اور میں نم دیدہ نم دیدہ (2)-ابوبکر قدوسی

ابو الحسن علی قدوسی میرے چھوٹے بھائی ہیں ، جدے میں رہتے ہیں اور جدہ یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں ۔ آپ نے یو ای ٹی لاہور سے کیمیکل انجینئرنگ میں بیچلر کیا ، اور بعد میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ۔ اس کے بعد ملائشیا چلے گئے ، وہاں سے اپنے مضمون میں پی ایچ ڈی کی اور یوں وہ ڈاکٹر ابو الحسن علی قدوسی بن گئے ۔ ہم چار بھائی ہیں ، میں ابوبکر صدیق جس کو آپ ابوبکر قدوسی کے نام سے جانتے ہیں ۔ مجھ سے چھوٹے عمر فاروق قدوسی ، آٹھ دس کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ان کی سیرت النبی پر ایک کتاب “نبی رحمت کی راتیں” کو سیرت ایوارڈ بھی مل چکا ہے اور مکتبہ قدوسیہ پر آپ سب جن سے ملتے ہیں وہ آپ ہی ہیں ۔ تیسرے عثمان غنی قدوسی گرافک ڈیزائنر ہیں اور چوتھے یہ ابو الحسن علی قدوسی ۔

ہمارے کاغذوں میں لکھے نام ابوبکر صدیق ، عمر فاروق ، عثمان غنی اور ابو الحسن علی ہیں ۔ ہم چار بھائی ہیں اور ہمارے والد محترم نے ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی محبت میں ہم چاروں کے نام رکھے اور اللہ رب العزت کا بے حد و حساب شکر ہے کہ جس طرح حضرات خلفائے اربعہ میں آپس میں محبتیں تھیں اللہ نے ہمیں بھی آپس میں اسی محبت سے نوازا ۔ ابوالحسن میرا ایسے ہی احترام کرتے ہیں جس طرح کوئی بیٹا اپنے باپ کے سامنے مؤدب ہاتھ باندھے کھڑا رہتا ہو ۔
میاں محمد بخش نے لکھا تھا اور کمال یہ کیا کہ دو مصرعوں نے محبت کے تمام رشتوں کو پرو دیا
بھائی بھائیاں دے دردی ہوندے
تے بھائی بھائیاں دیاں باہنواں،
باپ نے سراں دے تاج محمد
تے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
ایئرپورٹ کے احاطے سے نکلے ، سامان ابو الحسن کی گاڑی میں رکھا اور گاڑی میں یوں بیٹھے کہ جیسے لمبی مسافتوں کا تھکا ہارا مسافر گہرے گھنے درخت کی چھاؤں میں آ جائے ۔ ابو الحسن گاڑی چلا رہے تھے اور میں ، گزرتی رات کے گہرے سایوں میں صبح کا منتظر ، جدہ دیکھ رہا تھا ۔ جدہ ایک بہت ترقی یافتہ شہر ہے لیکن ابھی تو ایک چار رویہ سڑک ہمارے پیش نظر تھی جس کے بیچوں بیچ ایک دیوار تھی ۔ ابوالحسن نے بتایا کہ یہ سڑک مکہ کو جاتی ہے اور یہ دیوار کے اندر ٹرین چلتی ہے ۔

لیکن میرا ارادہ تھا کہ جدہ کو اپنے اس سفر کے اختتام میں دیکھوں گا کچھ مسافت کی تھکاوٹ اور کچھ اگلی منزلوں کا شوق سو اس دیکھنے دکھانے کو بھی آئندہ پر موقوف کرتے ہوئے ابو الحسن کے گھر کو پہنچے ۔ جب بڑی سڑک سے ابو الحسن نے اپنے محلے میں گاڑی موڑی تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی ۔ عموما ًکفیل کفیل کا رونا روتے اپنے ہم وطنوں کی حالت زار کے بارے میں تصور یہی دماغ میں بندھا ہوتا ہے کہ یہ کوئی مفلوک الحال بستی میں رہنے والے ہمارے مظلوم بھائی شاید ہر وقت ڈبل روٹی بھی پانی میں ڈبو کے کھا رہے ہوتے ہیں لیکن یہ بڑی پوش آبادی تھی ، جس میں ابو الحسن رہ رہے ہیں۔ ویسے انہوں نے بتایا بھی کہ یہاں پہ پاکستانی کم ہیں اور عرب زیادہ رہتے ہیں ۔ ویسے تو پچھلے سفروں میں اور موجودہ سفر میں یہ مشاہدہ رہا کہ سعودی عرب کے محلوں کی سڑکیں بھی خاصی کھلی ڈلی ہے لیکن ابو الحسن کا محلہ خاصا وسعت لیے تھا ان کا گھر بھی گراؤنڈ فلور پر تھا اور ایک بڑے ڈرائنگ روم کے ساتھ دو بیڈ کا خاصا کھلا گھر تھا ۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنی رہائش پر کافی پیسے “ضائع” کر رہے تھے جو وہ پانی میں ڈبل روٹی بھگو کر کھا کے کافی بچت کر سکتے تھے ، لیکن شاید انہوں نے ایسا کرنا مناسب نہ سمجھا ۔ فجر کی نماز کا وقت ہونے کو تھا سو سامان وغیرہ رکھ کے ہم مسجد کو چل دیے جو ابوالحسن کے گھر سے قریب ہی تھی مشکل سے تین سے چار منٹ کا راستہ تھا ۔ بہت اچھا لگ رہا تھا ، یہ احساس ہو رہا تھا کہ ہم اسی فضا میں سانس لے رہے ہیں کہ جس دیس میں “وہ” رہتے تھے “وہ” چلتے تھے ، جیسے ہر ہر سانس “ان” کے لمس کو محسوس کر رہی ہو ۔۔
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو.
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو

ہر شے میں کشادگی کا احساس ہو رہا تھا مجھے سعودی عرب کی عام مساجد بھی ہمیشہ سے پسند رہی ہیں ۔ ان میں خاص طرح کی سادگی ہوتی ہے وسعت اور سہولیات کا تعلق گو وسائل سے ہوتا ہے لیکن صفائی ستھرائی کا تعلق انسانی ذوق اور شوق سے ہوتا ہے ۔ سو یہ مسجد بھی اسی ذوق کی آئنہ دار تھی ۔ لیکن ایک اور بات مجھے تھوڑا حیران کر رہی تھی کہ فجر کے وقت میں بھی نمازی یوں تیار ہو کر صفوں میں کھڑے تھے جیسا اہتمام ہم عموما جمعہ کے روز کرتے ہیں ۔ اس پر ابو الحسن نے مجھے بتایا کہ سعودیوں کا ایسا ہی مزاج ہے اپنے لباس پر بہت خرچ کرتے ہیں اس طرح خوشبویات کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں اور بے داغ و بے سلوٹ کپڑے پہنتے ہیں ۔

یہی وجہ تھی کہ بعد میں بھی بڑے بڑے شاپنگ مالز میں ، میں نے خوشبوؤں کی بڑی بڑی دکانیں دیکھیں جن کے باہر کوئی ایک مرد ہاتھ میں خوشبو کی بوتل تھامے آنے جانے والوں کو خوشبو سے رنگ رہا ہوتا ۔ ایک شاپنگ مال میں یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک شخص ہاتھ میں چھوٹی سی انگیٹھی لیے عود کا دھواں اڑا رہا تھا اور ماحول معطر ہوا جا رہا تھا “رنگ دے مجھے رنگ دے” کا منظر تھا۔
کبھی ہمارے ہاں بھی یہ منظر دکھائی دیتا تھا اب تو خال خال بی یہ سب دکھائی دیتا لیکن آج سے پچیس تیس برس پہلے تک تو میں دیکھتا تھا کہ ہاتھ میں ایک لکڑی کے کنارے پر چھوٹی سی انگیٹھی دھرے رمل اجوائن کا دھواں اڑاتے بازاروں میں پھرتے دکانوں میں داخل ہوتے اس دھوئیں کے بارے میں مختلف روایات بیان کرتے ۔ کوئی اس دھوئیں سے جنات کو بھگاتا اور کوئی بیماریوں کو اور کہیں جراثیم بھگائے جاتے ۔ یہ ایسی روایات سب ہمارے معاشرے میں ختم ہوتی چلی جا رہی ہے جو ہمارے مقامی ثقافت کا حصہ تھیں ۔ نئی نسل کو ان باتوں کا معلوم تک نہیں ہے ۔ ہم راوی روڈ میں رہتے تھے اور اردو بازار ہمارا کاروبار ، بھاٹی چوک سے ٹانگے میں بیٹھتے اور راوی روڈ جاتے نئی نسل کو ٹانگے اور یکے کی شکل بھی یاد نہیں ، ہمارے محلے میں “ماشکی” آتا تھا بغل میں چمڑے کا مشکیزہ لیے پانی کا چھڑکاؤ کرتا ، ہم نے اپنے بچپن میں اپنی ثقافت کے وہ مظاہرے دیکھے جو ہمارے لڑکپن کے ساتھ ہی آہستہ آہستہ دم توڑ گئے بالکل ایسے ہی کہ جیسے کوئی ثقافت حسرت و یاس سے ڈوبتے کی سورج کی طرح آہستہ آہستہ معدوم یادوں کے پاتال میں اتر جائے اور کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔

جدے میں سورج طلوع ہو رہا تھا اور ہم تھکے ہارے بستروں پر دراز ہو گئے ۔ ارادہ تھا کہ ظہر کے وقت مکے کو نکلیں گے ایک تو آرام مقصود تھا اور دوسرا یہ بھی مکہ میں جس ہوٹل میں قیام طے تھا وہاں کمرہ ظہر کے بعد ملنا تھا ۔ یعنی ادھر چیک آؤٹ ظہر کے وقت ہوتا ہے سو اگلے مسافر کی باری بھی تب ہی آتی ہے ۔

ظہر کے وقت اٹھے نماز پڑھی تو پرتکلف طعام سے ابو الحسن صاحب کی اہلیہ نے دستر خوان سجایا ہوا تھا میرے لیے اس میں خوشی کا سامان یہ تھا کہ ایک سبزی بھی بنی ہوئی تھی اور میری پسندیدہ یعنی ” آلو میتھی ” ۔ میں نے تو مزے سے آلو میتھی ہی کھائی اور اس کے بعد ندیدے مہمانوں کی طرح کہا کہ ایک ڈبہ پیک بھی کر دیجئے جو بعد میں قیام مکہ میں گرم کر کے کھایا ۔ اب کوئی ” آلو میتھی” پر تبصرے نہ کرے کہ ہمارے ” قومی لیڈر” میاں نواز شریف کا آلو گوشت بھی بہت مشہور ہے اور جب اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں اور آدھی قوم تین دہائیوں سے ” آلو گوشت” کو ووٹ دیے چلی جا رہی ہے تو اس کو بھی برداشت کیجیے ۔۔۔

کھانا کھا کر ہم سوئے منزل نکلے ویسے بھی اب مکمل آرام ہو چلا تھا اور طبیعت کچھ کچھ بے چین ہو رہی تھی ۔ کہ
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
ہم مکے کی راہ پر تھے ، اور سفر کٹنے کی جلدی کہ
وَاعْتَجِلْ فَالْوَقْتُ سَيْفٌ قَاطِعٌ”

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply