سزا نہیں ،علاج کروائیں /چوہدری عامر عباس

آج اخبار کے سرسری جائزہ کے دوران میری نظریں اس خبر پر آ کر رُک گئیں۔ خبر کے مطابق نبوت کے جھوٹے دعویدار کو عدالت نے میڈیکل رپورٹس اور شواہد کی روشنی میں فاتر العقل اور نفسیاتی مریض قرار دے کر اس کا مناسب علاج کا بندوبست کرنے کا حکم دیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے یہ ایک جرات مندانہ اور لینڈ مارک فیصلہ دیا ہے جس کے بہت مثبت اور دور رس نتائج ہونگے۔ میرا گمان ہے کہ نفسیاتی امراض پر جتنا میں نے لکھا ہے اتنا شاید بہت کم لکھاریوں نے لکھا ہو گا۔

نفسیاتی امراض میں بائی پولر ڈس آرڈر ایک وسیع تر اصطلاح ہے۔ قدرت نے دماغ کا توازن برقرار رکھنے کیلئے دماغ کے اندر مختلف کیمیکلز کا بندوبست کر رکھا ہے ہر کیمیکل مخصوص مقدار میں پیدا ہوتا ہے لہذا یہ تمام کیمیکلز مل کر دماغ کا توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ بائی پولر ڈس آرڈر میں ان کیمیکلز میں عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے جس سے دماغ انسان کے کنٹرول میں نہیں رہ جاتا اور سوچنے کی رفتار بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس کی مثال یوں لیجیے  کہ موٹر سائیکل کی اوسط سپیڈ ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے لیکن اگر آپ اس کی رفتار تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ تک کر دیں گے تو کیا ہو گا؟ بائی پولر ڈس آرڈر میں یہی حساب ہمارے دماغ کا ہو جاتا ہے۔ میں مختصراً عرض کروں تو اس بیماری میں ایک شخص کے اندر بہت سی دماغی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ ان کا دماغ ضرورت سے زیادہ کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے اکثر مریض خود کو ایک ہزار انسانوں سے زیادہ طاقتور سمجھتے ہیں وہ خود کو انسان نہیں بلکہ کوئی اور اعلیٰ و ارفع مخلوق سمجھتے ہیں۔ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔ اس کا مریض سمجھتا ہے کہ پوری دنیا کا نظام میں نے اٹھا رکھا ہے۔ بعض مریض نعوذ باللہ خود کو خدا سمجھتے ہیں۔ اس بیماری کا مریض مختلف آوازیں سنتا ہے اور سمجھتا ہے کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ اس سے ہم کلام ہے اسی وجہ سے اس کے مریض   نعوذ باللہ نبی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہیں سے معاشرے میں عدم توازن کی فضا پیدا ہونا شروع ہوتی ہے۔ اردگرد کے لوگ اسے جھوٹا نبی قرار دے کر یا تو قتل کر دیتے ہیں اور یا پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں۔

اس حوالے سے  عوام کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ ہر نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والا مجرم نہیں ہوتا ،زیادہ تر لوگ نفسیاتی مریض ہی ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے ایسے ملزمان کا کنسلٹنٹ سائیکاٹرسٹس اور سائیکالوجسٹ پر مشتمل ایک پینل کے ذریعے نفسیاتی امراض کی تشخیص کروانے کی ازحد ضرورت ہے کہ آیا یہ ملزم کسی نفسیاتی عارضے کا شکار تو نہیں ہے کیونکہ اس مریض کا اپنی سوچوں پر کنٹرول نہیں ہوتا۔ اگر وہ ملزم نفسیاتی مریض ثابت ہو جائے تو انھیں سزا دینے کے بجائے انکے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے مریض کو گھر سے نکلنے مت دیجیے ،ورنہ خدانخواستہ اسے کوئی قتل کر دے گا۔ میڈیکل سائنس میں یہ باقاعدہ ایک ثابت شدہ بیماری ہے میں خدانخواستہ کسی کا دفاع نہیں کر رہا۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس سب کی نوبت کیوں آتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی نصف آبادی مختلف نفسیاتی عوارض کا شکار ہے جنہیں علاج کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ ساری زندگی نفسیاتی بیماریوں سے لڑتے رہتے ہیں مگر علاج کی طرف جانے سے شرماتے ہیں۔ ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ لوگ سائیکاٹرسٹ کے پاس جانے سے بہت کتراتے ہیں۔ شرماتے ہیں کہ لوگ ہمیں پاگل کہیں گے۔ بہت عجیب رویہ ہے یہ جس ٹیبو کو توڑنے کی ضرورت ہے۔ نزلہ زکام کھانسی بخار پیٹ درد کی طرح ڈپریشن ،ٹینشن ،اینگزائٹی اور فرسودہ خیالات بھی باقاعدہ بیماریاں ہیں جن کا دیگر امراض کی طرح مستقل مزاجی سے علاج کروانے کی ضرورت ہے۔ یورپی ممالک میں دیکھیں تو وہاں سائیکاٹرسٹ بھاری فیسیں لیتے ہیں اور اگر کسی فرد کو کوئی نفسیاتی مسئلہ ہو تو وہ فوری طور پر سائیکاٹرسٹ سے رابطہ کرتے ہیں تاکہ بیماری جلدی پکڑ میں آ جائے علاج کا دورانیہ کم ہو۔ لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے یہاں نفسیاتی بیماری کو اوّل تو کوئی بیماری ہی نہیں سمجھتے۔ اگر سمجھیں بھی تو نفسیاتی امراض میں مبتلا لوگوں کو بہانے باز یا محض پاگل کہنے پر ہی اکتفا کرکے اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔ یہی ہماری سوسائٹی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے سائیکاٹرسٹ سے علاج کروایا مگر مریض مکمل ٹھیک نہیں ہوا۔ یہ بھی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ نفسیاتی علاج ذرا طویل عرصے تک چلتا ہے اور مریض کے لائف سٹائل میں بھی تبدیلی لانا پڑتی ہے۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں۔ ہوتا کیا ہے کہ علاج شروع کرنے کے دو چار ہفتوں میں مریض بھلا چنگا ہو جاتا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اب مریض مکمل ٹھیک ہو گیا ہے لہٰذا دوا دینا بند کر دیتے ہیں یا بروقت دوا نہیں دیتے یا ازخود دوا کی خوراک میں کمی بیشی شروع کر دیتے ہیں جس سے بیماری دوبارہ لوٹ آتی ہے اور دورے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر کیلئے علاج کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ان عادات کی وجہ سے مرض مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے اور ادویات بدل کر مزید زیادہ طاقتور دینا پڑتی ہیں۔

بہت سے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ سائیکاٹرسٹ جان بوجھ کر علاج طویل کرتے ہیں تاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ فیسیں اکٹھی ہوں اور انکا مریض مستقل رہے۔ یہ آپکی انتہائی سطحی، فرسودہ اور فضول سوچ ہے جس کا حقیقت سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ میں آپ کو ایک بات پوری دیانتداری سے بتاؤں۔ کسی بھی دماغی مسائل کے شکار مریض کیلئے اللہ کے بعد دنیا میں اگر کوئی مخلص ہستی ہے تو وہ اسکا سائیکاٹرسٹ ہوتا ہے۔ وہی مسیحا ہے۔ نفسیاتی علاج کیلئے سائیکاٹرسٹ کے علاوہ آپکے پاس کوئی دوسری آپشن ہی نہیں ہے۔ کوئی سائیکاٹرسٹ یہ نہیں چاہتا کہ اس کا مریض مکمل شفا یاب نہ ہو۔ دماغی امراض دراصل دماغ کے اندر موجود کیمیکلز اور ہارمونز میں خلل پڑنے کا نام ہے۔ ایک سائیکاٹرسٹ جب علاج شروع کرتا ہے تو ادویات شروع کرنے کے بعد چند روز میں ہی مریض ٹھیک ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا لوگ دوا چھوڑ دیتے ہیں یا دوا لینے میں کوتاہی کرتے ہیں جس سے علاج کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو پاتے۔ نفسیاتی علاج ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اسے طویل عرصے تک کروانا پڑتا ہے اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہے ورنہ بیماری دوبارہ لوٹ آتی ہے۔ مگر لوگ کیا کرتے ہیں کہ چند دن میں مریض مکمل ٹھیک ہو جاتا ہے تو دوائی لینا ترک کر دیتے ہیں یا ازخود دوا میں کمی بیشی شروع کر دیتے ہیں جس سے مریض کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔ اپنی کمی کوتاہی اور غلطیوں کا ملبہ اپنے سائیکاٹرسٹ پر ڈال دیتے ہیں کہ مریض ٹھیک نہیں ہو رہا اور ڈاکٹر علاج کو جان بوجھ کر طویل کر رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نفسیاتی مریض کے عزیز و اقارب کا مریض کی صحتیابی میں کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ کسی بھی نفسیاتی مرض کی صورت میں بلا جھجک فوری طور پر اپنے قریبی سائیکاٹرسٹ سے رابطہ کیجئے۔ علاج شروع کیجئے علاج کے دوران اپنے ڈاکٹر سے رابطہ میں رہیں اور انکی ہدایات پر عمل کیجئے۔ ڈاکٹر پر شک مت کیجئے بروقت دوا لیں۔ علاج مکمل کیجئے ادویات میں ازخود کمی بیشی مت کیجئے۔ جب تک ڈاکٹر علاج جاری رکھنے کا کہے اپنا کورس لازمی مکمل کیجئے۔ ایسی صورت میں علاج میں کامیابی یقینی ہے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply