چل میلے نوں چلیے/پروفیسر رفعت مظہر

آج کل پاکستان میں میلے کاسا سماں ہے۔ یوں تو وطنَ عزیز میں میلوں ٹھیلوں کا رواج تقریباََ ختم ہوچکا اور میلے دیکھنے کی ہماری عمر بھی نہیں لیکن سیاسی میلے لگتے ہی رہتے ہیں اور ہم ٹی وی سے جُڑ کر لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ سیاسی اجتماعات میں جانے کی ہمت اِس لیے نہیں ہوتی کہ پھینٹی کا ڈَر ہوتا ہے البتہ اِن سیاسی میلوں نے ہمیں کچاپکا سیاستدان ضرور بنا دیا ہے۔ حیرت اِس بات پر ہے کہ ہم سیاسی کالم لکھ لکھ کر تھک بلکہ “ہَپھ” گئے لیکن ابھی تک کسی سیاسی جماعت کی ہمارے ارسطوانہ تجزیوں پر نظرپڑی نہ پیشین گوئیوں پر۔

ہمارے کالموں کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں، وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ کم ازکم لال حویلی والے سے ہماری سچی پیشین گوئیاں کہیں زیادہ ہیں حالانکہ ہمارے پاس کوئی فال نکالنے والا طوطا ہے نہ “خبری چڑیا”۔ اگر اِن سیاسی جماعتوں میں سے کوئی جماعت ہوش کے ناخن لیتی تو ہمیں کم ازکم قومی اسمبلی کے ٹکٹ سے تو نواز ہی دیتی۔ ہم نے یہ بھی سوچا تھا کہ آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروا دیں اور پھر کسی کے حق میں کاغذاتِ نامزدگی واپس لے کر پیسے کھرے کرلیں لیکن میرے میاں نے منع کردیا۔ اُن کا خیال تھا کہ کسی اُمیدوار سے پیساویسا تو ملنا نہیں البتہ الیکشن کمیشن کو جمع کروائے گئے 30ہزار روپوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے۔

بات میلوں ٹھیلوں کی ہورہی تھی لیکن نکل دوسری طرف گئی، آمدم بَرسرِمطلب آجکل پاکستان میں سیاسی میلوں کی بھرمار ہے۔ ہرطرف بینرز اور ہورڈنگز کی بھرمار ہے جن پر بڑے دِل خوش کُن نعرے اوروعدے درج ہیں۔ حقیقت یہ کہ یہ وعدے وعید صرف الیکشن تک ہوتے ہیں پھر تُو کون میں کون۔ ہمیں یادہے کہ 2018ء کے انتخابات سے پہلے ایک مقبول رَہنماء نے ایک کروڑ نوکریاں دینے، 50 لاکھ گھر بنانے اور 90 دنوں میں ملک کی تقدیر بدلنے کا اعلان کیاجس پر ہم نے یہ لطیفہ لکھا۔

ایک بلّی کو بھوک لگی تھی اور اُس کے سامنے بِل میں چوہا بیٹھاتھا جو باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ تب بلی کو ایک ترکیب سوجھی۔ اُس نے چوہے کو مخاطب کرکے کہا “بھانجے! اگرتم اِس بِل سے نکل کر اُس بِل میں چلے جاؤ تو میں تمہیں 5سو روپے دوں گی”۔ چوہے نے لالچ میں آکر پہلے توسَر باہر نکالا لیکن پھر فوراََ ہی اندر کرلیا۔ بلی نے پوچھا “بھانجے! کیاہوا؟”۔ چوہا بولا “خالہ! پینڈا تھوڑا تے پیسے بوہتے، کوئی چکر اے”۔ پھر وہی ہوا، وہ مقبول رَہنماء کوئی ایک وعدہ بھی ایفاء نہ کرسکا اور اُس کے پیروکاروں کے خواب ادھورے رہ گئے۔

آجکل ایک نَودمیدہ رَہنماء بھی ایسے ہی وعدے کر رہا ہے لیکن زیادہ لمبی لمبی چھوڑنے کی بجائے نسبتاََ کم لمبی چھوڑ رہا ہے۔ وہ کہتاہے کہ اُسے صرف ایک بار وزیرِ اعظم بنا دو تو وہ تنخواہیں ڈبل کرے گا، 3 سو یونٹ بجلی مفت دے گا، کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دے گا، 30 لاکھ نئے گھر اور کسان کارڈ بنا کر دے گا۔ یہ سب کچھ اُس کے منشور کا حصہ ہے جسے کتابی شکل میں وہ جگہ جگہ لہراتا پھرتا ہے۔ اُس کے نانا مرحوم نے بھی 50 سال پہلے روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ کیا لیکن اُس کی جماعت کو 4 بار حقِ حکمرانی ملنے کے باوجود تاحال یہ وعدہ تشنۂ وفا ہے۔ اب نواسا بھی ایسے ہی دل خوش کُن نعروں کے ساتھ سیاسی میلے میں ہے۔

سوال مگریہ ہے کہ اب جبکہ پاکستان ڈیفالٹ کے کنارے پر ہے اور حکمران کشکولِ گدائی تھامے دَربدر، مہنگائی کا عفریت ہرکہ ومہ کو نگلنے کو تیار، یوٹیلٹی بلز قیامت ڈھاتے ہوئے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پہنچ سے باہر اور معیشت کا پہیہ جام تو ایسے میں مفت بجلی، 30 لاکھ گھر، دگنی تنخواہیں اور کسان کارڈ وغیرہ کا پیسہ کہاں سے آئے گا؟ کیا آسمان سے ہُن برسے گا یا زمین اپنے سارے خزانے اُگل دے گی؟ مریم بی بی نے بجا طور پر اُس نوآموز سیاستدان کو مخاطب کرکے کہا کہ اُس کو ایک صوبے میں 15 سال تک متواتر حکومت ملی، کیا وہ اُس صوبے میں 15 منصوبے بھی گنوا سکتا ہے؟ پھر مریم نوازنے کہا کہ میاں نواز شریف کو 3 بار وزارتِ عظمیٰ ملی لیکن اُس کا کُل دورانیہ محض 8 سال رہا۔ وہ اُن 8 سالوں میں نواز شریف کے 15سو منصوبے گنوا سکتی ہے۔

نوجوان سیاستدان یہ بھی کہتاہے کہ وہ آزاد جیتنے والے “گھوڑوں” کو ساتھ ملا کر حکومت تشکیل دے گا لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتاکہ آزاد جیتنے والے بے پیندے کے لوٹے ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اُدھر ہی لُڑھکتے ہیں جدھر کی ہواہو۔ حقیقت یہی کہ اب کی بار ایک دفعہ پھر ہواؤں کا رُخ نواز لیگ کی طرف ہے اور اقوامِ عالم کی نظریں بھی میاں نواز شریف پر لگی ہیں۔

عالمی مالیاتی خبررساں ادارے “بلوم برگ” نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران میاں نوازشریف نے اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں بہترین معاشی کارکردگی دکھائی۔ رپورٹ میں کہا گیا “معاشی مشکلات میں نواز شریف نے پی ٹی آئی اور پی پی سے بہتر کارکردگی دکھائی۔ وہ 8 فروری کو اقتدار کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ 6 ماہ میں نواز شریف کی مقبولیت میں 36فیصد اضافہ ہوا”۔ اگر اِس تجزیاتی رپورٹ اور عالمی سرویز کو مدِنظر رکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ 8 فروری کے عام انتخابات میں نواز لیگ میدان مارلے گی لیکن فیصلہ تو بہر حال عوام نے ہی کرنا ہے۔

جب اپوزیشن اتحاد کو حکومت ملی تب اُس کے پلیٹ فارم سے بار بار یہ کہا جاتا رہا کہ اگلے 5 سالہ دَور میں بھی یہ اتحاد قائم رہے گا تاکہ ملک و قوم کی بہتری ممکن ہو سکے۔ حقیقت یہی کہ اِس وقت وطنِ عزیز دَورِ ابتلاء میں ہے اور ضرورت اِس امرکی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور اہلِ فکر و نظر ایک پلیٹ فارم پر سَرجوڑ کر بیٹھیں، تبھی بہتری کے کچھ آثار نظر آسکتے ہیں۔

حیرت ہے کہ جونہی نئے انتخابات کا ڈول ڈالا گیایہ اتحاد پارا پارا ہوگیا۔ پہل پیپلزپارٹی نے کی اور نوازلیگ کو موردِالزام ٹھہرانا شروع کر دیا۔ فی الحال تو نوازلیگ کے پلیٹ فارم سے طنزکے تیروں کی بوچھاڑ نہیں ہو رہی لیکن آخر کب تک؟ نوجوان بلاول کُرسی کے شوق میں اتنا بوکھلا گیا ہے کہ وہ بھی اب عمران خاں کی راہ پر چل نکلا ہے اور اُس کے خطابات اُسی ڈگر پر ہیں جیسے کبھی خاں صاحب کے ہوا کرتے تھے۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ میاں نوازشریف اور آصف زرداری جیسے کُہنہ مشق سیاستدان تاحال خاموش ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں مَیں اپنے قارئین کے سامنے یہ سوال چھوڑے جارہی ہوں کہ 8فروری کو ہم کسے ووٹ دیں؟ کیا اُس شخص کو جو ملک میں خوشحالی لایا، دہشت گردی ختم کی، سی پیک کا آغاز کیا، میٹروبس اور اورنج لائین چلائی، لوڈشیڈنگ ختم کی، دہشت گردی کا خاتمہ کیا، ملک میں اوورہیڈز، اَنڈرپاسز، اور رابطہ سڑکوں کا جال بچھایا، دانش سکولز، ہسپتال، کالجز اور یونیورسٹیاں بنائیں، ایٹمی دھماکے کیے، شاہین اور غوری میزائل لانچ کیے، جے ایف تھنڈر لانچ کیا، موٹرویز بنائیں اور مہنگائی کو کم کیا، یا پھر اُس کو جس نے اپنے پونے چار سالہ دَورِ حکومت میں ملک کو ڈیفالٹ کے کنارے تک پہنچایا، بین الاقوامی طورپر پاکستان کو تنہا کیا، کشمیر کا سوداکیا اور گالی گلوچ کی سیاست کورواج دیااور یا پھر اُس کو جو وزارتِ عظمیٰ کے شوق میں اتحادی سیاست کوپارہ پارہ کرنے کے درپے ہے۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply