بہتر سال پرانی بیماری۔۔۔یاسر پیرزادہ

ہمارے ایک دوست ہیں، عمر تو اُن کی زیادہ نہیں مگر انہیں بیمار رہنے کا بہت شوق ہے، روزانہ خود کو ایک نئی بیماری کا شکار بتاتے ہیں اور پھر خود تشخیصی نظام کے تحت اپنے لئے دوا تجویز کرکے اُس کا بے دھڑک استعمال شروع کردیتے ہیں، دو دن میں جب دوا کا شوق اتر جاتا ہے تو نہایت بیزاری سے دوا کی شیشی اپنے تھیلے میں پھینک کرکے کہتے ہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اُن کا تھیلا اب ایک چلتا پھرتا میڈیکل اسٹور بن چکا ہے۔ کبھی کبھار وہ حقیقت میں بیمار ہو جاتے ہیں، اُس صورت میں بھی وہ دوا کا استعمال سنجیدگی سے نہیں کرتے ہیں، جب افاقہ نہیں ہوتا تو باامر مجبوری ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور پھر بمشکل پانچ سات دن تک اینٹی بائیوٹک کھانے کے بعد انہیں آرام آتا ہے۔ ہماری قوم کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے، بےشمار بیماریاں ہمیں لاحق ہیں اور آئے دن ہم اِن کا علاج دریافت کرنے کے چکر میں مختلف قسم کی دوائیاں تجویز کرتے رہتے ہیں۔ فرسودہ طرزِ حکمرانی ٹھیک کرنے کے لئے ہم نے مارشل لا کی اینٹی بائیوٹک چار مرتبہ کھائی، شروع شروع میں لگا جیسے یہ دوا ہمیں راس آ گئی ہے مگر کچھ ہی عرصے بعد ایسا ری ایکشن ہوا کہ بازو کاٹنا پڑ گیا، اس کے باجود ہمیں عقل نہ آئی اور ہم نے دوا کا استعمال جاری رکھا، نتیجے میں ملک اس قدر لاغر ہو گیا کہ نام نہاد اینٹی بائیوٹک چھوڑنا پڑی۔ اسی طرح دیگر سماجی اور اخلاقی بیماریوں سے نجات کے لئے بھی ہم مختلف حکیمی نسخے استعمال کرتے رہتے ہیں، مثلاً کبھی ہم ایماندار لیڈر کی ’’پھکی‘‘ کھانے کے بعد سمجھتے ہیں کہ اب کرپشن سے معدہ خراب نہیں ہوگا، کبھی کوئی ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہمیں بتاتا ہے کہ سیاست نہیں ریاست اہم ہوتی ہے اس لئے ملک بچانے کے لئے آئین کو انستھیزیا دے دینا چاہئے، کبھی ایک سرجن باہر سے آ جاتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ ملک کو عمل جراحی کی ضرورت ہے، ہم اُس سے اپنا آپریشن کروا لیتے ہیں بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ درد کمر میں تھی اور وہ گردہ نکال کر لے گیا۔ غرض اِن بہتر برسوں میں ہم نے ہر قسم کے حکیم، ڈاکٹر، طبیب اور جراح آزما لئے مگر ہمیں آرام نہیں آیا، لاقانونیت سے پورے جسم میں ٹیسیں اٹھ رہی ہیں، اخلاقی سلپ ڈسک نے ریڑھ کی ہڈی کے مہرے ہلا دیے ہیں، سماجی بد پرہیزی نے معدہ کمزور کر دیا ہے، عظمت رفتہ کی سگریٹ نوشی سے دل کی شریانیں بند ہو چکی ہیں، انتہا پسندی کی شراب نے گردے فیل کر دئیے ہیں، بدعنوانی کی قبض نے برا حال کر رکھا ہے اور آئین کی خلاف ورزیوں نے تو گویا دماغ پر مستقل اثر ڈال دیا ہے۔ ہم روزانہ ایک نظر اپنے بیمار جسم پر ڈالتے ہیں اور پھر حسرت سے دوسروں کو دیکھتے ہیں، کوئی یورپ کے باغ میں دوڑ لگا رہا ہے تو کوئی ایشیا میں ورزش کی تیاری کر رہا ہے، ہم سوچتے ہیں کہ آخر ہم ان جیسے کیوں نہیں بن سکتے! اس سوال کا جواب جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم انسانی نفسیات کے ایک تصور سے آشنا ہوں، اس تصور کو انگریزی میں Bounded Rationality کہتے ہیں، اردو میں اِس کا ترجمہ ’’محدود عقلیت‘‘ کیا جاسکتا ہے۔
ایک خود کُش بمبار جب اپنے ہدف کی طرف جاتا ہے تو راستے میں وہ بالکل نارمل انسان کی طرح برتاؤ کرتا ہے، وہ کسی سے لڑتا جھگڑتا نہیں، دائیں بائیں دیکھ کر سڑک پار کرتا ہے، اسے علم ہوتا ہے کہ کس بس میں بیٹھ کر کون سی جگہ اترنا ہے، گویا وہ تمام کام اپنی عقل کے مطابق درست طریقے سے سر انجام دیتا ہے مگر جونہی وہ اپنے ہدف پر پہنچتا ہے تو خود کو دھماکے سے اڑا لیتا ہے جس کے نتیجے میں اُس کی اپنی جان تو جاتی ہی ہے ساتھ میں کئی بے گناہ لوگوں بشمول عورتوں اور بچوں کی جان بھی چلی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اِس فعل کی کوئی عقلی توجہیہ نہیں دی جا سکتی ہے کیونکہ اُس شخص نے ایک دائرے میں خود کو پابند کرکے محدود ذہن کے ساتھ فیصلہ کیا کہ وہ خود کُش دھماکہ کرے گا، اس عمل کو محدود عقلیت کہتے ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شخص کسی طرح یہ رائے قائم کر لے کہ پارٹی الف ہی ملک کو مسائل کے گرداب سے نکال سکتی ہے لہٰذا اُس نے پارٹی الف کی حمایت کرنی ہے، ایسا شخص لاشعوری طور پر خود کو پارٹی الف کی حمایت کے دائرے میں محدود کر لے گا، اُس کی عقلیت پسندی اب اِس دائرے میں سمٹ آئے گی، آپ جتنی بھی موثر دلیلیں دیں وہ اِس دائرے سے باہر نہیں جائے گا البتہ دیگر معاملات زندگی میں وہ بالکل ایک دانشمند شخص کی طرح برتاؤ کرے گا، اپنا اچھا برا دیکھ کر فیصلہ کرے گا، نوکری پیشہ ہوگا تو نوکری ٹھیک کرے گا، کاروباری ہوگا تو کاروبار بھی دانا شخص کی طرح کرے گا مگر جونہی آپ اسے دائرے سے باہر لے جانے کی کوشش کریں گے اُس کی عقلیت پسندی محدود ہو جائے گی۔ ہماری قوم کا بھی یہی مسئلہ ہے، ہم نے خود کو مختلف دائروں میں بند کر رکھا ہے اور اُن سے نکلنے کے لئے تیار ہی نہیں، بطور قوم جو بیماریاں ہمیں لاحق ہیں وہی بیماریاں یورپی اقوام کو بھی لاحق تھیں، یورپ نے تاریک ادوار سے نکلنے کے لئے ایک طویل جنگ کی جس میں کئی تاریخی موڑ آئے، مثلاً پہلے انہوں نے رومن کیتھولک چرچ کے اختیارات محدود کیے پھر تہذیبی اصلاحات کیں، پھر دو اڑھائی سو سال تک سائنس اور فلسفے پر کام کیا، ان کے فلسفیوں نے انقلابات کی بنیاد رکھی، صنعتی انقلاب برپا کیا، دنیا پر غلبہ حاصل کیا، اس سے فراغت ہوئی تو شخصی آزادیوں کی تحریک شروع کی، عورتوں کے حقوق یقینی بنائے، اقلیتوں کو تحفظ اور برابر کا احترام دیا اور سب سے بڑھ کر فرد اور ریاست کے مابین سوشل کنٹرکٹ کو وہ تقدس دیا جسے پامال کرنے کا آج کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ سب ’’دوائیاں‘‘ انہوں نے استعمال کیں تو آج وہ تندرست اور توانا ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ حکیم کی ایک پھکی سے آرام آ جائے، یہ ممکن نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply