نظریاتی جنگ کے اعلان پر سال ختم اور نئے سال میں معرکہ کا آغاز/ڈاکٹر سلیم خان

پچھلے سال کا اختتام سرزمینِ ناگپور پر نظریاتی جنگ کے اعلان پر ہوا اور اب نیا سال فکری معرکہ کا ہوگا ۔ کانگریس کی 139؍ ویں سالگرہ کے موقع آر ایس ایس کے ساتھ نظریاتی جنگ کو راہول گاندھی نے اپنی گفتگو کا مرکزی موضوع بنایا اور اس کے جواب میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں ریلی نکال کر اس چیلنج کو قبول کرلیا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی اور کانگریس کی یہ نظریاتی لڑائی کیا گل کھلائے گی؟ راہول گاندھی نے اپنے خطاب میں ملک کے اندر پیر پسارے خوف کے ماحول کا ذکر کیا۔ بھارت جوڑو یاترا کے پہلے سے راہل گاندھی عوام کے دلوں میں پائے جانے ڈر پر گفتگو کرتے رہے ہیں ۔فسطائیت کا سب سے طاقتور ہتھیار ڈر ہے۔اس نظریہ کے تحت عام لوگوں کو پہلے افواہوں کی مدد سے اندیشوں کا شکار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد انہیں ایک خیالی دشمن سے خوفزدہ کیا جاتا ہے ۔ وطن عزیز میں وہ دشمن فی الحال مسلمان یا عیسائی ہیں ۔ اس کے بعد ان کے تئیں نفرت پیدا کرکے لوگوں کو تشدد کے لیے اکسایا جاتا ہے۔ اس طرح جو لوگ قتل وغارت گری کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں تو پھر ان کو جیل جانے کا خوف دلا کر بلیک میل کیا جاتا ہے۔ دیگر لوگوں کو یہ کہہ کر بہلایا پھسلایا جاتا ہے دشمن کے خلاف سنگھ پریوار ان کا نجات دہندہ ہے ۔

مودی جی کی جنم بھومی گجرات میں اس احسان کو یاد دلانے کے لیے وزیر داخلہ بڑی بے حیائی کے ساتھ بدترین فساد کو جائز ٹھہراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دیکھو ’ہم نے بیس سال قبل ایسا سبق سکھایا کہ امن و امان قائم ہوگیا‘۔ یہ سن کر فسطائیت نوازوں کو غصہ نہیں آتا بلکہ وہ خوش ہوکر بی جے پی کو غیر معمولی کامیابی سے نواز دیتے ہیں ۔ اس کے برعکس مودی جی کی کرم بھومی اترپردیش میں اندھ بھگتوں کے اندر پائی جانے والی نفرت کی آگ کو ہوا دینے کے لیے عتیق احمد کو بھائی و بیٹے سمیت قتل کرکےفخر سے اس کا کریڈٹ لیا جاتا ہے۔ مودی جی کے پہلے پانچ سال میں تو نہیں لیکن دوسری میعاد میں یہ کھیل خوب ہوا اور اب بھی جاری و ساری ہے۔ یہی و ہ فسطائی نظریہ ہے جس کے خلاف راہل گاندھی نے جنگ کا اعلان کررکھاہے اس بار عام لوگوں کے اندر پائے جانے والے ڈر کے بجائے بی جے پی میں شامل ہونے والے ایک سابق کانگریسی رکن پارلیمان کا تذکرہ کرکے بتایا کہ کس طرح فسطائی جماعت کے اندر بھی خوف و ہراس کا ماحول ہے ۔

راہول گاندھی کو اس نامعلوم رکن پارلیمان نے بتایا کہ وہ دل سے اب بھی کانگریسی ہے مگراس کا جسم بی جے پی میں ہے۔ اس کی وجہ دل کے اندر بیٹھا ہوا ڈرہے۔ اس رکن پارلیمان نے یہ بھی بتایا کہ بی جے پی میں آمریت ہے۔ اوپر سے آنے والے احکامات کو بلا چوں چرا قبول کرنا پڑتا ہے۔ راہول کے مطابق یہی دونوں نظریات کے درمیان کا فرق ہے ۔ بی جے پی کا بادشاہوں والا نظریہ کسی کی سننے کا روادار نہیں ہےجبکہ کانگریس پارٹی میں کارکنوں کی رائے کو سنا اور اس کا احترام کیا جاتاہے۔ راہول گاندھی کے مطابق کانگریس میں معمولی کارکن بھی روک ٹوک کر سکتا ہے کیونکہ وہاں عام آدمی کو بولنے کی آزادی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کانگریس کا نظر یہ ملک کی باگ ڈور عوام کے ہاتھ میں دینے کا ہے اور وہ ملک کو بادشاہت کے طرز پر چلانے میں یقین نہیں رکھتی حالانکہ راہول کی دادی اندرا گاندھی نے یہ کوشش کی تھی مگر انہیں اس کی زبردست قیمت چکاتے ہوئے عارضی طور پر سہی، اقتدار سے بے د خل ہونا پڑا۔

راہول گاندھی نے اپنے خطاب میں یہ انکشاف کیا کہ فی الحال یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرزکوان کی قابلت یا صلاحیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک نظریے کی بناء پر مقرر کردیا جاتاہے ۔
جب سے مرکز میں نریندر مودی کی حکومت آئی ہے، میڈیا، الیکشن کمیشن اور عدالتیں بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پائی ہیں۔نظریاتی مباحث کےبعد راہول گاندھی نے بے روزگاری کا سنگین مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ملک میں اتنی بے روزگاری کبھی نہیں تھی۔ راہول نے سوال کیا کہ ہر سال 2 کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن مودی نے 10 سال میں کتنے لوگوں کو روزگار دیا گیا ؟فی الحال ملک میں بے روزگاری کی شرح 40 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ لاکھوں نوجوان ملازمتیں نہ ہونے کی وجہ سے اپنی صلاحیتیں ضائع کر رہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ملک کے نوجوان روزانہ اوسطاً 7 گھنٹے موبائل فون پر اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں، کیونکہ ان کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ ملک کے ان نوجوانوں پر انشاء اللہ خان انشاء کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جسے پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بے کار بیٹھے ہیں

نجیب کے مختلف معنی میں سے ایک سپاہی بھی ہے اور بے روزگاری کی صورتحال نے مستقبل کے فوجیوں کو بھی پریشان کررکھا ہے۔ راہول گاندھی نے یہ انکشاف کیا کہ فوج نے 1 لاکھ 50 ہزار نوجوانوں کو اہل قرار دے کر انہیں نوکریاں دینے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں، لیکن مودی حکومت نے اگنی ویر اسکیم شروع کر دی اور ان ڈیڑھ لاکھ نوجوانوں کے لیے فوج اور فضائیہ کے دروازے بند کر دیے گئے۔ یہ لوگ رو رہے ہیں کیونکہ حکومت نے ان کی زندگیاں برباد کر دی ہیں۔ ابھی حال میں اسی لیے ایوان پارلیمان میں دونوجوانوں نے کود کر اپنا احتجاج درج کیا۔ ایوانِ پارلیمان کے اندر اور باہر راہول گاندھی اڈانی کے بہت بڑےناقد رہے ہیں۔ اسی کی وجہ سے ان کو عارضی طور اپنی رکنیت بھی گنوانی پڑی تھی اس لیے وہ ان پر بالواسطہ یا بلا واسطہ تنقید کرنے سے نہیں چوکتے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ملک کے خزانے چند سرمایہ داروں کے لیے کھول دئیے گئے ہیں اور ملک کا پیسہ ان کو دیا جا رہا ہے۔ کسان اور نوجوان مشکل میں ہیں ۔

اس میں شک نہیں کہ اگلا انتخاب کمنڈل کے مقابلے منڈل سے لڑا جائے گا۔ اس مسئلہ کو اٹھاتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا او بی سی، دلت اور پسماندہ طبقات کو اقتدار اور انتظامیہ میں بہت کم حصہ مل رہا ہے۔ ان طبقات کو تمام شعبوں میں بہت کم نمائندگی ہے۔مرکزی حکومت کے نوّے اعلیٰ افسران میں صرف تین او بی سی ہیں جبکہ ان لوگوں کی تعداد پچاس فیصد سے متجاوز ہے۔ اس لیے کانگریس پارٹی ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس سے پریشان ہوکر خود کو پسماندہ بتانے والے وزیر اعظم مودی نے کہنا شروع کردیا ہے کہ ملک میں صرف غریب ہی واحد ذات ہے۔ راہل نے تمام سماجی طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے وعدہ کیا کہ کانگریس اقتدار میں آتےہی ذات پر مبنی مردم شماری کرائے گی اور نوجوانوں کو روزگار دے گی۔ کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگےنے بھی اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ مرکز میں 32 لاکھ سرکاری عہدے خالی ہیں مگر مودی حکومت انہیں اس لیے پُر نہیں کر رہی ہے کہ کہیں پسماندہ طبقات کے لوگوں کو موقع نہ مل جائے۔

وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے کھڑگے نے کہا کہ ان کے پاس دنیا بھر کا سفر کرنے کا وقت ہے لیکن پارلیمنٹ میں آنے کے لیے نہیں ہے۔ایوان میں سوالات کرنے والے حزب اختلاف کے 146 نمائندوں کو معطل کر کے قانون منظور کروانا جمہوریت کا مذاق ہے۔ کھڑگے نے کہا کہ آئین نے خواتین، غریب اور پسماندہ طبقات کو مساوی حقوق دیے ہیں، لیکن بی جے پی حکومت عملی طور پر انہیں دینے سے انکار کرتی ہے۔ ان کے مطابق کانگریس پارٹی پھلے، شاہو، امبیڈکر کے نظریے کو مانتی ہے جبکہ مودی آر ایس ایس کے نظریے کی پیروی کرتے ہیں۔ مودی حکومت نے ملک پر 200 لاکھ کروڑ روپے کا قرض لاد دیا ہے، لیکن فلاحی اسکیموں کےبجٹ میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔ پسماندہ طبقات کے طلبہ کو کوئی اسکالرشپ نہیں دی گئی ہے۔ مودی حکومت میں دلتوں پر مظالم میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر بی جے پی کو نہیں روکا گیا تو یہ ملک برباد ہو جائے گا، آئین کو تباہ کر دیا جائے گا۔ کھڑگے اس یقین کا اظہار کیا کہ آنے والے پارلیمانی انتخابات میں مہاراشٹر اور ملک کی عوام جمہوریت کا مذاق اڑانے والی مودی حکومت اور بی جے پی کو ضرور سبق سکھائیں گی۔کانگریس کی یہ توقعات پوری ہوں گی یا نہیں اس بات کا علم نہ راہل اور کھڑگےکو ہے اور نہ یا مودی یا شاہ اسے جانتے ہیں۔

وطن عزیز میں نظریاتی مباحث یا بنیادی مسائل کو کس طرح نظر انداز کیا جاتاہے اس کی بہترین مثال ناگپور کے اجلاس والے دن سامنے آئی۔ اس روز مہاراشٹر کے ٹیلی ویژن چینلس نے راہل گاندھی تقریر براہِ راست نشر تو کی مگر اس کے فوراً بعداچانک ایک مشہور چینل پر نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نمودار ہوگئےاور نامہ نگار نے ان سے سوال کردیا کہ ناگپور کے اجلاس میں کرسیاں خالی کیوں تھیں؟ اس پرفڈنویس بولے کہ کانگریس کے ساتھ کوئی نہیں ہے اور نہ راہل گاندھی اس قابل ہیں کہ ان پر کوئی تبصرہ کیا جائے۔ کیا فڈنویس کا اس وقت ٹیلی ویژن کے پردے پر آجانا محض ایک اتفاق تھا؟ اور نامہ نگار کا سوال منصوبہ بند نہیں تھا؟ اور اس کا جواب بھی بنا بنایا نہیں تھا؟ ان سوالات کا جواب سب جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف چینلس پر بلکہ سوشیل میڈیا میں بھی سونیا گاندھی ایودھیا جائیں گی یا نہیں ؟ للن سنگھ کے استعفیٰ سے جے ڈی یو اور انڈیا نامی الحاق ٹوٹ جائے گا؟ کیا بہار کے اندر بی جے پی پھر سے اقتدار میں آجائے گی ؟ اس طرح کی بے بنیاد افواہوں سے عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹائی جارہی تھی ۔ عصر حاضر میں بکے ہوئے میڈیا کا یہ کردار فسطائیت کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کررہا ہے لیکن اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سوشیل میڈیا میدان میں اتر چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے اس سال برپا ہونے والی نظریاتی جنگ میں کون کتنا کامیاب ہوتا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply