یہ ہے داستانِ ربذہ ، ذرا دل لگا کے پڑھنا/ علی اکبر ناطق

ابھی مَیں ینبع اور بدر کے لیے نکلنے ہی والا تھا کہ سید محمد نقاب صاحب کا فون آیا ، میاں ناطق سُنا ہے آپ ینبع آ رہے ہیں ۔ مَیں نے کہا جی ہاں ، اُنھوں نے فرمایا ، مَیں ابھی چین میں ہوں ، شام تک جدہ پہنچ جاؤں گا اور کل شام سات بجے آپ میرے ساتھ ینبع میں کھانا کھائیے ۔ مَیں نے کہا واہ صاحب! نیکی اور پوچھ پوچھ  ۔ نقاب صاحب ایک عرصہ سے میرے فیس بک فرینڈ تھے ، اُن کی پوسٹیں بہت جاندار ہوتی تھیں اور اسٹبلشمنٹ کو میری طرح ملک کے لیے ناسور سمجھتے تھے ۔ لیکن اُن سے ملنے کا موقع نہیں ملا تھا ۔ شام سات بجے رضوان اور مَیں ینبع النخل سے لوٹے اور سیدھے اُن کے بتائے ہوئے ہوٹل پہنچے ۔ رضوان نے عذر کیا کہ آج چھٹی تھی اور مجھے بچوں کو باہر لے جانے کا موقع نہیں ملا ،ابھی تنگ کر رہے ہیں آپ کھانا کھاؤ اور مَیں بچوں کو سیرگاہوں میں چکر لگا آؤں، ورنہ ہفتہ بھر طعنوں سے جان نہ چھوٹے گی۔ جونہی مَیں ہوٹل میں داخل ہوا ، نقاب صاحب نے گلے لگا لیا جیسے مدتوں کے مانوس دوست ہوں ۔ مَیں نے دو لوگوں کا انداز ہ لگایا ہے ایک مولائی اور دوسرا آرٹسٹ چاہے دنیا کے کسی کونے کا رہنے والا ہو اور کسی بھی زبان سےتعلق رکھتا ہو ،فوراً مانوس ہو جاتے ہیں ۔ نقاب صاحب ملتے ہی مجھے لگا جیسے اپنے آپ سے ہی ملا ہوں ۔ اب جو اُنھوں نے کھانے کا آرڈر دیا تو سُن لیجیے جتنی کھانوں کی اقسام تھیں سب آرڈر کر دیں ۔ یہ سمندر کے کنارے ایک انتہائی نستعلیق سیرین ریستوران تھا۔ مجھے تو کھانوں کے نام نہیں آتے بس یہ سمجھیے کہ سب میں مٹن لازمی جزو  تھا ۔ رات گیارہ بجے تک بیٹھےرہے اور دکھ سکھ کھنگالتے رہے ،آخر اُنھوں نے زیارات کی تفصیل پوچھی۔ مَیں نے سب بتا دی ۔

کہنے لگے زیارت کے اِن سخت منصوبوں میں اگر آپ ربذہ شامل کرنا چاہیں تو کیسا رہے گا ۔مَیں نے کہا ،کیا یہ ممکن ہے؟ ربذہ تو ایک لق و دق صحرا اور ویرانہ ہے سینکڑوں میل تک پھیلا ہو ا،۔ نہ پانی نہ دانہ دنکا ۔ کُھلے آسمان کی چھتری ، ریت اور پتھر اور تنہا مسافر ۔ ٹیکسی والا تو دوہزار ریال میں بھی نہیں لے کر جائے گا ۔ نقاب صاحب بولے ارے میاں وہ سرے سے ہی نہیں لے کر جائے گا کیونکہ ٹیکسی وہاں جا ہی نہیں سکتی ۔ یہ کام میری گاڑی کرے گی ،بس تم جانے کی بات کرو ۔ اُن کے یہ کلمات سُنے تو میری باچھیں کھِل گئی ۔ حضرت ابوذر غفاری کا وطن اور آخری دنوں کی دربدری ، مدینہ شہر سے دیس نکالا ، اُمیہ زادوں کا دشمن اور مولا علی کا وفادار دوست ۔ مَیں نے کہا، نقاب صاحب کیسی باتیں کرتے ہیں آپ ، مَیں ابوذر کا بہت چاہنے والا ہوں ۔ وہ اہلِ بیتِ رسول کا وفادار اور مودت کرنے والا تھا ،

خیرپروگرام یہ بنا کہ کل صبح نو بجے نکلیں گے ، پہلے بدر کے میدان اور جنگ کا اچھی طرح جائزہ لیں گے ، اُس کے بعد مدینہ جائیں گے جہاں لحم مندی کھائیں گے اور دو نمازیں یعنی ظہرین مسجد نبوی میں پڑھیں گے ۔ پھر سیدھے ربذہ نکلیں گے ۔

لیجیے صاحب، رضوان صاحب نے صبح ساڑھے آٹھ بجے ناشتہ کروایا اور اتنے میں گاڑی لیے نقاب صاحب پہنچ گئے اور ہم ٹھیک نو بجے ینبع النخل کوسلام کر کے بدر کی طرف چل دیے ۔ ینبع سے بدر کا راستہ وہی ہے جو مکہ سے شام کا راستہ ہے ۔ سڑک کے دونوں طرف ریگستان اور ریگستان میں گھاس اور گھاس چرتی اونٹنیاں ۔ جس نے عرب کی اونٹنیاں دیکھی ہیں وہ جان لے کہ اُن کی کئی نسلیں ہوتی ہیں ۔ ہمارے ہاں یعنی انڈو پاک میں صرف گہری زردی مائل اونٹنیاں ہیں جن کی عرب میں قیمت بہت کم ہوتی ہے ۔ عربوں میں ایک اونٹنی کی قسم ہے جس کی رنگت سُرخی مائل سفید ہوتی ہے ، یہ بہت نایاب اور مہنگی ہوتی ہے ۔ اِس اونٹنی کا ذکر میری نظم سفیرِ لیلیٰ میں بھی موجود ہے ۔ اِس قسم کی اونٹنی کی نارمل قیمت چار لاکھ ریال ہوتی ہے اور جو ذرا مہنگی ہو اُس کی قیمت ملین میں ہوتی ہے ۔ جب حضرت عبداللہ کے عوض سو اونٹنیاں ذبح کی گئی تھیں تو وہ یہی سُرخ و سپید ناقہ تھیں ۔آپ حساب لگا لیجیے رسولِ پاک کے والد کی قربانی حضرت عبدالمطلب کو کتنے میں پڑی تھی ۔ خیر ینبع سے بدر تک اِن اونٹنیوں کے سیکڑوں گلے صحراؤں میں چر رہے تھے ۔ اور اِن کو چرانے والے ساربان اپنے ساتھ ساتھ بڑی بڑی لینڈ کروزریں لیے پھرتے تھے ۔ اور پانی کے ٹرالر اور خیمے ۔ ینبع سے ہمیں بدر پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹہ  لگا، اور عین اُس جگہ گاڑی روکی جہاں دستِ خدا نے نخوت کے خداؤں کی ناک مٹی پر رگڑی تھی اور اُن کی اکڑی ہوئی گردنیں اِس طرح خم کیں کہ پھر اُن پر ہمیشہ کی ذلت مسلط ہو گئی ۔ اِسی جنگ میں صرف مولا علی کے ہاتھ سے اڑتیس خبیث جہنم واصل ہوئے تھے ۔ اِس میں رسولِ خدا کے تین جانبازوں نے وہ جوہر دکھائے کہ کفار کو لنگوٹیاں چھوڑ کر بھاگنے کی پڑی ۔ یہ جانباز ، علیؑ شیرِ خدا ، حمزہ عقابِ خدا اور ابو دجانہ انصاری تھا ۔ اِن تینوں کی تلوار نے بدر کے نشیب و  فراز کو ایسا ہموار کیا کہ پھر اُنھیں اُٹھنے کا یارا نہ رہا ۔ خاص طورپر علیؑ نے اُن تمام غنڈوں کو قتل کیا جو رسولِ خدا کو قتل کرنے اُن کے گھر پر حملہ آور ہوئے تھے اور رسولِ خدا نے علی ؑ کو اِس لیے بھی بستر پر لٹا دیا تھا کہ اے علیؑ اِن بھیڑیوں کے چہروں کو اچھی طرح دیکھ لینا، کل تمھی نے اِن کو اِس گستاخی کی سزا دینی ہے ۔ لہذا تاریخ بتاتی ہے کہ بدر میں علیؑ نے اُن میں سے ایک بھی نہیں چھوڑا تھا۔

یہاں ہم نے ایک چائے والے سے چائے لی اور ڈبل پیسے دے کر لی ،مگر ہائے جس نے پنجاب کی چائے نہ پی ہو، اُسے کیا خبر چائے کیسے بنتی ہے ۔ اورچائے والا ڈیرہ غازی خان کا تھا ۔

نقاب صاحب علامہ اقبال کے کچھ زیادہ ہی فین ہیں ، اُنہی کی غزلیں سُنتے ہیں اُنھی کی نظمیں اور اُنھی کے فلسفے ۔ لہذا جب ہم باتیں کرتے تھک جاتے تھے ،وہ اقبال چلا دیتے تھے ۔ اب ہم نے بدر سے مدینہ کا وہ رستہ لیا جو رسولِ خدا نے اختیار کیا تھا ۔ اِس رستے پر بعض جگہوں پر نخلستان ، کنویں اور پرانے کھنڈرات جگہ جگہ نظر آئے ، جہاں ہم نے گاڑی روک روک کے تصویریں لیں ۔ نقاب صاحب کا کیمرہ بہت زبردست تھا ۔ اُنھوں نے گاڑی پر ایک کیمرہ  بھی لگا دیا  تھا  جو ہمارے راستے کی ویڈیو بنا رہا  تھا  ۔ یہاں کے پہاڑ اتنے کالے ہیں اور ایسے چمکتے ہیں جیسے ہیرے کی ابتدائی شکل ہو ۔ غالباً اِن پتھروں کی سطح پر وقت کا بہاؤ  کاربن پیدا کر دیتا ہے ۔ مَیں حیران ہوتا جاتا تھا اور اُس دور کی مشکلات کو دیکھتا جاتا تھا ۔ آخر دو گھنٹے میں ہم مدینہ پہنچ گئے ۔ راستے میں اُس کنویں کو بھی دیکھا جہاں رسولِ خدا نے منزل کی تھی ، اُس کا نام روحا تھا ۔

آخر مدینہ پہنچ ہی گئے ۔ پہلے نماز پڑھی ، پھر ایک لحم مندی ہوٹل پر گئے اور عرب کھانا کھایا ۔ بخدا جب سے مَیں زیارات کو آیا ہوں ،پہلے دن عربی کھانا چکھا ۔ مکہ ، مدینہ اور جدہ میں تو عربی کھانا سونگھنے کو نہیں ملتا ، خود عربی بھی گوجرانوالوی ، اور سرگودھوی کھانے لگے ہیں ۔ جدھر دیکھو پاکستانی ہوٹل ہیں ۔ یہاں پاکستانی اتنے ہیں کہ خود پاکستان میں اتنے نہیں ۔ اور پوری دنیا اِنھی کے ہوٹلوں سے کھانا کھاتی ہے ۔ وہی آدھی کنالی کے تیل میں پکے ہوئے ،چاہے بیچ میں کشتیاں چلا لو ۔ خیر مندی بہت مزیدار تھی اور صرف وہی کھا سکتا تھا جس کے پاس گاڑی تھی یعنی مدینہ سے کافی باہر ۔ اب ہمارا سفر ربذہ کی طرف شروع ہو گیا تھا ۔ یوں تو نقاب صاحب سے مَیں باتیں کرتا جاتا تھا لیکن میری تصور کی آنکھ تاریخ سے ہمکلام تھی ۔

ربذہ مدینہ کے مشرق میں کوئی تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر عین صحرا کے بیچوں بیچ ایک قریہ تھا ۔ بنو غفار یہاں آباد تھے اور یہ جگہ بالکل وہاں واقع ہے جہاں سے اسلام سے قبل مکہ کے لیے عراق اور ریاض کے حاجی یہاں سے گزرتے تھے ۔ بنو غفار قبیلہ اُنھیں لوٹ کر اپنا بندوبست چلاتا تھا ۔ وہ اِس لیے یہاں آباد تھے کہ جنھیں لوٹتے تھے وہ اُن کا پیچھا نہ کر سکیں۔ اگر پیچھا کریں تو صحرا میں رستہ کھو جانے کے سبب اور پیاس کے سبب مر جائیں اور بنوغفار تک نہ پہنچ پائیں۔ یہاں رستہ کھونے کا امکان سو فیصد تھا ۔ اسلام کے بعد بنو غفار نے رہزنی بھی چھوڑ دی اور جب رہزنی چھوڑی تو یہ علاقہ بھی چھوڑ دیا کہ اب اِس کی رہائش کے لیے کوئی افادیت نہیں تھی ۔

ہم حناکیہ سے دائیں ہاتھ گزر کر حسو جانے والی سڑک پر ہو گئے اور کم و بیش ساڑھے تین بجے سہہ پہر ہم نے صحرا کے اندر گاڑی کو داخل کر دیا ۔ یہ حدِ نگاہ تک ایسا پھیلا ہوا صحرا تھا جہاں پیدل چلنے والا ضرور مر کھپ جائے اور منزل نہ پائے ۔ شبنمی جڑی بوٹیاں اور تُمے کی بیلیں تمام صحرا میں پھیلی ہوئی تھیں ۔ بیچ میں کہیں کہیں سیاہ پہاڑیوں اور چٹانوں کے ٹیلے آجاتے تھے ۔ یہاں بھی اونٹ چرانے والے سُر خ و سفید اونٹ چرا رہے تھے ،اور مغنی گا رہے تھے لیکن اُن کے پاس این ایل سی جیسے بڑے بڑے ٹرک ساتھ تھے جن میں پانی ،اور خوراک کا بندوبست موجودتھا ۔ نقاب صاحب اگرچہ دو دفعہ ربذہ پہلے جا چکے تھے مگر اُنھیں رستے کا تعین کرنا پھر بھی مشکل ہو رہا تھا ۔ ایک جگہ ایک خیمہ لگا ہوا تھا ۔ نقاب صاحب نے گاڑی روک دی اور خیمے کی طرف چل دیے ۔ مَیں بھی ساتھ تھا ۔ ساربان سے دعا سلام کی ۔ اُس کا نام عبد المجید تھا اور مطیری قبیلے سے تعلق رکھتا تھا ۔ مطیری نے بڑی خوش اخلاقی سے ہمارا استقبال کیا ۔ نقاب صاحب چونکہ تیس سال سے سعودیہ میں ہیں اور عربی خوب جانتے ہیں ۔ لہذا عبدالمجید سے گپ لگانے لگے ۔ اُس نے ہمیں خیمے میں بٹھایا ، دو قسم کی کھجوریں لا کر سامنے رکھیں اور قہوہ کے دو تھرموس بھی سامنے رکھ دیے ۔ دونوں الگ الگ قسم کے قہوے تھے ۔ پہلے اُس نے ہمیں بالکل چھوٹے کپوں میں ایک ایک گھونٹ ایسے قہوہ کا پلایا جو پہلے کبھی نہ پیا تھا ، پھر اور پلایا ۔ لیکن وہ کپ میں صرف ایک ہی گھونٹ ڈالتا تھا ۔ لیکن یہ ایک گھونٹ بھی بہت سخت تھا ۔ اُس کے بعد معمول کے قہوے کا کپ بھر دیا ۔ وہ بھی بہت پُر لطف تھا ۔ عبدالمجید سے گفتگو کے دوران پتا چلا کہ وہ سعودیہ کی خفیہ پولیس کا آدمی تھا اور صحرا میں اُس کی ڈیوٹی تھی ۔اِس دوران وہ الگ بزنس کے طور پر اپنے اونٹ بھی چرا رہا تھا ۔ جب اُسے پتا چلا کہ مَیں شاعر ہوں تو بہت خوش ہوا ۔ اُس کی تواضح کے بعد ہم نےاُس سے رستہ پوچھ کر آگے کمر باندھی اور چل سو چل ۔

صحرا میں چلتے ہوئے آپ نے سمتوں کا صحیح اندازہ رکھنا ہوتا ہے ۔ جو سمتوں کو نہ پہچان سکے ،اُسے کبھی صحرا میں داخل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پھر وہ کبھی باہر نہیں نکل سکتا ۔ کافی آگے پہنچے تو پتا چلا کہ ہر دس بیس میل کے بعد عبدالمجید جیسے مزید ساربان پورے صحرا میں اپنے اونٹوں سمیت پھیلے ہوئے ہیں اور سب کے سب خفیہ پولیس کے لوگ ہیں ۔ہم اُنھی سے راستہ پوچھتے گئے اور چلتے گئے ۔ اصل میں ربذہ کے اِس صحرا میں سونے کی کانیں ہیں اور یہ لوگ اُن کی نگہبانی میں رکھے گئے ہیں ۔

بالآخر شام کی سیاہی پھیلنے کے قریب تھی کہ ہم ربذہ کے کھنڈرات کے پاس جا پہنچے ۔ اِس جگہ کو ایک جالی سے بند کیا گیا ہے ۔ یہیں پر نہرِ زبیدہ کے آثار بھی تھے اور ایک بہت بڑا تالاب بھی تھا ،جس میں نہر کا پانی گرتا تھا ۔ اِس سے پتا چلا کہ عراق کے حاجیوں کا بھی عین یہیں سے راستہ تھا ۔ مَیں نے گاڑی سے اُترتے ہی ابوذر کو سلام پیش کیا۔ یہاں اُن کی قبر کا تو کوئی نشان نہیں تھا مگر جس جگہ اُن کی کُٹیا تھی وہ جگہ معلوم تھی ۔ چاروں طرف گاہے گاہے کیکر تھے ، صحرائی جھاڑیاں تھیں ، اور تمے تھے ۔ باقی لق و دق صحرا تھا ۔ یہیں ابوذر نے اپنی جبری مدینہ بے دخلی کے دن گزارے ۔ یہاں کھڑے ہوئے مَیں سوچ رہا تھا کہ ابوذر ، اُس کی بیٹی اور بیوی کس تنہائی کو سہہ رہے ہوں گے جہاں سے اُن دنوں کوئی چرواہا تک نہیں گزرتا تھا ۔ بخدا یہی وہ حقیقی جدو جہد ہے جو انسانوں کے لیے ہدایت ہے ۔ نہ کہ مہنگے ہوٹلوں میں بیٹھ کر مہنگی شراب کے ساتھ انسانیت کی فلاح کی عیاشانہ گفتگو ۔ خدا کی قسم مجھے یہاں کھڑے ہوئے اِس قدر منافق مولویوں ، لبرلوں اورمقتدر لوگوں سے نفرت ہو رہی تھی کہ بیان سے باہر ہے ۔ خدا بھلا کرے نقاب صاحب کا ،شاید مَیں زندگی بھر یہاں نہ آپاتا ،اگر وہ نہ لاتے ۔ مَیں سمجھتا ہوں آلِ محمد کا مجھ پر خاص کرم بھی ہے اور خدا کا فضل بھی کہ وہ میرے لیے کیسے کیسے طریقے سے رستے کھولتا ہے ۔

اتنے میں سورج نے زمین کا ماتھا چومنا شروع کر دیا تھا یعنی وہ غروب ہونے جا رہا تھا اور صحرا کی شفق نے ہمارے چہروں پرسُرخی پھیر دی تھی ۔ یہاں تک کہ سورج مغرب کی طرف ایک لالے کا پھول سا بن گیا ۔ اب نقاب صاحب بولے،، میاں ناطق اب جلدی نکلیں کہ یہاں اندھیرا ہو گیا تو ہم صحرا سے نہ نکل سکیں گے ۔ بخدا میرا تو وہاں سے نکلنے کو جی نہیں کر رہا تھا مگر کیا کیجیے ۔ مَیں نے ابوذر کو آخری سلام کیا جس کے بارے میں رسولِ خدا نے فرمایا تھا ، ابوذر تُو تنہا کر دیا جائے گا ، پھر تنہا ہی مرے گا اور پھر قیامت کو اکیلا ہی اٹھایا جائےگا ۔

جب ابوذر کی وفات کا وقت آیا تو اُس کی بیوی نے کہا ،ابوذر تمھی بتاؤ  اب مَیں تمھیں کیسے دفن کروں گی اور اِس صحرا میں کیسے رہوں گی ۔ ابو ذر نے کہا ، مجھے اِس واقعے کی رسولِ خدا نے خبر دی ہوئی ہے ۔ تم فلاں رستے پر جا کر کھڑی ہو جاؤ، یہاں سے کچھے سوار گزریں گے ،اُنھیں کہنا ابوذر فوت ہو گیا ہے ، وہ میرا کفن دفن کریں گے ۔ چنانچہ ابوذر کی وفات کے بعد اُس کی بیوی نے وہی کچھ کیا ۔یہاں تک کہ عین اُسی وقت وہاں مالک اشتر اور عبداللہ بن مسعود پہنچے ، یہ حج کر کے مکہ سے لوٹ رہے تھے ۔ اُنھوں نے دیکھا کہ ایک عورت تنہا کھڑی ہے ، فوراً سواریاں روکیں تو اُس نے کہا مَیں ابوذرکی بیوی ہوں ، وہ فوت ہو چکے ہیں ۔ یہ سُن کر فوراً اترے اور آ کر ابوذر کو دفن کیا ۔ ایک ہی بکری رہ گئی تھی ، اُس کی بیوی نے کہا ، ابوذر نے وصیت کی تھی کہ مجھے دفن کرنے والوں کو یہ بکری ذبح کر کے کھلا دینا ۔ پہلے اِسے ذبح کرو اور کھاؤ ، پھر آگے جاؤ ، چنانچہ ویسے ہی کیا گیا ۔ مالک اشتر نے اپنے احرام کی دو چادروں کا ابوذر کو کفن دیا اور عبداللہ ابن مسعود نے جنازہ پڑھایا ۔ اُس کے بعد دفن کیا ۔ تب ابوذر کی بیوی اور بیٹی کو اپنے ناقہ پر سوار کیا اور آخری سلام کر کے اُنھیں بھی اپنے ساتھ عراق لے آئے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم نے بھی ابوذر کو ویسے ہی عقیدت بھرا سلام کیا اور واپس ہوئے ۔ واپسی پر ایک جگہ ہماری گاڑی ریت میں دھنس گئی اور ایک دفعہ تو یہ لگا کہ اب نہ نکل پائیں گے ۔ خیر نیچے اُترے اور کافی سوچ بچار کے بعد نقاب صاحب نے چاروں ٹائروں سے ہوا نکال دی اور بیک گیئر لگا کر اللہ اللہ کرکے گاڑی نکال ہی لی ۔ تب ہم نے سمتوں کی احتیاط سے نہایت زیادہ کام لیا اور آخر کا حسو کی سڑک کو چھو لیا ۔ اور رات بارہ بجے مدینہ پہنچے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply