رابرٹ موگابے اور ان کا زمبابوے

’’روڈیشیا‘‘ اور رابرٹ موگابے یہ نام بیسوی صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی میں نہ صرف افریقہ بلکہ دنیا بھر میں سامراجیت اور سفید فام نسل پرستی کے خلاف مزاحمت کے درخشاں استعارے کے طور پر نمایاں ہوئے ۔زمبابوے جسے برطانوی استعمار نے ’’روڈیشیا‘‘ کا نام دیا،جہاں پانچ لاکھ سال پرانے آثار دریافت ہوئے ،’’بریڈ باسکٹ‘‘ کہلانے والا افریقہ کا زرخیز ترین علاقہ، کرومیم، سونے،چاندی ، کوئلے، سیسے اور تانبے وغیرہ کی دولت سے مالا مال۔ 1889میں انگریز تاجر سیسل جون رھوڈز کی ’’برٹش ساؤتھ افریقی کمپنی‘‘ کا قیام اور برطانوی فوج کی مدد سے زمبابوے سمیت ’’ شمالی روڈیشیا ( آج کا زمبیا)’’نیاسا لینڈ‘‘ ( آج کا ملاوی) پر قبضہ، 1965میں برطانوی افواج کا اخراج اور حکومت پر سفید فام نسل پرست وزیر اعظم ’’آئن سمتھ‘‘ کا قبضہ ،زمبابوے کے محنت کشوں،کسانوں کی حالت زار ،ہر جگہ ’’کالوں کا داخلہ منع ہے‘‘ کے بورڈ۔ یہ بورڈ سفید فام فاشسٹ حاکموں نے آویزاں کیے تھے جو اس ملک کا محض ایک فیصد تھے باقی 98فیصد سیاہ فام محنت کش اور 1فیصد ایشیائی محنت کش ،یعنی 1فیصدکے ہاتھوں 99فیصد کی زندگی جہنم۔ یہ تھا بیسوں صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی کا زمبابوے۔لیکن بیسویں صدی کا یہ زمانہ استعمار کی پسپائی اور سوشلسٹ رخ کی حامل قومی آزادی کی تحریکوں کی کامرانی کا بھی زمانہ تھا۔ایشیااور لاطینی امریکا کی طرح افریقہ بھی ’’انقلاب زندہ باد‘‘ اور ’’سوشلزم قوموں کی تقدیر ہے‘‘ کے توانا نعروں سے گونج رہا تھا ۔انگولا ،موزمبیق اور گنی بساؤ سمیت بہت سے مقامات پر ظالم اور مظلوم کے درمیان گوریلا جنگ کے میدانوں میں فیصلہ ہو رہا تھا ۔محنت کش عوام اور مظلوم اقوام کی ہیبت سے سرمائے کے فسطائی شہنشاہوں کا جلال خاک ہو رہا تھا اور ان کے تخت و تاج خاک نشینوں کی ٹھوکروں پہ تھے۔

زمبابوے میں 1960میں ہی ’’بلیک نیشنلسٹ موومنٹ‘‘ کا آغاز ہو چکا تھااور دارالحکومت ’’سالس بری‘‘( جو آزادی کے بعد ’’ہرارے ‘‘ کہلایا) میں احتجاجات روز کا معمول تھے۔ اسی سال ایک 35,36سالہ بلند حوصلہ اور انقلابی جذبوں سے سرشار نوجوان ’’رابرٹ گیبرال موگابے ‘‘ قومی آزادی اور سوشلزم جس کی منزل تھی، گھانا سے اپنے وطن لوٹ آیا ۔بیسویں صدی کے بہت سے انقلابی راہنماؤں کی طرح رابرٹ موگابے نے بھی ایک غریب کسان گھرانے میں جنم لیا ۔ وہ 21فروری1924کو ہرارے کے مضافاتی قصبے ’’کوماٹا‘‘میں پیدا ہوئے اور مختلف مشنری اسکولوں سے تعلیم حاصل کی ۔ 21سال کی عمر میں وہ ’’ٹیچر‘‘ بن چکے تھے لیکن ایک قابل اور ذہین طالبعلم ہونے کی بنا پر وہ مزید تعلیم کے لیے اسکالر شپ لے کر جنوبی افریقہ کی ’’فورٹ ہیر‘‘ یونیورسٹی جانے میں کامیاب رہے۔ سیاست میں ان کی دلچسپی اسی زمانے میں شروع ہوئی۔ وہ پہلے گاندھی جی کے’’عدم تشدد‘‘ کے فلسفے سے متاثر ہوئے لیکن جلد ہی مارکسی لٹریچر سے جلا پاکر کمیونسٹ بن گئے۔1952میں تعلیم مکمل کر کے وہ واپس زمبابوے آ گئے ۔کچھ عرصے بعد جب پڑوسی ملک گھانا نے انقلابی راہنما کوامے نکرومہ کی قیادت میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے والے پہلے افریقی ملک کا اعزاز حاصل کیا تو رابرٹ موگابے گھانا کے ایک ٹیچر ٹریننگ کالج میں ملازم ہو گئے ۔گھانا میں قیام کے دوران انھیں وہاں کے انقلابیوں سے بہت کچھ سیکھنے کے مواقع ملے۔یہاں سے وہ 1960میں واپس زمبابوے لوٹے ان دنوں دوقوم پرست جماعتیں میدان عمل میں تھیں ’’افریقین پیپلز نیشنل یونین ‘‘(ZAPU) جس کی قیادت’’ نکومو جوشوا‘‘ کر رہے تھے اور دوسری جماعت ’’زمبابوے افریقن نیشنل یونین ‘‘(ZANU)تھی جس کے راہنما ’’سٹ ہول ‘‘تھے۔رابرٹ موگابے نے پہلے
ZAPUمیں کام کیا اورپھرZANUمیں شمولیت اختیار کر لی جس کے وہ بعد میں سیکریٹری جنرل بھی منتخب ہوئے۔بدقسمتی سے یہ دونوں جماعتیں آئن سمتھ کی کی نسل پرست حکومت کے خلاف کم اور ایک دوسرے سے زیادہ الجھتی رہیں۔یہ صورتحال موگابے جیسے انقلابی کے لیے پریشان کن تھی جس کے نتیجے میں آئن سمتھ زمبابوے پر اپنی گرفت مضبوط کرتا چلا گیا ۔1964میں آئن سمتھ نے ’’لا ء اینڈ آرڈر‘‘ کی بحالی کے نام پر کسی کو بھی گرفتار کر کے مقدمہ چلائے بغیر جیل میں ڈالنے کا قانون پاس کیا اور اس کے نتیجے میں ہزاروں سیاسی کارکن جیلوں میں ڈال دیے گئے ۔نکوموجوشوا،سٹ ہول اور رابرٹ موگابے کوبھی گرفتار کر کے 10سال کے لیے حوالۂ زندان کر دیا گیا ۔

1974میں10سالہ قیدسے رہائی کے بعد رابرٹ موگابے موزمبیق چلے گئے جہاں کامریڈ سیمورا میشل کی قیادت میں پرتگیزی سامراج کے خلاف ’’فری لیمو‘‘ کی مسلح جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوچکی تھی۔ سوشلسٹ موزمبیق میں رابرٹ موگابے نے اپنی گوریلا فوج تشکیل دیکر زمبابوے روانہ کی جس نے جلد ہی آئن سمتھ کی سفید فام فاشسٹ حکومت کا ناک میں دم کر دیا ۔آئن سمتھ نے جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت سے بھی مدد لی جس کے نتیجے میں گوریلوں سے نمٹنے کے لیے جنوبی افریقہ کے فوجی دستے زمبابوے میں داخل ہو گئے ۔اس کے علاوہ آئن سمتھ کو امریکا سمیت دیگر سامراجی مغربی ممالک کی مدد بھی حاصل تھی مگر رابرٹ موگابے کے کمیونسٹ گوریلوں کی طاقت بڑھتی ہی چلی گئی ۔ اس موقع پر سوویت یونین اور دیگر سوشلسٹ ممالک کے ساتھ ساتھ افریقہ کے دیگر انقلابی ممالک بھی گوریلوں کی مادی و اخلاقی مدد کرتے رہے۔آخر کار 1979میں فاشسٹ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ایک معاہدے کے تحت ’’ایک فرد ایک ووٹ‘‘ کی بنیاد پر انتخابات کا اعلان ہوا ۔رابرٹ موگابے موزمبیق سے واپس لوٹ آئے اور ہرارے میں ان کا شاندار استقبال ہوا ۔مارچ 1980میں ہونے والے انتخابات میں ان کی جماعت نے قومی اسمبلی کی 80میں سے 57نشستیں جیت لیں اوررابرٹ موگابے ملک کے پہلے وزیر اعظم منتخب ہو گئے ۔18اپریل 1980کو برطانیہ نے بھی رسمی طور پر ’’رہوڈیشیا‘‘ کی آزادی کا اعلان کر دیا۔موگابے نے زمبابوے کا نام بحال کر تے ہوئے ملک کو ایک پارٹی کی سوشلست ریاست قرار دیا ،جس کے ساتھ ہی ’’نیشنلائزیشن‘‘ اور’’ زرعی اصلاحات‘‘ کا ایک نیا دور شروع ہوا جس کے باعث زمبابوے کے محنت کش عوام کو پہلی بار زندگی کے ہونے کا احساس ہوا ورنہ اس سے قبل ان کی حیثیت محض مشینی پرزوں کی سی تھی۔

دیگر انقلابیوں کی طرح رابرٹ موگابے کے ’’جرائم‘‘ کی فہرست بھی کافی طویل ہے جسے سامراج نے کبھی معاف نہیں کیا۔موگابے کے خلاف بھی وہ سارے پروپیگنڈے کیے گئے جو سامراج دنیا بھر میں انقلابیوں کے خلاف کرتا رہا ہے،ان کے خلاف بھی وہ سارے حربے آزمائے گئے جو سامراج کی پرانی عادت ہے،نکومو اور مورگن جیسے مہرے بھی میدان میں اتارے گئے لیکن اس کے باوجود زمبابوے کے عوام، محنت کشوں، کسانوں میں ان کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ حالانکہ ان 37سال میں دنیا کافی تبدیل ہو چکی ہے اور خود رابرٹ موگابے بھی۔1991میں سوویت یونین کے انہدام اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بطور کامریڈ رابرٹ موگابے اس ثابت قدمی کا مظاہرہ نہیں کر سکے جو کیوبا اور کوریا وغیرہ کے انقلابی قائدین نے کیا ۔موگابے نے بھی افریقہ کی دیگر انقلابی حکومتوں کی طرح ملک کے آئین سے مارکسزم، لینن ازم اور سائنٹفک سوشلزم جیسے حوالے ختم کر دیے اور کثیر الجماعتی انتخابات کا اعلان کر دیا ۔ رابرٹ موگابے سوشلزم سے ’’سرمایہ دارانہ جمہوریت‘‘ کے معیار پر آ گئے اب وہ ’’آمر‘‘بھی نہیں رہے بلکہ ہر بار بین الاقوامی معیار کے شفاف انتخابات کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں ، لیکن سامراج نے انھیں پھر بھی معاف نہیں کیا کیونکہ اتنا کچھ بدل جانے کے بعد بھی اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ رابرٹ موگابے کی اپنے عوام سے کمٹمنٹ اور سامراج مخالفت ہے ،ان کی وطن پرستی ہے اوروہ سامراج کی بجائے اپنے عوام کو جواب دہ ہیں۔

اگست 2013میں زمبابوے میں ہونے والے عام انتخابات میں رابرٹ موگابے مسلسل ساتویں بار الیکشن جیت کر ایک بار پھر ملک کے صدر منتخب ہو ئے ۔ زمبابوے کے محنت کش عوام بالخصوص سیاہ فام کسانوں کے مقبول راہنما کی جماعت ’’زانو پی ایف‘‘ نے 61فیصد ووٹ حاصل کر کے دو سو دس نشستوں پر مشتمل پارلیمان میں 137 نشستیں حاصل کیں جبکہ ان کی مخالف سامراج نواز اور حزبِ اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹک چینج (ایم ڈی سی) کے مورگن چنگرائے محض 34فیصد ووٹ ہی حاصل کر سکا تھا۔ الیکشن سے قبلBBC,CNNسے لیکر گارجین ، نیو یارک ٹائمز،فنانشل ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ تک سب نے حسبِ معمول موگابے کے اقتدار میں رہنے کو مشکل قرار دیا تھا ہے ۔یہ سامراجی میڈیا کا وتیرہ ہے کہ پہلے اپنی سامراجی خواہشات کا اظہار میڈیا کے ذریعے کیا جاتا ہے مگر جب اس میں ناکامی ہوتی ہے تو پھر یا تو کوئی اور راگ الاپنا شروع کر دیا جاتا ہے یاخاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ سورابرٹ موگابے کی فتح سے عالمی سرمایہ دار سامراجی میڈیا کو سانپ سونگھ گیا تھا۔صدارتی انتخابات کے نتائج سے قبل حزبِ اختلاف ’’ڈیموکریٹک چینج‘‘ (ایم ڈی سی)کے سامراج نواز رہنما اور سابقہ وزیر اعظم مورگن چنگرائے نے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے کمزور سے الزامات لگانے کی کوشش کی تھی لیکن افریقی یونین نے بیشتر پولنگ ا سٹیشنز پر ان انتخابات کو پر امن اور ضابطے کے مطابق قرار دیا۔ انتخابی امور پر نظر رکھنے والی ایک گروپ نے بھی ان انتخابات کو صحیح قرار دیا ۔ افریقی یونین کی جانب سے مبصرین کی سربراہی نائیجیریا کے سابق صدر اولیس گن اوباسانجو کر رہے تھے جن کے مطابق انتخابات کے دوران ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ اس میں عوام کی مرضی شامل نہیں تھی یا اس میں کوئی دھاندلی ہوئی ۔لیکن جمہوریت کے عالمی ٹھیکہ داروں کے لیے رابرٹ موگابے قابل قبول نہیں.

وہ اپنے وسائل پر دوسروں کی اجارہ داری کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی بھیک مانگنے سامراج کے در پہ گئے ۔ انہوں نے کبھی اس یوٹوپیا پر یقین نہیں کیا کہ ’’سامراج ختم ہو چکا ہے‘‘شدید نظریاتی تنقید کے باوجود کہ موگابے ایک ثابت قدم اشتراکی ثابت نہیں ہوئے البتہ وہ ایک اچھے سامراج مخالف وطن پرست ضرور ہیں۔ وہ بہرحال قابلِ تعریف ہیں جو اپنی آزادی،خود مختاری اور قومی وقار کے ساتھ سامراجی عزائم کے خلاف سینہ سپر ہیں ۔انہوں نے نہ تو معمر قذافی کی طرح سامراجیوں سے دوستی کی غلطی کی اور نہ ہی ان پر بھروسہ کیا ۔رابرٹ موگابے کا شمار ان چند عالمی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے جرات وبہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سامراجیوں کے ہاتھوں لیبیا کی تباہی اور معمر القذافی کی بہیمانہ شدت کی واشگاف لفظوں میں مذمت کی تھی ۔اتنا ہی نہیں بلکہ ستمبر 2012میں انہوں نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں لیبیا میں امریکی سفیر کے قتل پر ٹسوے بہانے والوں سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ معمر قذافی کے بہیمانہ قتل کی بھی مذمت کی جانی چاہیےجنھیں ہٹانے کے لیے نیٹو مشن کواستعمال کیا گیا، ان کے اہلِ خانہ کو بری طرح مارا گیا ۔اس موقع پر انہوں نے نام نہاد لبرل جمہوریت کے دعویداروں اور نگہبانوں پر پھبتی کستے ہوئے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کے ارکان میں افریقی ممالک کی تعداد ایک تہائی ہے پھر بھی افریقہ کو سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت حاصل نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رابرٹ موگابے کا مشہور قول ہے کہ ’’ میں گورے پر اس وقت ہی بھروسہ کر سکتا ہوں جب وہ مرا ہوا ہو‘‘رابرٹ موگابے کوئی نسل پرست فاشسٹ جنونی نہیں ہیں بلکہ جب وہ لفظ’’گورا‘‘ استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد مغربی سامراجی ہوتے ہیں نہ کہ زمبابوے کے سفید فام عوام۔خود زمبابوے کی کرکٹ ٹیم ہی کو دیکھا جائے تو انتہائی قلیل اقلیت میں ہونے کے باوجود بھی میرٹ کی بنیاد پرزمبابوے کی ٹیم میں سفید فام کھلاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے ۔اسی میرٹ کی بنیاد پر زمبابوے کی ٹیم میں وہاں کے ایشیائی باشندے بھی شامل ہیں اور سیاہ فام بھی۔رابرٹ موگابے93سال کے ہو چکے ہیں اور انھیں اس وقت دنیا کے معمر ترین صدر کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ بطور کمیونسٹ وہ کب کے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ البتہ ایک سامراج مخالف وطن پرست کے طور پر ان کا کردار خطے سمیت دنیا بھر میں ان تمام لوگوں کو ضرور آئینہ دکھاتا ہے جو امریکی سامراج کو ’’جمہوری‘‘ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں ،جو یہ کہتے ہیں کا سامراج کا وجود ختم ہو چکا ہے اور امریکہ اب قوموں کی آزادی کا حامی و مدد گار ہے۔

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”رابرٹ موگابے اور ان کا زمبابوے

Leave a Reply