کرونا کی تباہ کاریاں اور مذہبی گروہوں پر تنقید۔۔آصف محمود

جیسے جیسے کرونا کا مرض پھیلتا جا رہا ہے ویسے ویسے چند مذہبی گروہوں پر تنقید بھی تیز ہوتی جا رہی ہے۔ اس تنقید کو لے کر ان جماعتوں کے افراد اور عام عوام دونوں چیزوں کو مکس کر کے خلط مبحث کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس وقت دونوں باتوں کو الگ الگ رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ معاملہ کھل کر واضح  ہو اور بیجا تنقید یا بے جا بحث سے بچاجا سکے اور اپنی توجہ اصل مسئلے کی طرف کی  جا سکے۔
دونوں باتوں کو سمجھانے سے پہلے واضح  کر دوں کہ تبلیغی جماعت مذہبی شناخت رکھنے والی جماعتوں میں شاید واحدجماعت ہو گی کہ جس سے نظریاتی اختلاف رکھنے والے بھی نفرت نہیں کرتے۔ اب آتے ہیں اصل نکات کی طرف۔

پہلی بات کرونا کا مرض نہایت موذی مرض ہے، جس نے بلا تفریق رنگ، نسل، قومیت، مذہب، مسلک، پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ہزاروں لوگ اب تک اس کے سبب زندگی کی بازی ہار چکے اور لاکھوں اس کا شکار ہو کر ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔ اس لئے اس وقت کرونا کے مرض سے بچنا اور دوسروں کو بچانا سب کے اوپر فرض ہے۔۔۔۔۔کرونا ایک مرض ہے جس کا تعلق کسی بھی مذہب سے نہیں بلکہ دنیائے طب سے ہے اور اس حوالے سے ڈاکٹروں، طبیبوں، اس شعبے کےمتعلقہ افراد، سائنسدانوں اور حکومتی اہلکاروں کی بات سنی جائے گی اور اس پر عمل کیا جائے گا، نہ کہ کسی مذہبی گروہ، مذہبی فکر یا کسی مخصوص مذہب کی بات سنی جائے گی۔ اس لئے اسے محض ایک طبی مسئلے کے طور پر دیکھاجانا چاہیے اور اس سے بچاؤ کے لئے دی گئی متعلقہ ہدایات پر عمل کیا جانا چاہیے۔یہ مرض لوگوں کے میل ملاپ سے، ہاتھ ملانے سے، گلے ملنے سے، آس پاس کسی انفیکٹڈ شخص کے چھینک یا کھانسنے سےاور وائرس سے متاثرہ جگہوں کو چھونے سے پھیلتا ہے۔۔اسی لئے پوری دنیا نے ہر جگہ ہر ممکنہ حد تک لاک ڈاؤن کر رکھاہے ،تاکہ یہ مزید پھیلنے سے رُک سکے۔ اس لئے اس وقت نماز باجماعت، تبلیغی اجتماع، ذاکرین کی مجالس، یا اس طرح کےکسی بھی مذہبی یا غیر مذہبی جلسے جلوس سمیت کسی بھی ایسے اجتماع سے بچنا چاہیے جہاں لوگ زیادہ جمع ہوں۔کیونکہ اجتماعی عبادات بہرحال انسانی جان سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔ انسانی جان کو بچانا اجتماعی عبادات یا کسی بھی اجتماعی جمگھٹے سے زیادہ ضروری اور اہم ہے۔

دوسری بات اگر لوگ آج تبلیغی جماعت پر تنقید کر رہے ہیں تو وہ اس وجہ سے کہ اجتماع میں اکٹھے ہونے سے، ایک دوسرے سے ملنے سے ،یہ مرض وہاں شامل افراد کو لگا اور پھر ان افراد نے جس جس علاقے کا رخ کیا یہ مرض وہاں وہاں تک پہنچ گیا۔ اس کی کئی مثالیں سامنے آ چکی ہیں۔ اس سے پہلے ایران سے آنے والے شیعہ ذائرین پر بھی یہی الزام لگاتھا اور بالکل درست تھا۔ مطلب ان دونوں گروہوں کی جگہ کوئی بھی دوسرا غیر مذہبی گروہ بھی ہوتا تو ان پر بھی یہی الزام لگتا اور درست لگتا۔ اس لئے یہ کہنا کہ تبلیغی جماعت پر لوگ اس لئے تنقید کر رہے ہیں کہ وہ تبلیغی جماعت سے نفرت کرتے ہیں درست نہیں ہے۔ یا یوں کہنا کہ صرف تبلیغی جماعت کو اس میں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے ٹھیک نہیں ہے۔تبلیغی جماعت کی وجہ سے کرونا کئی علاقوں بلکہ کئی ملکوں میں پھیلا تو یہ بات فطری ہے کہ الزام بھی آئے گا۔ ایک اور اہم بات یہ کہ شیعہ ذائرین اور تبلیغی جماعت والوں نے بھی شروع شروع میں کھلم کھلا  اس کا اعتراف کیا کہ کروناسے کچھ نہیں ہوتا ،اور با جماعت مذہبی رسومات لازما ً ادا کی جانی چاہئیں انہوں نے ڈاکٹروں اور حکومتوں کے احکامات کے برخلاف لوگوں کو اس بات سے مشتعل کیا کہ مذہبی اجتماعات میں شمولیت اختیار کی جائے۔۔۔۔کئی ایک مثالیں، مذہبی رہنماؤں کی تقریروں کی صورت ہمارے سامنے موجود ہیں۔ چنانچہ تنقید کا ایک سبب یہ بھی تھا اور بالکل حق بجانب تھا۔

اب کرنے کی چیز یہ ہے کہ تبلیغی افراد یا ایسے مذہبی گروہ بجائے تاویلات کرنے کے کھل کر سامنے آئیں اور اس بات کااقرار کریں کہ اجتماعات سے یہ مرض دوسروں تک منتقل ہو رہا ہے اور اپنے اپنے ماننے والوں کو سخت تاکید کریں کہ جس قدر ممکن ہو سکے خود کو اجتماعات سے الگ تھلگ رکھیں۔ یہ ایک واحد راستہ ہے جو مزید تنقید کا راستہ روک سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں اس وقت مل کر اس موذی مرض کا مقابلہ کرنا ہے تاکہ ہم خود کو اپنے پیاروں کو اس مرض کی ہلاکت خیزیوں سےبچا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام دوستوں سے دست بستہ عرض ہے کہ خدارا ان دونوں معاملات کو اپنی اپنی جگہ پررکھ کر دیکھیں۔ خلط مبحث کا شکار ہو کر اصل مسئلے کو دبنے مت دیں۔ ا آپ سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply