بنگلہ دیشی ،پاکستانی بھائی بھائی/ شہزاد ملک

صومالیہ کے دوسرے بڑے شہر ہرگیسہ میں ایک ہوسٹل نما جگہ تھی جہاں دوسرے شہروں اور قصبوں سے ملازمت کے لئے آئے ہوئے لوگ ٹھہرتے تھے اسی لئے مقامی زبان میں اسے” گوری کا شغالا “ یعنی کام کرنے والوں کا گھر کہا جاتا تھا صومالیہ اور ایتھوپیا میں جنگ چھڑ گئی تو دوسرے ممالک سے آئے ہوئے لوگوں کی حفاظت کی خاطر اس ہوسٹل کو مقامی لوگوں سے خالی کرا کے غیر ملکیوں کو اس میں ٹھہرایا گیا دو کمروں کے درمیان چھوٹے سے کوریڈور اور ایک باتھ روم والا سیٹ ہمارے حصے میں آیا, ہمارے دائیں طرف ایک ہندو فیملی تھی ,اس سے اگلے کمرے میں ایک بنگلہ دیشی مسٹر کبیر احمد مقیم تھے, وہ تنہا تھے ,ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی مگر بیوی فی الحال ساتھ نہیں آئی تھی, اس کے آنے کا سارا بندوبست کبیر صاحب نے کردیا ہوا تھا اور اب اس کے آنے کا انتظار تھا. اکیلے ہونے کی وجہ سے ہم ان کا خیال رکھتے تھے کوئی اچھی ڈِش بناتے تو ان کو بھجواتے, اس سال رمضان میں ان کی سحری افطاری کا اہتمام بھی ہمارے ہاں ہی ہوتا ,ہمارے بچوں کے ساتھ بھی وہ گھل مل گئے تھے۔شام کے وقت وہ اپنے کمرے سے نکل کر ہندو شرما فیملی کو ہیلو ہائے کرتے اور ہمارے بچوں کو آواز لگاتے ہوئے بلڈنگ کے لان میں رکھی کرسیوں پر جا کر براجمان ہوجاتے، بچے ان کی آواز سنتے ہی ان کے پاس بھاگ جاتے اور ان سے باتیں کرتے رہتے۔

کبیر صاحب اپنی تنہائی کے دن اسی طرح گذار رہے تھے۔ ہم اور وہ چونکہ ہم مذہب تھے اس لئے کھانے پینے میں کوئی تکلف نہ تھا، اور عبادات بھی سانجھی تھیں، ہمارے بائیں جانب ڈاکٹر مرشد بھی بنگلہ دیشی تھے ان کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات بہت اچھے تھے ،سچ تو یہ ہے کہ ہم اور بنگلہ دیشی اس پردیس میں یوں رہتے تھے جیسے بھائی بھائی ہوں ۔ہمارا یہ گہرا میل ملاپ ہندو شرما فیملی کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا چونکہ کبیر صاحب تنہا رہتے تھے اس لئے اکثر شرما جی اور ان کی بیوی آشا شام کو ان کے کمرے میں یا باہر لان میں ان کے پاس جا کر بیٹھ جاتے اور باتوں باتوں میں پاکستان کی برائیاں کرتے رہتے ،کبھی انہیں صبح ناشتے پر حلوہ پوری اور چنے کی دعوت دیتے ،کبھی مسز شرما زبردستی ان کے کپڑے دھوکر استری کر دیتیں، چونکہ ان کے اپنے بچے نہیں تھے یوں ان کے پاس کبیر صاحب پر احسان کرنے کا کافی وقت تھا ۔

وہ بیچارے مروت میں کچھ کہتے نہیں تھے مگر ان کے مرہون احسان ہونے پر شرمندہ ضرور رہتے، ایک جمعہ کو وہ ملک صاحب کے ساتھ مسجد نہ گئے تو ہمیں تشویش ہوئی، معلوم ہوا کہ سخت بخار میں مبتلا ہیں ،دوائیاں ہمارے پاس موجود تھیں، ساتھ کھچڑی بنا کر بھیجی تو معلوم ہوا کہ مسز شرما نے ان کے لئے کوئی کاڑھا پکا کر بھیجا تھا جس سے پیٹ بھی خراب ہوگیا ،اگلے تین دن کبیر صاحب بیمار رہے اور شرما فیملی کی پھرتیاں قابل دید تھیں، صبح شام ان کے کمرے میں جانا آنا لگا ہوا تھا، ہم لوگ مناسب حد تک بیمار پُرسی کرکے الگ رہے ،البتہ ان کی طبیعت کے مطابق کھانا پکا کر بھیجتے رہے۔

پاکستان توڑنے اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں بھارت نے جو کردار ادا کیا مکتی باہنی کے لوگوں کو بھارت میں تربیت دی ،بھارت میں بنگلہ دیش کی جلا وطن حکومت قائم کی ،اپنی فوج کے ذریعے پاکستان کے مشرقی حصے کو الگ کیا، اس کردار کی وجہ سے بھارت کے ہندو ساری دنیا میں پھیلے بنگلہ دیشیوں کے مائی باپ بنے رہتے ہیں، اور انہیں پاکستانیوں کے ساتھ ملتے جلتے دیکھ کر ان کے سینے پر سانپ لوٹتے ہیں، ان کے سامنے وہ پاکستانیوں کو غاصب اور ظالم ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں، اور اپنے آپ کو بنگلہ دیشیوں کا محسن اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ہرگیسہ کے کٹر ہند ؤوں کی آخری حد تک کوشش ہوتی تھی کہ بنگلہ دیشی پاکستانیوں کے قریب نہ پھٹکیں، وہ صرف بھارتیوں سے ہی ملیں اور ان کے ہی احسان تلے دبے رہیں، لیکن ایسا ہوا نہیں، کیونکہ ہمارے درمیان کلمۂ طیبہ کا رشتہ تھا جو دنیا کے تمام رشتوں سے زیادہ مضبوط ہے ،اللہ اور رسولﷺ تو ہمارا اور ان کا ایک ہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ سب مجھے اس لئے یاد آرہا ہے کہ آج یہ دسمبر کا مہینہ ہے ہمارے لئے سقوط ڈھاکہ کا دن اور بنگلہ دیش کے لئے یوم آزادی جس میں شمولیت کے لئے بطور محسن بھارتی صدر بھی وہاں پہنچے تھے، کچھ سال پہلے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی بھی بنگلہ دیش جا کر حسینہ واجد پر اپنا احسان جتا کر گیا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply