• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انسان کا کھتارسس/جورا اور مینجمنٹ کی قدیم اور جدید تعریف۔۔ اعظم معراج

انسان کا کھتارسس/جورا اور مینجمنٹ کی قدیم اور جدید تعریف۔۔ اعظم معراج

میں جب بھی ڈپلومہ ان رئیل اسٹیٹ مینجمنٹ کی کلاس میں مینجمنٹ کے سبق پر پہنچتا ہوں تو مینجمنٹ کی قدیم تعریف “ورک ڈن بائے ادرز ” دوسروں کا کیا ہؤا کام طالب علموں سے شیئر کرتے ہوئے،
ہمیشہ میرا دھیان اپنے بچپن کی ایک یاد کی طرف ضرور جاتا ہے۔اور پھر تیسری دنیا کے کاروباری ماڈل کی طرف نظر جاتی ہے۔تو یہ تعریف ایک سفاکیت کا منبع لگتی ہے۔ اور ہر طرف کامیاب کاروباری دولت کی پیداوار کے تین بنیادی عناصر میں سے تیسرے بنیادی عنصر کا بے دریغ استحصال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس کے بعد طالب علموں سے میں اپنے استاد ڈاکٹر سید ندیم احمد کی رٹائی ہوئی مینجمنٹ کی جدید اور جامع تعریف کے “مینجمنٹ مسلسل عمل ہے۔منصوبہ بندی،انتظام کاری، راہنمائی،اور اختیار کا شیئر کرکے اس مضمون کی رئیل اسٹیٹ مینجمنٹ کے طالب علموں کےلئے اس کی اہمیت کو بتا کر اس پر مزید بات ہوتی ہے۔لیکن قدیم تعریف پر بات ہوتے،اپنے بچپن کا ایک محلے دار،ساتھی دوست یاد ضرور آتا ہے۔ یہ ساتھی تھا جورا۔۔
نام تو اسکا شائد منظورِ تھا۔ لیکن ہم سب دوست اسے جورا کے نام سے جانتے تھے۔یہ ایک ملٹی ٹاسکر ٹائپ کا بچہ تھا۔ اسکے والد صاحب اسکے مطابق ریٹائرڈ فوجی تھے یقیناً این سی ای ہی ہونگے خاصے لمبے چوڑے اور بردبار قسم کے آدمی لگتے۔اسکی امی کو ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ سنا تھا بیمار رہتی ہیں ۔مجھے یہ بھی یاد نہیں کے اس کے والد کچھ کرتے تھے یا نہیں کیونکہ جورا باقاعدہ تھوڑے یا محدود وقت کے لئے ہڈی کانچ اور کاغذ بھی چنتا تھا اور ہم تقریباً  سب محلے دار بچے اسکول جاتے تھے۔اور بس فٹبال کھیلتے تھے یاں شہری ٹائپ اپنے سے بڑے دوستوں سے شہر کے قصے سن سن کر حیران ہوتے رہتے تھے۔ ہماری ایک دو گلیوں میں زیادہ تر وسطی پنجاب سے آئے ہوئے دیہاتی لوگ آباد تھے چند گھر ایسے تھے جو اندرون شہر کی گنجان آباد بستیوں میں سے اس نئی آباد ہوتی کھلی ڈلی آبادی اختر کالونی میں آباد ہوئے تھے۔

 گو کہ یہ گھرانے بھی وسطی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے ان میں سے چند تو وہ تھے جو قیام پاکستان سے پہلے ہی بڑے شہروں میں آباد تھے لیکن اور زیادہ تر وہ تھے۔جو قیام پاکستان کے بعد مغربی پنجاب میں مشرقی پنجاب سے آئے ہوئے مہاجرین کے اثرات کے مارے ہوئے مسیحی تھے جو قیام پاکستان فوراً بعد سے شہر وں میں آباد ہونا شروع ہوئےتھے۔ یا پھر ساٹھ کی دہائی سے آباد تھے ۔۔ ہماری عمریں دس سال کے آس پاس،تھی ،چند لیڈر ٹائپ کے شائد تیرہ  چودہ سال کے بھی تھے۔ اور ان شہری بچوں کے پاس ہم دیہات سےائے بچوں کو سنانے کے لئے بڑے قصے ہوتے تھے۔ جورا ایک بہت ہی میچور بچہ تھا۔ وہ ہمارے ساتھ کھیلتے ہوئے اچانک کہتا بھئی میں جارہا ہوں۔مجھے کھانا پکانا ہے۔ یا دوکان سے سودا لانا ہے۔ اب مجھے اپنی والدہ کو داوائی دینی ہے۔ وہ ایک پراعتماد،خود مختار بچہ تھا جب نکڑ پر قصے کہانیوں کا دور چلتا تو شہری بچوں کے قصوں میں سنسنی پھیلانے کے لئے جھوٹ کی آمیزش زیادہ ہوتی جب کہ جورے کے قصوں میں عملی عقل و دانش ہوتی۔ جبکہ مجھے یاد پڑتا ہے۔وہ اسکول بھی چھوڑ چکا تھا۔میں اسکی خود مختاری سے بہت ہی متاثر تھا۔ اور مجھے اس سے ہمدردی بھی تھی اور اسے اتنے کام کرتے دیکھ کر اسکے باپ اور آسکے بڑے بھائی پر بہت غصہ آتا تھا یہ بھائی جو شادی شدہ تھا اور ادھر ہی محلے میں رہتا تھا لیکن اسکا انکے ہاں آنا جانا نہیں تھا یا شائد بہت ہی کم تھا۔ ہمارے اس گروپ میں ایک لڑکا پرویز بھی تھا۔جو خاصا بڑا تھا۔ باقاعدہ پائی نما بچہ تھا شہری تھا اور غضب کا دروغ گو اور قصہ گو تھا۔ پورٹ کے قریب کی کسی بستی سے تعلق ہونے کی وجہ سے اس کے قصوں میں بین  الاقوامی ٹچ بھی ہوتا تھا۔ یہ چھوٹے بچوں سے مارپیٹ بھی کرلیتا تھا۔ ان دنوں شادی بیاہ یا اس طرح کی تقریبات گلی محلوں میں شامیانے اور قناتیں کی جاتی تھی ابھی پولٹری کی صنعت نے بھی یہ اودھ م نہیں مچایا تھا سنگل ڈش کھانا ہوتا اور اس میں بڑے کا گوشت ہی ڈلتا مجھے یاد ہے۔ایسی تقریباًت کے بعد گلیوں میں ہڈیوں اور بچے کچھے کھانوں کے ڈھیر ہوتے۔ جن میں ہڈیاں تو ہڈی کانچ چننے والے آٹھا لے جاتے۔باقی کتے بلیوں کی خوراک بن جاتا اور دوسرا کچرا جنکی تقریب ہوتی انہی کو صفائی کرنی ہوتی ۔ کے ایم سی کے عملے کو ہم نے کبھی اپنے علاقے میں نہیں دیکھا تھا۔ یہ عیاشی ہم نے پہلی بار ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے بنائے ہوئے بلدیاتی نظام کی بدولت پہلی بار اسی کی دہائی میں دیکھی ۔۔

ایسی ہی ایک تقریب کے بعد میں نے ایک دن ذرا خفیہ طریقے سے پرویز کو دبے دبے لفظوں میں جورے کو دھمکاتے دیکھا۔میں نے سن گن لی تو پرویز نے اس بات کو چھپانے کی کوشش کی لیکن جورے نے مجھے سب بتا دیا، کہ، ہؤا یہ تھا کہ پرویز نے جسکے گھر کہ سامنے تقریب ہونی تھی، اس نے جورے کو اطلاع دی کہ فلاں دن دعوت ہے۔ تم دوسرے پیشہ ور ہڈی کانچ چننے والوں کے آنے سے پہلے ہی ہڈیاں صبح صبح ہی اٹھا لینا یہ ایک بڑی دیہاڑی ہوگی، تم اس میں سے مجھے بھی پیسے دینا۔یہ طہ شدہ تھا لیکن اب جورا جو کہ ایک بااصول ،پر اعتماد،خود مختار قسم کا ایک ینگ بلکہ بچہ انٹرپرنیور تھآ وہ تو طہ شدہ حصہّ دینے پر راضی تھا لیکن پرویز جو کہ ایک جھگڑالو،موقع پرست قسم کا بچہ تھا وہ اب زیادہ کا مطالبہ کر رہا تھا۔مجھے اب یاد نہیں انکا فیصلہ کیا ہؤا لیکن پرویز اخلاقی طور پر دباؤ میں تھا کہ کسی کو پتہ بھی نہ لگے میرے حصّے کا اور
 جورے کا اعتماد کے میں تو یہ کام کرتا ہوں شرم کیسی۔
لیکن ساڑھےچار دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی مجھے بغیرِ سولہتوں کے محنت کشوں سے کام لیتا ہر ٹھیکدار اور تیسری دنیا کا ہر حکمران جو کاروباری حضرات کو صرف اشارتہ بتاتا ہے، کہ فلاں موقع ہے۔، اور اپنا حصہ لے لیتا ہے۔ وہ مینجمنٹ کی قدیم تعریف “ورک ڈن بائے ادرز” کے جورے اور پرویز ماڈل مینجمنٹ ماڈل پر عمل پیرا دکھتا ہے۔
لیکن تیسری دنیا میں جورے بہت کم ہیں ۔۔جو اپنے حق پر اڑ جائیں ۔اور ہر دوسری اشرفیائی مخلوق پرویز ہے۔۔

لیکن جہاں جہاں معاشروں نے ترقی کی وہاں مینجمنٹ کی جدید تعریف کے ساتھ ساتھ لوگوں نے مینجمنٹ میں انسانی فلاح کو اولیت دی وہاں یہ ماڈل معتارف ہوئے ۔جو قدرت اللہ شہاب نے آغا حسن عابدی کی گفتگو سے اخذ شدہ مینجمنٹ ماڈل کو شہاب نامے میں قلم بند کیا۔ اب میں یہ دونوں ماڈل طالب علموں کو بتا کر پوچھتا ہوں۔ کہ اپنے ہاتھوں میں سمٹی دینا میں اور اپنے آس پاس دیکھو جہاں جہاں مینجمنٹ کی قدیم تعریف کی بنیاد پر استحصالی طبقات جوروں کے طبقات کا استحصال کر رہےہیں وہاں کے معاشرے دیکھوں اور جدید تعریف میں انسانی فلاح کو اولیت دینے والے معاشرے دیکھ لو۔اور پھر فیصلہ کرنا اگر کبھی موقع ملا تو کون سا ماڈل اپنانا ہے۔
حاضر ہے شہاب نامے کا یہ اقتباس۔ شہاب نامے کا اقتباس حاضر ہے۔

“انہوں نے کوئی بلند بانگ دعوے کئے بغیر اپنے طریق کار پر بڑی فصاحت اورانکساری ان امور پرروشنی ڈالی، میرے لئے وہ کاروباری دنیا میں ایک  نئے اور اچھوتے انداز کا فلسفہ تھا۔ ان کی گفتگو سے میں نے جو تاثر لیا، وہ کچھ یوں تھا۔
بینک ہو یا فیکٹری کاروباری ادارے ہوں یا کمپنیاں ان میں سرمایہ کاری کا بنیادی مقصد منافع کمانا ہوتا ہے۔ منافع کی کمی بیشی اس ادارے کی کا میابی یا ناکامی کا واحد پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ پیمانہ صحیح نہیں۔ کامیابی کا اصلی راز اور اس امر کے ساتھ وابستہ ہے کہ ادارے کی انتظامی اور انصرام  کی امور کے افرادManagement مادی سرمایہ میں اخلاقی سرمایہ کس تناسب سے ملاتے ہیں۔ اگر یہ تناسب صحیح ہو تو انصرام میں مادی اور اخلاقی اقدار کا امتزاج ایک سچی کامیابی کو جنم دیتا ہے۔

منیجر کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی نفسیات میں پوری طرح گھل مل جائے یا ان کی نفسیات کو خود اپنی ذات کے ساتھ ہم آہنگ کر لے۔ اس عمل سے منیجر اور اس کے رفقاءالگ الگ فرد نہیں رہتے بلکہ ہر کوئی اپنی اپنی جگہ ایک ادارہ بن جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے انصرامی انتظامیہ کا بالادست گورننگ بورڈ صرف بورڈ روم کی چار دیواری میں مقید نہیں رہتا بلکہ سارے کا سارا بورڈ ہر سطح پر ایک فعال کارکن کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس عمل سے اختیارات کی مرکزیت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہر سطح پر اختیارات کا خود ا پنا مرکز بن جاتی ہے۔ اس بندوبست کی کامیابی کا گُر لامرکزیت ہے۔
منیجر میں محض فہم ہی نہیں بلکہ فراست کا بھی موجود ہونا لازمی ہے۔ اگر اس کی فراست حالیہ ماحول اور مقصدیت کے محدود دائرے سے نکل کر آگے پھیل جائے تو مستقبل کے امکانات کے علاوہ زندگی کا اعلیٰ مقصد بھی اس پر عیاں ہونے لگتا ہے۔ اس سے محدود مقصد اور لامحدود امکانات میں حقیقت پسندانہ توازن بھی قائم ہو کر ہ منیجر ناکام ہے جو اپنے سے بہتر اپنا جانشین تیار نہیں کرتا۔صرف مالی منافع کمانا کافی نہیں۔ اس کے ساتھ روحانی منافع کمانا بھی ضروری ہے۔
روحانی منافع صرف اس صورت میں وجود میں آتا ہے، جب ہم سچائی سے یہ کہہ سکیں کہ ہم نے اپنی جانب سے دیا تو زیادہ ہے اور دوسروں  سے حاصل کم کیا ہے۔
روحانی منافع عجز اور انکساری کو فروغ دیتا ہے اور دل میں دوسروں کو دینے کی اُمنگ ابھارتا ہے۔ دینا ذات الہی کی صفت ہے۔ اس صفت کو اپنانے سے قلب، ضمیر اور روح میں ایک عجیب سانور جگمگانے لگتا ہے۔”

 

شہاب نامہ سے اقتباس پرویز اسٹائل مینجمنٹ  یعنی قدیم مینجمنٹ  اور جدید مینجمنٹ دونوں ماڈل اس وقت دنیا میں رائج ہیں ۔ترقی یافتہ ممالک میں جب جورے تنگ آگئے تو انھوں نے اپنے معاشروں کے پرویزوں کو شٹ اپ کال بلکہ کہیں گولیاں کھائیں، کہیں گولیاں ماری ، کہیں گلوٹلین چلائے ،کہیں محل جلائے لیکن پرویزوں کو یہ میسیج دیا۔۔ کہ ،جیڑا ب یجے او ای وڈے “جو بوئے وہی کاٹیں” یا “ورک ڈن بائے ادرز” ہو لیکن کسی سلیقے سے ہو اجرت پوری ملے کام کرنے کا ماحول انسانی ہو۔ اور، جو کام کریں آجر انکا خیال کریں۔ بلکہ اب تو پہلی دنیا کے پرویزوں کو جوروں کا اتنا خیال کرنا پڑ رہا ہے۔کہ وہ تیسری دنیا کے پرویزوں کے زریعے سے جوروں سے کام لے رہے ہیں۔ اور مقامی پرویزوں نے انھیں ایسا جن جپھا لگایا ہوا ہے۔کہ خدا کی پناہ اس لئے تیسری دنیا ک جورے جب تک ان پرویزوں سے جان نہیں چھڑاتے یہ کھیل ایسے ہی جاری رہے گا ۔۔ پرویز اشارے کرتے رہے گے۔۔ اور جورے ہڈیاں اکھٹی کرکے بیچ کر ان کے خزانے بھرتے رہیں گے۔

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply