زینب کو بچائیں ۔۔انعام رانا

عرصہ ہوا کہ نیا نیا  یوکے آیا تھا۔ کسی جگہ کھڑا تھا اور ایک بہت پیاری سی بچی کھیل رہی تھی، مجھے اپنی ماہ نور یاد آ گئی اور اسے مسکرا کر کھیلتے دیکھنے لگا۔ یکدم دو تین لوگ میرے اردگرد آ گئے کہ اوئے کیا مسئلہ ہے؟۔۔وہ تو میرے ساتھ موجود خاتون نے میری جان بچائی ورنہ شاید پولیس بھی بلا لی جاتی۔ اسی خاتون سے علم ہوا کہ اس معاشرے میں بچے کی حفاظت فقط ماں باپ ہی نہیں، پورا معاشرہ کرتا ہے اور ذرا سی شکایت ساری عمر کا وبال بن جاتی ہے۔

بطور وکیل اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو مغربی معاشرے میں سب سے خطرناک جرم سیکس آفینڈر ہونا ہے، یعنی جنسی حملے کا مجرم۔ ایک سیکس افینڈر رجسٹر ہے، اگر اس رجسٹر پہ اک بار نام آ جائے تو لوگ ذلت بھری زندگی کے بجائے خودکشی بہتر آپشن سمجھتے ہیں۔ بچوں کے معاملے میں احتیاط کا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی ایسی جاب جہاں آپ کا بچوں سے رابطہ ہو سکتا ہے، اس کے لئے اپلائی کرنے سے پہلے آ   پ کا پورا ریکارڈ چیک کیا جاتا ہے کہ کیا آپ کسی بھی طور بچوں کے لئے نقصاندہ تو نہیں؟

دوسری جانب میرا پاکستان ہے۔ ہاں ہم بچوں سے پیار کرتے ہیں، بچے سانجھے سمجھتے ہیں مگر اسی پاکستان میں چھتیس فیصد بچے کسی نا کسی طور جنسی حملے کا شکار بنتے ہیں۔ میں بیس برس کا تھا جب ایک دوست کے ساتھ مارکیٹ کباب کھانے جاتا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ یہ دوست ہر دوسرے روز کباب کھانے کا بہانہ دھونڈتا ہے۔ دیکھا تو کبابیے کے ساتھ اس کی کچھ دس گیارہ برس کی بچی کھڑی ہے جسے وہ دوست غور سے دیکھے جا رہا ہے۔ میں نے کہا یار شرم کر بچی ہے، اس نے ایک درندگی بھری سسکی بھر کہ کہا، اوئے رانے اور تین سال میں کمال شے بن جانی، میں تو ابھی سے کنڈی ڈال رہا ہوں۔  میں اسی وقت وہاں سے اٹھ گیا اور پھر کبھی اس شخص کی شکل نہیں دیکھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ہی اردگرد  ایسے کئی درندے موجود ہیں اور یہ معصوم بچے ان کے سامنے بے یارومددگار ہیں۔

یہ بھی پڑھیںکوریا میں ریفیوجی ویزہ۔۔ محمد عبدہ

قصور کی زینب کا قتل اور اس سے درندگی ہر اس شخص کا دل چیر گئی جو انسان ہے۔ اچھا ہے کہ اک عوامی لہر اٹھی ہے، سیاستدانوں سے لے کر سوشل میڈیا تک سب آواز اٹھا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی مجرم پکڑا جائے، پھر وہ فرار کی کوشش کرے اور مارا جائے اور ہم لوگوں کو قرار آ جائے۔ سب بھول جائیں گے اور پھر کوئی زینب کوئی طلحہ خدانخواستہ اس درندگی کا نشانہ بنے گا اور پھر ہم یونہی چیخ رہے ہوں گے۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ وہ کون  سی جنسی کج روی ہے جو ایک درندے کو ایک معصوم بچے ،ایک پھول کو مسلنے کی ترغیب دیتی ہے۔ یقینا ً یہ نفسیاتی مسئلہ  ہو گا یا کسی معاشرتی کمزوری کا نتیجہ، مگر ہمیں ایسے درندوں سے اپنے بچے بچانا ہوں گے۔

ضرورت ہے کہ حکومتی اور معاشرتی سطح پر اہم اقدامات اٹھائے جائیں۔ ریاست کی سطح پر قانون سازی کی جائے ،جو ایسے کسی جرم کے مجرم کے لئے  فوری سزا کا نظام عمل میں لائے اور ایسا نظام موجود ہو جو ایسے کسی جنسی درندے کو کسی شہری کی اطلاع پر جرم سے پہلے  روکے۔ بچوں کو سکولوں میں شروع سے تربیت دی جائے کہ کسی استاد، مولوی، کزن، ماموں، چاچو تک پر ایک حد سے زیادہ یقین نا کریں۔ بچوں کو تربیت دی جائے کہ وہ کیسے فوراً  مدد کے لئے  آواز نکالیں۔ کم از کم سولہ سال تک ریاست بچے کے باپ کا کردار ادا کرے۔ اگر کسی بھی صورت یہ احساس ہو کہ بچے سے لاپرواہی برتی جا رہی ہے تو ریاست فوراً  ایسے بچے کو ماں باپ سے چھین لے۔  بچے کا ایسے ماں باپ کے پاس رہنے سے بہتر ہے کہ وہ ریاستی تحویل میں محفوظ ہو۔ بات تلخ ہے مگر زینب کے قتل کا کچھ ذمہ اس کے ماں باپ پہ بھی ہے جو بچے کسی کے پاس چھوڑ کر عمرہ کرنے چلے گئے۔

سب سے اہم ذمہ داری ہم سب پہ ہے بطور معاشرہ۔ ہم سب ہی کو اپنی اپنی جگہ بچوں کا محافظ بننا ہے۔ جہاں آپ کو شک بھی پڑے کہ کوئی بچہ خطرے میں ہے یا کسی اجنبی کے ساتھ ہے، ہمت کا مظاہرہ کیجئیے اور فوراً  دخل اندازی کیجئیے۔ اطمینان کیجئیے کہ بچہ محفوظ ہے۔ اپنے بچوں کو کبھی بھی کسی رشتہ دار تک کے حوالے اندھا اعتماد کر کے نا کیجئیے۔ جن بچوں کو آپ نے جنم دیا ہے ان کی حفاظت آپ کی شاید سب سے اہم عبادت ہے اور اس میں معمولی کوتاہی بھی  مت  کیجئیے۔ اپنے بچوں کی گھر پہ تربیت کیجئیے اور ان کو بتائیے کہ کیا حرکت اگر ان کے ساتھ کوئی بھی کرے تو ان کو فورا ً وہاں سے بھاگنا اور مدد کے لئے  پکارنا ہے۔ اپنے اردگرد موجود جنسی درندے پہ نظر رکھیے اور ان کو فوراً  رپورٹ کیجئیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

صاحبو !یہ جو معصوم پھول ہیں، یہ ہم سب کا مشترکہ گلشن ہیں۔ اور یہ جو کچھ سور ہمارے چمن میں گھس کر معصوم پھول کچل رہے ہیں، ہم سب کو انھیں مل کر تلف کرنا ہو گا۔ ہم سب کو مل کر زینب کو بچانا ہو گا!

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply