• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اسٹیبلشمنٹ کراچی کو مجرموں کے حوالے نہ کرے۔۔سید عارف مصطفیٰ

اسٹیبلشمنٹ کراچی کو مجرموں کے حوالے نہ کرے۔۔سید عارف مصطفیٰ

   میرا یہ یقین اور پختہ ہوتا جارہا ہے کہ مصطفیٰ کمال ہوں یا فاروق ستار یا الطاف حسین ، سبھی ایک ہی جسم کے تین چہرے ہیں ، بخیے  ادھڑتے جارہے ہیں اندر کا آدمی باہر آرہا ہے اور کسی کو شک ہو یا نہ ، لیکن مصطفیٰ کمال کا لب و لہجہ تو پہلے ہی ان کے اندرون میں موجود وحشت کا پتا دیتا تھا لیکن امید یہ تھی کہ شاید وہ الطاف حسین کے انجام سے سبق سیکھیں گے اور ایک مختلف آدمی ثابت ہونے کی کو شش کرینگے ۔۔۔ لیکن افسوس عملی طور  پر وہ اس محاورے پہ پورا اترتے دکھائی دیتے ہیں ‌کہ جسکی رو سے نمک کی کان میں جانے والا بھی نمک ہی سا ہو رہتا ہے ۔اور پھر جبکہ معاملہ بھی دو چار دنوں کا نہیں 3 دہائیوں‌ سے بھی زیادہ کا ہو، جرائم کے ماحول میں لی گئیں سانسیں اور مل جل کے کیے گئے  جرائم ان کی کیمسٹری تک کو ویسا ہی بنا چکی ہیں اور وہی سفاکی اور بے رحمی جو مفرور لندن الطاف حسین کی طبیعت کا خاصہ تھی ان کے مزاج پہ بھی غالب ہے اور شاید اسی لیے  وہ اس شہر کو آگ اور خون کی نذر کردینے اور بھتوں اور تاوان  سے کاروبار کی کمر توڑڈالنے والے اپنے مجرم ساتھیوں کے لیے  بار بار عام اور کھلی معافی کا مطالبہ کرتے سنے جارہے ہیں۔
یہاں میں بات کو ایک اور پہلو سے آگے بڑھاتا ہوں اوربلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی آتشزنی کی بابت بات کرنے سے پہلے پی ایس پی کے سربراہ کے تیور اور طرز سیاست پہ اوران کے ایک حالیہ بے رحم مؤقف اور اس پہ جاری کردہ بیان کے حوالے سے عنایت علی خان کا یہ دلگداز شعر سن لیجیئے کہ جو کسی حد تک ایسی ذہنیت کا عکاس ہے
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر!
میرے ذہن میں اسی روز سے یہ شعر بڑی شدت سے گونج رہا ہے کہ جس دن مصطیٰ کمال نے بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری کی ساڑھے پانچ برس قبل ہوئی اس آتشزنی کو شارٹ سرکٹ کا نتیجہ قرار دے ڈالا تھا ۔ یہ آتشزنی کوئی معمولی نہ تھی کیونکہ اس کے مہیب شعلوں نے لگ بھگ پونے تین سو جیتے جاگتے انسان جلاکے راکھ کردیے  تھے اور جس کی اب سائنسی طور پہ کی گئی جدید فول پروف تحقیق یعنی فارنسک جانچ کی رپورٹ بھی آچکی ہے کہ جس میں واضح اور صاف الفاظ میں بتادیا گیا ہے کہ  یہ آگ کسی شارٹ سرکٹ کا نتیجہ ہرگز نہیں تھی ، بلکہ باہر سے خصوصی طور پہ بیحد مہلک اور شدید آتشگیر کیمیکلز  ڈال کے اس فیکٹری کو  جلا ڈالا گیا تھا ۔ اور یہی نہیں بلکہ دیگر کئی ایسے معاملات اور شواہد بھی سامنے آچکے ہیں کہ  جو اس المناک سانحے کی حقیقت کھول کے بیان کرچکے ہیں ۔۔۔
بیرون ملک سے پکڑ کے دبوچے گئے ملزم   عبدالرحمان عرف بھولا کے بیان سے بھی اس کی تصدیق ہوچکی ہے اور بعد میں اس کے اپنے بیان سے مکرجانے کی مکاری بھی اس کیس کے قانونی پہلوؤں کو کمزور نہیں کرسکی ہے کیونکہ دبئی سے پکڑکے لائے گئے اس آتشزنی کے ماسٹر مائنڈ حماد صدیقی نے بھی اس کا اعتراف کرلیا ہے اور اسی وجہ سے گزشتہ ہفتے مجاز عدالت نے بھولا کی نہ صرف درخواست ضمانت مسترد کردی ہے بلکہ عبدالرؤف صدیقی کو بھی اس میں شامل تفتیش کرنے کا حکم دیدیا ہے- لیکن اس ساری واضح اور بین صورتحال کے باوجود مصطفیٰ کمال نے بڑی شقی القلبی سے اس سانحے کو محض حادثہ کہنے کی بے رحمی اس لیے  کی ہے کہ چونکہ حماد صدیقی اس کا دست  راست رہا ہے اور اس کا وسیع نیٹ ورک چائنا کٹنگ اور بھتے سے کثیر رقوم حاصل کرنے کے لیے  بہت معروف ہے،چنانچہ اس کی بقاء ہی میں مصطفیٰ کمال اور اس کی پارٹی کی بھی بقاء مضمر ہے۔ لیکن یہ گھناؤنی حقیقت تو پھر بھی اپنی جگہ موجود رہے گی ہی کہ مصطفیٰ کمال نے محض اپنے چند مجرم ساتھیوں کو بچانے کے لیے  اس قدر سفاکانہ بیان دینا ضروری سمجھا اور یوں انہوں نے اپنے ادنیٰ سیاسی مفادات کی خاطر ان مظلوم شہداء پہ روا رکھے گئے ظلم کا جی بھرکے مذاق اڑایا ہے ۔
کس قدروحشیانہ بے شرمی و لاتعلقی مضمر ہے ان کے اس بیان میں ، اور اسی طرح کے لوگوں کو دیکھ کے ہی لوگ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں واقعی دل نہیں ہوتا ۔۔۔۔ مجھے بڑی شرم آتی ہے اور بہت افسوس ہوتا ہے یہ جان کر کہ  شہر کراچی بلکہ سارے ملک کے بہی خواہ و ہمدرد بننے والے مصطفیٰ کمال نے صرف ایک اسی بیان کے ذریعے اپنی افسوسناک سوچ کو اجاگر نہیں کیا ، بلکہ وہ اس شہر کو مقتل بنا ڈالنے اور بھتہ خوری و تاوان طلبی کے ذمہ دار عناصر کے لیے  کھلی و غیرمشروط معافی طلب کرنے کا مطالبہ کرکے اپنی ذہنیت کو مکمل بےنقاب کرچکے ہیں ۔ وہ یہ کام شاید اس لیے  بھی کررہے ہیں کہ ایم کیوایم کی زیادہ تر سیاہ کاریوں والی کھیپ اب ان کے کیمپ کا حصہ بن چکی ہے اور جسے پورا آسرا ہے کہ اب اس کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا اسی لیے  میں نے چند ماہ قبل ایک مشترکہ دوست کے گھر ہونے والی دعوت میں انہیں اور انیس قائمخانی کو دوٹوک انداز میں برملا آگاہ کردیا تھا کہ میں ان کے اس کھلی و عام معافی دیئے جانے والے مطالبے کی بہت سختی سے مخالفت کرتا ہوں اور میری دانست میں ‌انسانی خون سے ہاتھ رنگنے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جانا چاہیے  ،کیونکہ اگر ایسا کیا گیا تو یہ اقدام مستقبل میں ہر چند سال بعد جرائم کی ایسی دھلائی کی لانڈریاں کھولتے رہنے کی بنیاد بن جائے گا –
میری اس سوچ کی پشت وہ تاریخی سچائی ہے کہ چور چوری سے جاتا ہے لیکن ہیرا پھیری سے نہیں جاتا ۔ جس کے منہ کو انسانی خون اور جیب کو ناجائز پیسہ لگ جائے اس کی شخصیت بالکل بدل جاتی ہے اور یہ گناہ اس کی رگوں میں خون کے ساتھ شامل ہوکے دوڑنے لگتے ہیں اور اس کی عادت و فطرت کا حصہ بن جاتے ہیں اور پھر یہ سرشت کبھی نہیں بدلتی بس صرف اتنا فرق پڑتا ہے کے حالات کے دباؤ میں کبھی ایک قدم پیچھے تو کبھی دو قدم آگے کا کھیل جاری رہتا ہے- میرے اس تجزیئے کو اس حقیقت کے آئینے میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ پی ایس پی کے کارکنان نے شہر میں جہاں جہاں بھی کنٹرول حاصل کرلیا ہے وہاں ویسے ہی چوہدراہٹ اور دھونس کا پرانا نظام بحال کرنا شروع کردیا ہے کہ جو الطاف حسین والی ایم کیوایم کی پہچان بن چکا تھا   اور اپنے اپنے زیرتسلط علاقوں میں وہ وہی پرانا  کھیل کھیل رہے ہیں اور پلاٹوں پہ قبضہ کرنے اور ناجائز تعمیرات کرنے والے بلڈرز کے سرپرست بنے ہوئے ہیں اور ان ناجائز تعمیرات کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے مقابل کھڑے ہوگئے ہیں ۔
اس ضمن میں مناسب ہے کہ  میں اپنے علاقے ناظم آباد کی مثال دیتا چلوں کہ جہاں پی ایس پی کے کارکنان کا نہ صرف ناجائز تعمیرات کرنے والی بلڈرز مافیا سے زبردست گٹھ جوڑ چل رہا ہے بلکہ وہ اس صورتحال کا خاتمہ کرنے کی مہم چلانے والے مجھ جیسے لوگوں کے منہ کو  آرہے ہیں – لیکن مجھے اپنی ذات کی حد تک اس کی پرواہ نہ پہلے تھی نہ اب ہے کیونکہ میں الطاف حسین کی جنونی آندھی کے سامنے بھی اپنی  فکر کا چراغ جلائے کھڑا رہا ہوں اور اب تو میری زندگی اسی طرح کی مہمات کے لیے  وقف ہوچکی ہے اورکیا خبر کس دن کسی گلی یا چوراہے پہ میں مار کے پھینک دیا جاؤں لیکن میں اسٹیبلشمنٹ کو واضح اور دو ٹوک پیغام دے رہا  ہوں کہ اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ ایم کیوایم کے یہ تمام اجزاء تمام گروپ ایک ہی جیسے ہیں اور ان سب میں موجود مجرموں نے مل جل کے ہی یہ سب جرائم کیے  ہیں لہذا کسی کو پاک اور کسی کو ناپاک سمجھنے کی غلطی ہرگز نہ کی جائے اور بڑے جرائم میں ملوث  کسی بھی مجرم کو ہرگز ہرگز معاف نہ کیا جائے البتہ بی اور سی کلاس کے مجرموں کے ساتھ کسی حد تک رعایت کا معاملہ کیا جاسکتا ہے – یہ بات نہ سمجھی گئی تو اس شہر کو نہ کبھی اسٹریٹ کرائمز سے پاک کیا جاسکے گا اور نہ ہی ریاست کے اندر ریاست بننے سے روکا جاسکے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply