• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ٹیلی نار مائیکرو فنانس بینک کے 12 ملازمین کا ایک ہی برانچ میں 51 کروڑ روپے سے زائد کا فراڈ۔ غیور شاہ ترمذی

ٹیلی نار مائیکرو فنانس بینک کے 12 ملازمین کا ایک ہی برانچ میں 51 کروڑ روپے سے زائد کا فراڈ۔ غیور شاہ ترمذی

یہ محاورے تو ہم سب نے سنے ہوئے ہیں کہ “ایک بِل سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جانا چاہیے” یا “آزمائے ہوؤں کو نہیں آزمانا چاہیے”- یہ مکالمہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی کسی سے دھوکہ کھاتا ہے اور اسے نصیحت کے طور پر آئندہ احتیاط کرنے اور ایک ہی گڑھے میں بار بار نہ گرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ لوگ دھوکہ کیوں دیتے ہیں؟- مالیاتی فراڈ کے مجرموں کا نفسیاتی تجزیہ کرنے والے ماہرین کے مطابق لوگ دوسروں کو دھوکہ چار وجوہات کی بنا پر دیتے ہیں۔ پہلی وجہ ہے زندہ رہنے کی خواہش، یعنی جب لوگ یہ سمجھ بیٹھیں کہ دھوکے بازی کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتے، کیونکہ کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا، اور یہ کہ، اُن کی دانست میں، یہ کام بغیر دھوکے کے چلنے والا نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ  لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کو اپنا  حق نہیں مل رہا اور یوں وہ روبن ہڈ کی طرح دوسروں کو لوٹنے کی کوئی توجیہ ڈھونڈ لیتے ہیں- دھوکہ دینے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ جب اتنے سارے لوگ دھوکے بازی سے کام لے رہے ہوں، تو آخر وہ خود ایسا کیوں نہ کریں ؟ یا یہ کہ، ایسا کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑے گا؟- اور چوتھی وجہ یہ کہ لوگ بے حس ہو چکے ہوں، اور انھیں اب پتا ہی نہیں کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ اور انھیں کسی ضابطہ کار و اصول سے کوئی سرو کار نہیں۔ بس، یہی وجہ ہے کہ آج ان کے بچے بھی یہی کچھ سیکھ رہے ہیں-

دھوکہ دہی اور فراڈ کی اسی طرح کی صورتحال سے ناروے کی مشہور ٹیلی کام فرم ٹیلی نار (Telenor) بھی گزر رہی ہے جس نے پاکستان میں اپنی انویسٹمنٹ کو بڑھانے کا فیصلہ کیا تو بنک کی لاہور میں واقع ایک برانچ کے 12 ملازمین اور 2 بیرونی ایجنٹوں نے باہمی اتحاد کر کے 51 کروڑ 40 لاکھ (یعنی 514 ملین روپے ۔ 30 ملین نارویجین کروانے) کا فراڈ کر ڈالا- یہ فراڈ ابھی تک صرف ایک برانچ کا ہے لیکن اس کی اصل ویلیو کا اندازہ بنک کی تمام 171 برانچوں میں جاری تحقیقات کی رپورٹس آنے کے بعد ہو گا۔بنک ذرائع کے مطابق ان 14 لوگوں نے مل کر 1638 قرضوں کی جعلی درخواستیں بوگس ناموں و کاغذات کی مدد سے تیار کیں اور ان کی بنیاد پر ہر درخواست کے عوض اوسطاً 3 لاکھ 15 ہزار روپے کے قرضے جاری کر کے 51 کروڑ 40 لاکھ روپوں کی رقوم بھی ٹرانسفر کر دیں۔ یہ سلسلہ فروری سنہ 2017ء سے اگست سنہ 2019ء تک کے اڑھائی برسوں پر ہی چل سکا جس میں صرف اسی برانچ سے اوسطاً 63 لوگوں کو ہر مہینے جعلی قرضے جاری ہوتے رہے جن کی واپسی اقساط بنک کو کبھی وصول نہیں ہو سکیں۔ جب بنک انتظامیہ نے ان درخواستوں کی فائلوں کو منگوا کر چیک کیا تو ان سب میں ایک طرز کی درخواست پیٹرن نے انہیں چونکا دیا- مزید تحقیقات پر انتظامیہ پر انکشاف ہوا کہ ہر درخواست پر بنک کی صرف اسی برانچ کے 12 ملازمین اور ٹیلی نار ایزی پیسہ کے 2 ایجنٹ ہی ملوث ہیں-

ٹیلی نار مائیکرو فنانس بینک (TMB) سنہ 2006ء میں کراچی p.c.h.s سوسائٹی میں قائم کیا گیا تھا جسے بعد سنہ 2008ء میں ٹیلی نار ناروے کی انتظامیہ نے خرید لیا تھا- حال ہی میں بنک انتظامیہ نے اپنے ہیڈ آفس کو مین خیابان نشاط، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کراچی میں منتقل کیا تو راقم کے دفتر واقع خیابان نشاط کی وجہ سے باقی بنکوں کی نسبت ان سے زیادہ علیک سلیک ہو گئی تھی- ٹیلی نار مائیکرو فنانس بینک (TMB) نے حال ہی میں چائنہ کی اینٹ فنانشل (Ant Financia) کو $184.5 ملین امریکی ڈالرز (تقریباً 29 ارب 50 کروڑ روپے) کی انویسٹمنٹ کے عوض 45٪ حصص بھی فروخت کیے تھے اور اندرون ملک پیسے ٹرانسفر کی اولین سروس ایزی پیسہ کو مزید کار آمد بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے جس کے۔ تحت ایزی پیسہ کے ذریعہ اپنے صارفین کو چھوٹے کاروبار اور زندگی کی دیگر ضروریات کے لئے چھوٹے قرضوں کی آسان شرائط اور جلد از جلد فراہمی جیسے اقدامات بھی شامل تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ TMB انتظامیہ 11 ارب روپے کی مزید سرمایہ کاری کر چکی ہے جس کے تحت ریٹیل صارفین کو آن لائن کاروبار کے لئے PayPal جیسے پےمنٹ سسٹم لانچنگ کی تیاریاں بھی کر رہے تھے تاکہ PayPal کی طرف سے پاکستان میں اپنی سروسز شروع نہ کرنے کا متبادل نظام تشکیل دیا جا سکے-

پاکستان میں بنک TMB انتظامیہ نے ستمبر 2019ء کو ناروے ٹیلی نار کو اس ممکنہ فراڈ کے بارے اطلاعات فراہم کی تھیں جس کے فوراً بعد ٹیلی نار بورڈ کی ہدایات کی روشنی میں اس پر تحقیقات شروع کر دی گئی تھیں- بنک انتظامیہ نے یہ معلومات فوری طور پر سٹیٹ بنک آف پاکستان کو بھی مہیا کر دی تھیں جن کی طرف سے TMB بنک انتظامیہ کو مکمل تعاون فراہم کیا گیا- بنک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بنک کے ویجیلینس ڈیپارٹمنٹ کی اطلاعات کی روشنی میں شروع کی جانے والی ان تحقیقات کے دوران ہی اس ایک برانچ سے منسلک بنک ملازمین کے 12 رکنی فراڈی گروہ اور ایزی پیسہ ایجنٹس کے 2 لوگوں کے بارے معلومات حاصل ہو سکیں جنہوں نے اب تک کی تحقیقات کی روشنی میں جعلی قرضوں کی فراہمی کے ذریعہ بنک کو 51 کروڑ رہوں سے زیادہ کا نقصان پہنچایا ہے۔ بنک انتظامیہ ان ملزمان سے غبن شدہ رقم کی واپسی کی کوششیں کر رہی ہے اور اس ضمن میں ان ملزمان کے خلاف پولیس میں ابتدائی تحقیقاتی رپورٹس (ایف آئی آر) درج کروا دی ہے-

بنک TMB انتظامیہ کی طرف سے مقرر وکیل وحید ریاض نے اس فراڈ میں ملوث ان اہلکاروں میں سے کئی ایک سے کل بروز ہفتہ 7 دسمبر ملاقات کی مگر ان میں سے کئی ایک نے جرم کی صحت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا- چونکہ ان ملزم اہلکاروں میں سے بڑے سرغنہ اہکار اس میٹنگ میں حاضر نہیں تھے جس کی وجہ سے یہ میٹنگ ملتوی کر دی گئی- بنک انتظامیہ نے ان تمام 12 ملازمین اور ایزی پیسہ کے 2 ایجنٹوں کے خلاف پولیس میں فراڈ الزامات کے تحت مقدمہ بھی درج کروا دیا ہے جسے قانونی ماہرین ان ملزمان کو ملنے والی بڑی رعایت کے طور پر دیکھ رہے ہیں کیونکہ پولیس کے پاس مالیاتی فراڈ کی تحقیقات کا تجربہ  اور وسائل نہیں ہیں- بادی النظر میں یہ مقدمہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) بنکنگ کرائم سرکل یا نیب کے حوالہ کیا جانا چاہیے تھا جو نہ صرف اس ایک برانچ بلکہ تمام برانچوں میں اس 12 رکنی فراڈی گروہ کے ساتھی گروہوں کو بھی ٹریس کرتے اور مزید فراڈ کی گئی رقوم اور جعلی قرضوں کا بھی پتہ چلاتے۔ خدشہ ہے کہ پولیس کے پاس اس کیس کو بھیجنے کی وجہ سے یہ تمام فراڈی اہلکاران سفارش اور ملک ریاض فیم پہیے لگا کر باآسانی نکل جائیں گے-

بنک وکیل وحید ریاض نے یہ تصدیق کی ہے کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی ایک ٹیم بھی TMB بنک برانچ میں جاری ان تحقیقات میں مدد دینے کے لئے پہنچی۔ ٹیلی نار کے ڈائریکٹر اطلاعات و میڈیا گرائی رہوڈ نارڈھس (Gry Rohde Nordhus) نے ایک نارویجین اخبار کو دئیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ چونکہ ابھی تحقیقات جاری ہیں، اس لئے وہ تفصیلات فراہم نہیں کر سکتے لیکن وہ بنک صارفین کو مکمل یقین دہانی کرواتے ہیں کہ بنک میں ان کی جمع کی ہوئی رقوم مکمل طور سے محفوظ ہیں۔ بنک انتظامیہ کے لئے ان کے 3 کروڑ سے زیادہ ایزی پیسہ اکاؤنٹ ہولڈرز کا اعتماد سب سے زیادہ ضروری ہےاور وہ اس فراڈ کو اپنے وسائل سے برداشت کرتے ہوئے اپنے صارفین کی مکمل اور بھرپور خدمت جاری رکھیں گے-

Advertisements
julia rana solicitors

بڑی ہمت ہے کہ نارویجین کمپنی والے ہمارے ہم چند ملکوں کی اس طرح کی دھوکہ بازی کے باوجود بھی اپنی انویسٹمنٹ کو بڑھانے کی باتیں کر رہے ہیں- یہ درست ہے کہ ’چیٹنگ‘، یعنی فریب ہر اس جگہ سامنے آتا ہے جہاں لوگوں میں وسائل کم اور ان کے حصول کے لئے مقابلہ سخت ہو اور جہاں لوگ دوسروں کی محنت سے خود فائدہ اٹھانے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔ لیکن جس کمپنی نے آپ کو ملازمت دی ہو، دوسروں کی نسبت زیادہ تنخواہیں و مراعات دی ہوں اور جو مزید انویسٹمنٹ کر کے اپنا بزنس بڑھانا چاہتا ہو جس کی وجہ سے ان لوگوں کو مزید ترقی بھی ملنی ہو اور روزگار کے نئے مواقع بھی کھلنے ہو وہاں اس طرح کے فراڈ کرنے اور دھوکہ دہی کرنے کے بعد یہ کیسے ممکن رہے گا کہ دوسرے غیر ملکیوں کو بھی اپنے ملک میں انویسٹمنٹ کرنے کی طرف راغب کیا جا سکے- دھوکے بازی ایک بیماری کی طرح ہوتی ہے جسے اگر وقت پر قابو نہ کیا جائے تو مزید پھیل جاتی ہے۔ نہایت ضروری ہے کہ TMB بنک ملازمین کے ان فراڈی گروہ کو تیز ترین قانونی کاروائی کے ذریعہ سخت ترین سزا دی جائے تاکہ معاشرے کے عام لوگوں پر ان گندے انڈوں کی دھوکہ دہی کے اثرات کو کم کیا جاسکے۔ مستقبل میں اِس طرح کے فراڈ کی روک تھام میں انسانی ضمیر کا جاگتے رہنا ایک اہم کردار ادا کرتا ہے جس کے لئے لوگوں کو غلط کام کرنے پر شرمندہ کئے جانے کی مشق کی جائے تو وہ ایسے کاموں سے دور رہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ، غلط کاموں پر سزا اور اچھے کاموں پر جزا کا رواج بھی مددگار و معاون ثابت ہو سکتا ہے-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply