انتخابی ضابطۂ اخلاق اور ہم/پروفیسر رفعت مظہر

8 فروری 2024ء کو پاکستان میں عام انتخابات ہورہے ہیں، سیاسی جماعتوں میں جوڑتوڑ جاری ہے لیکن ابھی تک انتخابی گہماگہمی کہیں نظر نہیں آرہی۔ اِس کی وجہ شاید یہ ہے کہ بعض حلقوں میں 8 فروری کو انتخابات منعقد ہونے پر تاحال شکوک وشبہات جنم لے رہے ہیں۔

یہ بہرحال طے کہ عام انتخابات مقررہ تاریخ پرہی ہوں گے کیونکہ پاکستان کی مقتدرترین ہستیاں، چیف آف آرمی سٹاف اور چیف جسٹس آف پاکستان اِسی تاریخ پر یکسوہیں۔ ویسے بھی آئین کے مطابق مارچ 2024ء میں سینٹ کے انتخابات منعقد ہونے ہیں اور اگر کسی بھی وجہ سے قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر ہوتی ہے تو سینٹ کے انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوگا۔

اِس صورتِ حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ تو بہرحال طے کہ عام انتخابات مقررہ تاریخ پرہی ہوں گے البتہ شاید یہ پاکستان کی تاریخ کے انتہائی ہنگامہ خیز انتخابات ہوں۔ اِس کی وجہ یہ کہ 9 اپریل 2022ء کو تحریکِ انصاف کی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نِت نئے سورج سے ہنگامہ خیزیاں ہی جنم لیتی رہیں۔ اِن ہنگامہ خیزیوں میں جہاں عمران خاں کا کردار نظر آتاہے وہیں”بندیالی کورٹ” کے غیرآئینی فیصلوں اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے کردار کو بھی تاریخِ پاکستان کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔

اِنہی ہنگامہ خیزیوں میں 9 مئی بھی ہواجو تحریکِ انصاف کے چہرے پر بَدنما داغ کی صورت ثبت رہے گا۔ اب تحریکِ انصاف کے سابق چیئرمین عمران خاں، صدر پرویزالٰہی اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی جیل میں ہیں البتہ سائفر کیس میں سپریم کورٹ نے عمران خاں اور شاہ محمودقریشی کی ضمانت منظور ہوچکی۔ عمران خاں تو 190 ملین اور توشہ خانہ کیس میں بھی گرفتار ہیں۔ باقی ماندہ الیکٹیبلز یا تو تحریکِ انصاف کو داغِ مفارقت دے چکے یا مفرور۔ بہرحال یہ بھی طے کہ عمران خاں کے چاہنے والوں کی قابلِ ذکر تعداد اب بھی موجود اِس لیے عام انتخابات میں ہنگامہ آرائی کا خطرہ سر پر منڈلاتا رہے گا۔

عام انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول جاری کر تے ہوئے بدھ کو ضابطۂ اخلاق بھی جاری کردیا جس کے مطابق “سیاسی جماعتیں، اُمیدوار اور اُن کے حمایتی کسی بھی شخص کو انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے، دستبردار کرانے یا نہ ہونے کی ترغیب دینے کے لیے تحائف یا رشوت دینے سے گریز کریں گے۔ الیکشن کمیشن کی تضحیک سے اجتناب کریں گے”۔

ضابطۂ اخلاق کی حدتک تو یہ بالکل درست لیکن کیا کبھی اِس پر عمل درآمد بھی ہوا؟ کیا اُمیدوار رشوت اور دباؤ کے تحت دستبردار نہیں کروائے جاتے؟ کیا الیکشن کمیشن کے پاس کوئی ایسا پیمانہ ہے جس کے مطابق یہ ثابت کیا جاسکے کہ کوئی اُمیدوار اپنی مرضی سے دستبردار ہوا؟ کہنے کی حدتک تو بجا لیکن حقیقت یہی کہ یہاں اُمیدواروں کو اغوا بھی کیا جاتاہے اور زورزبردستی سے دستبردار بھی کروایا جاتا ہے۔ رہی الیکشن کمیشن کی تضحیک کی بات تو گزشتہ چند برسوں میں محترم چیف الیکشن کمیشن کے خلاف اُسی سیاسی جماعت نے کیا کچھ نہیں کہاجو اُس جماعت کا اپنا انتخاب ہے۔

عمران خاں سمیت تحریکِ انصاف کے نمایاں رَہنماؤں نے چیف الیکشن کمشنر سکندسلطان راجہ صاحب کے خلاف کھُلے بندوں جانبداری کے الزامات لگائے، اُن سب کے خلاف توہینِ الیکشن کمیشن کے کیسز بھی رجسٹر ہوئے لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود الیکشن کمیشن کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔ عمران خاں کی یہ ” خوبی” ہے کہ وہ مَن مرضی کا فیصلہ نہ آنے پر یوٹرن لیتے ہوئے الزامات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں۔

2013ء کے عام انتخابات میں اُنہی کے مطالبے پر عدلیہ سے ڈی آراوز اور آراوز کا انتخاب کیاگیا لیکن اُن انتخابات میں بُری ہزیمت کے بعد اُنہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کو مخاطب کرکے کہا “کتنے میں بِکے؟”۔ نگران وزیرِاعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی کے انتخاب پر اُنہیں کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن انتخاب ہارنے کے بعد اُن پر بھی “پینتیس پنکچرز” کا الزام دھر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں کہہ دیا “وہ تو سیاسی بیان تھا”۔

اِس لیے یہ طے کہ عمران خاں جیل کے اندر ہوں یا باہر، 2024ء کے عام انتخابات میں نتائج اگر اُن کی مرضی کے مطابق نہ ہوئے تو وہ اِن انتخابات کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے اور سوشل میڈیا پر جو طوفانِ بدتمیزی بپا ہوگا وہ الگ۔ توہینِ الیکشن کمیشن کا فیصلہ تو ابھی نہیں آیا لیکن چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پانچ رُکنی کمیشن نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دے دیاہے۔

اب پی ٹی آئی سے “بلے” کا نشان بھی واپس لے لیاگیا ہے جس پر پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کردیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھتا ہے توپھر پی ٹی آئی کے تمام اُمیدوار مختلف انتخابی نشانوں کے ساتھ بطور آزاد اُمیدوار انتخابات میں حصّہ لیں گے۔

الیکشن کمیشن کے ضابطۂ اخلاق کے مطابق متحارب جماعت کے سربراہان اور اُمیدواروں کی نجی زندگی پر تنقید نہیں کی جائے گی۔ بجا! مگر پاکستان کی تاریخ میں 1988ء کے عام انتخابات سے لے کر اب تک کون سا ایسا انتخاب گزرا ہے جس میں سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی نجی زندگی پر تنقید نہیں کی گئی۔ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ سیاست کا سیاستدان کی نجی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔

حقیقت مگر یہی کہ سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ ذاتی ونجی زندگی کو ہی بنایا جاتا ہے۔ موجودہ دَور میں سوشل میڈیاپر جو غلاظت بکھیری جارہی ہے کیا الیکشن کمیشن یا پیمرا کے پاس اس کا کوئی علاج ہے؟ آپ ایسے اشخاص کے خلاف کیسے ایکشن لے سکتے ہیں جو بیرونِ ملک بیٹھے پاکستان کے سیاستدانوں اور اداروں کو نشانۂ تنقیدوتضحیک بنارہے ہیں۔

انتخابی ضابطۂ اخلاق کے مطابق اُمیدواروں کو پابند کیاگیا ہے کہ وہ انتخاب میں اپنے اخراجات کے لیے الگ بینک اکاؤنٹ استعمال کریں گے اور انتخاب جیتنے کے بعد ایک مہینے کے اندر اخراجات کی بینک سٹیٹمنٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں گے۔ الیکشن کمیشن نے اخراجات کی حد 10 لاکھ روپے مقرر کی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی درج کردیا گیا کہ اگر کسی اُمیدوار کی جگہ اُس کی جماعت یا دیگر لوگ اخراجات کرتے ہیں تو وہ اُسی اُمیدوار کے تصور کیے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کے ضابطۂ اخلاق کی یہ شِق محض مذاق لگتی ہے کیونکہ یہ کھیل کروڑوں کاہے لاکھوں کا نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں تو ایک صوبائی اسمبلی کے انتخاب پرہی اُمیدوار کروڑوں روپے خرچ کردیتے ہیں۔ پھر بھلا 10 لاکھ روپے کی کیا حیثیت۔ ویسے بھی مہنگائی کے اِس عفریت میں 10 لاکھ روپے سے زیادہ تو صرف پٹرول پر ہی خرچ ہوجائیں گے۔ اب ہوگا یہ کہ انتخابات کے بعد جیتنے والا اُمیدوار الیکشن کمیشن میں 10 لاکھ روپے کی بینک سٹیٹمنٹ جمع کروائے گاجسے خاموشی سے قبول کرلیا جائے گا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ الیکشن کمیشن ایسا ضابطۂ اخلاق جاری کرتا جس پر عمل درآمد ممکن ہوتا اور پھر اُس پر سختی سے عمل بھی کروایا جاتا لیکن یہ ضابطۂ اخلاق محض خانہ پُری ہے جس پر نہ تو انتخابی اُمیدوار عمل کریں گے اور نہ ہی الیکشن کمیشن کوئی ایکشن لے گا۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply