سازش سنگین ہے یا غداری؟۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

جب سے تحریک انصاف کی حکومت بدلی ہے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر تسلسل کے ساتھ بیرونی سازش کا الزام لگایا جارہا ہے۔ اس بیانیے نے عمران خان کے دور کی غربت، مہنگائی اور بے روزگاری پر پردہ ڈال دیا ہے اور عمران خان اور ان کی جماعت اس بات کا اعتراف بھی کررہے ہیں کہ اس حکومت کی تبدیلی کے عمل نے ان کو عوام کے اندر سرخ رو کروا دیا ہے۔ اور اسی بنیاد پر وہ فوری انتخابات کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر فوری انتخابات ہوجاتے ہیں تو وہ جیت جائیں گے۔

انہوں نے اپنے مطالبے کے حق میں لانگ مارچ کی کال بھی دے دی تھی مگر حکومت کی حکمت عملی اور عوام کی عدم دلچسپی سے آزادی مارچ کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اس طرح ایک دفعہ تحریک انصاف کا زور دار دعویٰ سست روی کا شکار ہوتا ہوا دکھائی دینے لگا۔ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت اب بھی استعفوں پر بضد ہے مگر اسمبلی ممبران یکجہتی ظاہر کرنے سے قاصر لگ رہے ہیں۔

ایسے میں حکومت کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے۔ بلاشک و شبہ مہنگائی کی لہر نے عوام کی بے بسی کی انتہاء کردی ہے اور تحریک انصاف اس کو اپنی حمایت میں استعمال کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے مگر اس میں بھی ان کو عوام کی طرف سے کوئی خاطر خواہ تعاون نظر نہیں آیا۔ کیونکہ ابھی ان کی حکومت ختم ہوئے زیادہ وقت نہیں ہوا۔ اور عوام اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی پالیسیوں اور معاہدوں ہی کی وجہ سے موجودہ حکومت کو یہ سخت فیصلے کرنے پڑے۔

حکومت کو پریشانی ضرور ہے مگر ابھی بھی ان کی مقبولیت میں فرق نہیں پڑا۔ اگلے مہینے پنجاب میں ضمنی الیکشن بھی آگیا ہے جو تمام جماعتوں کی مقبولیت کا ایک ٹیسٹ ہوگا۔ اس میں عوام کی دلچسپی کا پتا چل جائے گا کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ ہیں یا موجودہ اتحادی جماعتوں کی حکومت کے ساتھ۔

ایک طرح کی الیکشن کی کمپین شروع ہو ہی چکی ہے۔ اور تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی چالیں چلنا شروع کردی ہیں۔ ایک دوسرے پر سنگیں الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ کوئی اسرائیلی کارڈ کھیل رہا ہے تو کوئی مذہبی ٹچ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک دوسرے کے بیانوں اور تقریروں میں سے قابل اعتراض باتوں، متنوں اور مفہوموں کو نکال نکال کر ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے ہورہے ہیں۔

آج حکومت نے عمران خان کے سخت خدشات میں سے ملک دشمنی کا مفہوم نکال کر ان پر غداری کا مقدمہ چلانے کے لئے باقائدہ قومی اسمبلی میں قراردار جمع کروا دی ہے۔ اور اس پر قومی اسمبلی میں تقریریں بھی ہوتی رہیں۔ ساتھ ساتھ عمران خان پر مقدمات درج ہونے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔

حکومت نے شروع میں مفاہمت اور مصالحت کے رویے کا اظہار کیا مگر تحریک انصاف کی طرف سے سخت اقدامات اور بیان بازی نے حکومت کو بھی مجبور کردیا کہ وہ ان کے بیانیے کا حساب برابر کرنے کے لئے اسی طرح کا رویہ اپناتے اور ایسے اقدامات اٹھاتے جو ان کو ان الزامات سے تحفظ فراہم کرتے۔ لہذا شائد اسی نقطہ نظر کے تحت آج انہوں نے کاروائی کا آغاز کردیا ہے۔

وفاقی وزیر ایاز صادق نے سنگیں خدشات کا اظہار کردیا “عمران خان نے دنیا میں کس کس کو راز دے دیے ہوں گے، لگتا ہے جو پاکستان کے خلاف نقشے بنائے گئے اس میں بھی یہ شامل تھے” اور ادھر پی اے سی کے چئیرمین نور عالم خان نے بھی عمران خان پر آرٹیکل 6 لگانے کا مطالبہ کردیا ہے۔

بظاہر تو لگتا ہے کہ یہ سیاسی کارڈ کھیلے جارہے ہیں مگر ان کو اگر آئینی اور قانونی نوعیت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو عمران خان صاحب کو اسے اتنا آسان بھی نہیں لینا چاہیے۔ جس طرح سے ان کا آئین کو آسان لینے کا رویہ رہا ہے۔ اسی روش کا مظاہرہ کیا گیا تو آنے والے وقت میں یہ ان کے لئے مشکل بھی بن سکتی ہے۔

پاکستان کی سیاست میں کسی بھی وقت ایسا موڑ آسکتا ہے جہاں اس طرح کے الزامات کے متعلق سنگین صورتحال اختیار کرنے کے امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا عمران خان صاحب کو چاہیے کہ وہ اب اسمبلیوں کا رخ کریں اور اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر وضاحت پیش کریں اور اپنی نیت کو واضح کرتے ہوئے اس کاروائی کو رکوائیں اس سے پہلے کہ یہ بس سے باہر ہوجائے۔

سابقہ صدر پرویز مشرف پر بھی اس طرح کی کاروائی کی گئی تھی اور بعد میں ان کو عدالت سے سزا بھی ہوگئی تھی۔ جسے تکنیکی طریقہ سے ختم کرتے ہوئے عدالت کو بھی غیر آئینی قرار دیا گیا تھا مگر اس کے خلاف اپیل اب بھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اور شائد مناسب وقت کا انتظار کر رہی ہے۔ اور کیا معلوم وہ مناسب وقت کس کو فائدہ دیتا ہے اور کس کو نقصان۔

تحریک انصاف کی طرف سے بیرونی سازش کے الزام پر صدر پاکستان نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا ہوا ہے کہ جوڈیشل کمیشن سے اس کی انکوائری کروائی جائے۔ اور ادھر حکومت نے غداری کے مقدمے کی کاروائی شروع کردی ہے۔

اب سازش اور غداری ایک دوسرے کے آمنے سامنے آن کھڑے ہوئے ہیں۔ دیکھتے ہیں کون زیادہ زور آور ثابت ہوتی ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ سیاستدانوں کو اس طرح کی آئینی حدود اور پاسداری سے متعلق تادیبی کاروائیوں کا آغاز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کوئی اچھی مثال نہیں ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں کچھ ایسی مثالیں ہیں جو کسی بھی ٹھوس نتیجے کے اخذ کرنے کے امکانات کو تذبذب میں ڈال دیتی ہیں۔ جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اعانت قتل کی دفعہ پر سزائے موت ہوئی جس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی اور اس کے بارے بعد میں ایسے انکشافات بھی ہوئے جس سے نظام عدل کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا مگر اس سے انسانی جان کے نقصان کا مداوا تو ممکن نہیں۔ اور نوازشریف کو محض اپنے بیٹے سے تنخواہ کے لئے جانے کا ذکر نہ کرنے پر وزارت عظمیٰ سے سبکدوشی کا سبب بن گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سیاستدانوں کو ہمیشہ سنجیدہ اور پختہ سیاست کرنی چاہیے جس سے نہ سیاسی قیادت کو نقصان ہو اور نہ ہی ملک و قوم کو رسوائی کا سامنا کرنے پڑے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply