے۔ آنکھ مار کر کہنے لگے ‘ نیک بخت سعودی عرب والے اپنی دکان بڑھا گئے ہیں۔ لوگ اب وہاں عمرے کرنے نہیں عمریں بڑھوانے جاتے ہیں۔’ بیگم نے استغفراللہ پڑھ کر کہا کہ پھر کسی مدرسے میں لاکھ دو لاکھ بھجوا دیں۔ انہوں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اتنے زور کی’ شی ‘ کی کہ بیگم ڈر کر دو فٹ دور کھڑی ہو گئی ۔ گویا ہوئے، ‘ اری جاہلوں جیسی باتیں کیوں کرتی ہو، تم اچھی طرح جانتی ہو کہ وہ غیبی امداد سے چلتے ہیں ۔ کسی نے سن لیا تو غیبی مدد یہاں بھی آ جائے گی۔’ وہ عورت جھینپ کر بولی ‘ تو پھر کچھ غریب بچوں کی شادیاں کروا دیجیئے ۔ حضرت نے جھرجھری لے کر کہا کہ بھلیے لوکے، کسی کو عذاب میں مبتلا کرنا کہاں کی نیکی ہے، کچھ اور بتاؤ۔’ بیگم نے تنگ آ کر کہا تو پھر محلے میں سادے پانی کی سبیل لگا لیں۔ کہنے لگے کہ’ ہاں یہ ٹھیک ہے، مگر پانی کا کنکشن ساتھ والوں کا استعمال کریں گے۔’

آخر سوشلزم پر ایک ہفتے کی تحقیق کے بعد شیخ صاحب نے پانچ نیکیوں کی فہرست تیار کی اور عمامہ باندھ کر گھر سے نکل گئے۔ شام کے بعد گھر واپس آئے تو حالت دیدنی تھی؛ حال پریشاں، بال پریشاں، دیدے پھاڑے، تار تار پیرہن، ایک جوتا ہاتھ میں، دوسرا تھا ہی نہیں اور ہنسی تھی کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ بیگم انہیں نہیں پہچان رہی تھی اور وہ بیگم کو نہیں پہچان رہے تھے۔ بیگم ان کو دیکھ کر رونے لگی اور وہ انہیں روتا دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔ ان کے تبسم پہ تبسم دیکھ کر جب بیگم نے ہنسنا شروع کیا تو وہ دھاڑیں مار مار کر آبدیدہ ہو گئے۔ جب طوفان کا زور کم ہوا تو بیگم نے ہچکیاں لیتے ہوئے پوچھا، سرکار آپ تو کچھ نیکیاں کرنے گئے تھے، ان کا کیا ہوا؟ صاحب کی بھی ہچکی بندھ گئی اور ہچکولے کھاتے ہوئے کہہ اٹھے، ‘ نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا، بیگم ۔’

بیگم نے اصرار کیا کہ بتائیں تو سہی آخر ہوا کیا ہے ۔ کہنے لگے کہ گھر سے اس ارادے سے نکلا کہ روزانہ یہ پانچ ایسی نیکیاں کرکے گھر کو لوٹوں گا جن پر ایک ٹکہ بھی خرچ نہیں ہوتا اور جنت میں گھر بن جاتا ہے۔ پہلی نیکی تھی کسی راہ چلتے اجنبی کو سلام کرنا۔ ایک شخص سامنے سے آ رہا تھا میں نے اسے خالص عربی لہجے میں لاحقے سابقے لگا کر سلام کیا تو اس نے میرا گریبان پکڑ لیا ۔ پوچھنے لگا کہ میں نے اسے سلام کیوں کیا ہے؟ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ بھیا بس ثواب کما رہا تھا مگر اس نے میری گردن دبوچ کر پوچھا کہ کیا تجھے گلی میں سلام کرنے کو میں ہی نظر آیا تھا؟ میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ مجھے ایک معزز اجنبی لگے تو میں نے سلام کر دیا۔ مگر اس نے ایک نہ سنی، مجھے کنپٹی پر ایک دوہتھڑ جڑ کر پوچھنے لگا کہ مجھے کس نے بھیجا ہے۔ وہ تو بھلا ہو مولوی صاحب کا، وہ گزر رہے تھے، انہوں بیچ بچاو کروایا اور اس کے کان میں میرا تعارف کروایا تو اس نے میری جان چھوڑی۔

وہاں سے کھنے سینکوا کر میں سڑک پر آ گیا۔ ٹریفک آ جا رہی تھی، بندے ٹر پھر رہے تھے، نشئی ہل جل رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ سڑک پر کچھ پتھر اور ٹوٹے ہوئے شیشے کے ٹکڑے پڑے ہیں ۔ مجھے یاد آیا کہ راستے میں سے رکاوٹیں ہٹانا بھی مفت کی نیکی ہے۔ میں نے جیسے ہی وہ پتھر اور کرچیاں اٹھانا شروع کیں، ساتھ والے گھروں کے دروازے کھلنا شروع ہو گئے اور ہر گھر سے کوئی کچرے کا لفافہ لا رہا تھا اور کوئی ٹوٹی بوتلیں اور کوئی آم کی گٹھلیاں۔ لوگ آتے گئے اور سوندھی سوغات کے لفافے میرے ہاتھ میں دیتے گئے۔ ایک بندے نے تو آ کر زور سے ٹوکری ایسے پھینکی کہ میں گڑ بڑا کر ہڑبڑا گیا اور جو کچھ ہاتھ میں لوگوں نے پکڑایا ہوا تھا ، وہ سب چاروں طرف بکھر گیا۔ ایک صاحب بولے کہ میاں آج ریڑھی نہیں لائے کیا؟ ایک اور نے آواز دی، ‘ابے تو کل کیوں نہیں آیا تھا؟ دیکھتا نہیں کتنا کچرا اکٹھا ہوا پڑا ہے۔’ میں نے ادھر ادھر دیکھا شاید مولوی صاحب ہوں تو تعارف کروا دیں مگر وہ کہیں نہ تھے۔ میں نے خاموشی میں لفافے اٹھا کر وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اب سمجھی کہ مجھے کیا ہوا؟

بیگم صاحبہ کو یہ سب سننے کے بعد جھرجھری طاری ہو گئی ۔ کہنے لگیں، ‘ خدا کی پناہ ! مگر یہ آپ کے کرتے کو کیا ہوا؟ یہ پاجامہ میں چھید کیسے ہیں؟ یہ جوتا ہاتھ میں کیوں اٹھا رکھا ہے اور دوسری پاپوش کہاں گئی؟ کہنے لگے کہ کچھ نہ پوچھو ! کما تو نیکی ہی رہا تھا، بس ذرا ٹائمنگ غلط ہو گئی ۔ میری مفت نیکیوں کی لسٹ میں ایک مسکرانا بھی تھا۔ ایک بھائی صاحب بازار میں کچھ سراسیمگی کے عالم میں جا رہے تھے ۔ مولوی صاحب نے بتایا تھا کہ مسکرانا بھی صدقہ ہے اور میں مسکرا دیا۔ میں مانتا ہوں کہ مسکراہٹ کچھ زیادہ ہو گئی تھی اور یہ کہ میں نے یہ نہیں دیکھا تھا کہ ان بھائی صاحب کی بیگم بھی ان کے ہمراہ تھیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس خاتون نے ان کے کان میں کیا کہا کہ وہ بھائی صاحب اچھل کر میری گردن پہ چڑھ دورے اور چیخ کر کہا ، بڈھے تیری بتیسی کا میں علاج کرتا ہوں ۔ میں اس کی بات کو سمجھ نہ پایا اور مسلسل وہی نیکی کرتا رہا۔ اس نے میرے کرتے پر ہاتھ ڈالا تو درگزر کر کے ایک اور نیکی کرنے کی کوشش کر لی۔ اس نے دشنام درازی کی پہلے ابتدا کی اور پھر انتہا کر دی مگر میں نے فیصلہ کیا کہ خاموش رہ کر ایک اور نیکی کر لوں۔ مگر جب اس کے ہاتھ میرے پاجامے تک پہنچے تو میں نے اپنی جوتی اتاری جو اس نے فورا” چھین لی اور میرے ہی سینڈل سے میری مزید خاطر مدارت کر کے مجھے مزید درگزر کرنے کا موقع بدرجہ اتم فراہم کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہاں سے بھاگم بھاگ یہاں تک پہنچا ہوں اور آج یہ جانا ہے کہ یہاں اس ارض پاک کی فانی دنیا میں نیکیاں کمانا بہت مشکل کام ہے۔ کتنی زیادتی کی بات ہے؟ ہم سلام کریں تو لوگ گریبان پکڑ لیتے ہیں۔ ھم راستے سے رکاوٹیں ہٹائیں تو لوگ ھمیں میونسپلٹی والا سمجھ لیتے ہیں۔ ھم مسکرا اٹھیں تو مخلوق یہ سمجھتی ہے کہ ھم ان کی عزت اچھال رہے ہیں۔ ھم خاموش رہیں تو پاجامہ تک اتار دیتے ہیں اور درگزر کریں تو ہماری پالش سے ہماری مالش شروع ہو جاتی ہے۔ بیگم ! میری مانو تو یہاں سے نکل لیتے ہیں ۔ آ کسی جزیرے پر جا کر اپنا گھر بناتے ہیں جہاں کوئی نیکی کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply